پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہوتوکہاجائے گا کہ پاکستان کی آدھی تاریخ مارشل لا کی اور باقی نصف مارشل لا کے اثرات سے نجات حاصل کرنے کی تاریخ ہے۔ اس اعتبارسے دیکھاجائے تو پاکستان کی تاریخ انجماد کی تاریخ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ پاکستانی معاشرے نے اپنے سیاسی مثالیے یا Political Ideal کی تلاش میں جتنے تجربات کیے ہیں اس کی مثال مشکل ہی سے تلاش کی جاسکتی ہے۔ بھارت آبادی کے اعتبارسے دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ بھارت کوکبھی مارشل لا کے تجرسے نہیں گزرنا پڑا۔ بھارت سیکولر اور لبرل ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھارت کی سیاسی تاریخ میں تجربے اور تنوع کی شدید کمی ہے۔ آزادی کے بعد سے 1970ءکے اواخرتک بھارت کی سیاست بنیادی طورپر کانگریس اور نہروخاندان کی سیاست تھی۔ 1970ءکے اواخرمیں اندراگاندھی نے سیاسی عدم استحکام کے خوف سے ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کیا تو اس کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوا اور بھارت کی مختلف جماعتیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے عنوان سے قائم ہونے والے اتحاد میں شامل ہوگئیں۔ اس اتحاد نے کانگریس کے خلاف انتخابات میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کی۔ لیکن اتحادکی نمائندگی کرنے والی مرارجی ڈیسائی کی حکومت پونے دوسال میں منہدم ہوگئی اور بھارت مرکزی حکومت کی سطح پر ایک بارپھر کانگریس کے غلبے کی جانب لوٹ گیا۔ بابری مسجدکی شہادت نے بی جے پی کو ملک گیر قوت بنادیا اور بھارت کی سیاست ایک طویل عرصے تک کانگریس اور بی جے پی کی سیاست بنی رہی اور آج بھی بھارت کی سیاست مرکزی حکومت کی سطح پر کانگریس اور بی جے پی ہی کی سیاست ہے۔ امریکا مغربی جمہوریت کے استحکام کی سب سے بڑی علامت ہے۔ امریکا میں خواندگی کی شرح بلند ہے۔ امریکا کا ابلاغی نظام غیرمعمولی ہے۔ امریکی معاشرہ تکثیریت یا Pluralismکی مثال کے طورپر پیش کیاجاتاہے لیکن اس کے باوجود امریکا کے سیاسی افق پر صرف 2سیاسی جماعتیں چھائی ہوئی ہیں۔ ان جماعتوں کے نام اگرچہ جداجدا ہیں اور انہیں دائیں بازو اوربائیں بازوکے حوالے سے بھی پہچانا جاتاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکاکی ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی ”جڑواں“ بہنوں کی طرح ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی معاشرہ ان جڑواں بہنوں سے آگے دیکھنے کے لیے تیارنہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم ہرآٹھ دس سال بعد ایک بڑا سیاسی تجربہ کرتی ہے اور ایک نئے سیاسی مثالیے یا Political Ideal کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہے۔ پاکستان میں 4 مارشل لا آئے ہیں اور چاروں کا شخصی رنگ ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ جنرل ایوب سیکولرازم اور پاکستانیت کا ملغوبہ تھے اور وہ شخصی اعتبارسے بروں ہیں یعنی Extrovert تھے۔ جنرل یحییٰ سیکولرزم اور پاکستانیت کے حوالے سے جنرل ایوب کا چربہ تھے لیکن ان کی شخصیت دروں بیں Introvert تھی۔ جنرل ضیاءالحق فوجی اسلام اور پاکستانیت کا آمیزہ تھے اور ان میں دروں بینی اور بروں بینی کے حوالے سے ایک توازن پایاجاتھا۔ جنرل پرویزمشرف اقتدارمیں آئے تھے تو جہاد اور دہشت گردی کو الگ الگ بیان کرتے تھے لیکن بعد میں ان کے لیے جہاد اور دہشت گردی ہم معنی ہو گئے۔ اس سے معلوم ہواکہ ان کا اسلام بھی دھوکہ تھا اور لبرل ازم بھی فریب تھا۔ وہ نہ دروں بیں تھے نہ بروں بیں تھے۔ ان کی شخصیت پر موقع پرستی کا غلبہ تھا۔ ان کا تصور حیات ”چلو تم ادھرکو ہوا ہو جدھرکی “تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے ”اسلامی سوشلزم“ایجادکیا۔ یہ اصطلاح آپ اپنی ضد تھی۔ اس لیے کہ اسلام حق تھا اورسوشلزم باطل اور حق و باطل کا امتزاج ممکن ہی نہیں۔ لیکن بھٹو نے اپنی شخصیت کے کرشماتی پہلو سے اس اصطلاح کو بھی چلادیا۔ یہ کھوٹکے سکّے کو کھرا بنانے کا عمل تھا ‘ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست سے ایک نئی سیاسی دنیا ایک نیا سیاسی کلچر وجود میں آیا۔ اس دنیا اور اس کلچرمیں کچھ تھایا نہیں لیکن ”نیاپن“ ضرورتھا۔ اس نئے پن میں ایک ایسی خوابناکی تھی کہ اس نے لاکھوں انسانوں کو سیاسی نیند میں چلنے والا یاPolitical Sleep Walker بنادیا۔ دلچسپ اور اہم بات یہ تھی کہ ایک جانب بھٹو صاحب سے شدید محبت کی جارہی تھی اور دوسری جانب معاشرے کا ایک بڑا طبقہ بھٹو صاحب سے شدید نفرت کررہاتھا۔ بھٹو صاحب کی حمایت یا مخالفت سے قطع نظر دیکھنے کی اصل بات یہ تھی کہ یہ دونوں رجحانات اس امرکے غمازتھے کہ معاشرے میں بے پناہ توانائی موجود ہے۔ ایسی توانائی جو انسانوں کو متحرک کرتی ہے ‘منقلب کرتی ہے ۔ یہ توانائی معاشرے کے بڑے کام آسکتی تھی مگر جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا نے معاشرے میں نظریاتی کشمکش کو معدوم کردیا۔ میاں نوازشریف کی شخصیت ہلکی پھلکی مذہبیت اورصنعتی وشہری نظام کے امتزاج کی علامت بن کر ابھری۔ یہ پاکستانی سیاست میں ایک اور قسم کا تجربہ تھا۔ بھٹو صاحب کی شخصیت بڑی تھی مگر ان کا پس منظر جاگیردارنہ تھا۔ چنانچہ میاں نوازشریف کی شخصیت میں ایک کشش پیدا ہوگئی۔ اس کشش کی انتہا یہ تھی کہ میاں نوازشریف نے دوتہائی اکثریت حاصل کی۔ ایم کیو ایم نے شہری سندھ میں قوم پرستی کے بخار کو اس سطح تک پہنچایا کہ اس کے لیے کوئی تھرمومیٹر کفایت نہیں کرتاتھا۔ ایم کیو ایم مہاجر قوم پرستی کے دائرے میں ایک خواب تھی۔ ایک نئی دنیا کی تشکیل تھی۔ مستقبل کی صورت گری تھی۔ اس نے لاکھوں لوگوں کے ”سیاسی عقائد“ کو تبدیل کیاتھا۔ پاکستان کی سیاست میں یہ خیال ہمیشہ سے موجود تھا کہ مذہبی جماعتوں کا عدم اتحاد کی سیاسی قوت کو منقسم کردیتاہے اور کسی مذہبی جماعت کے حصے میں کچھ نہیں آتا۔ چنانچہ مذہبی جماعتوںکا اتحاد پاکستان کی سیاست کا ایک خواب تھا اور یہ خواب بھی متحدہ مجلس عمل کی صورت میں پورا ہوا۔ اہم بات یہ ہے کہ مجلس عمل نے غیرمعمولی انتخابی نتائج پیدا کرکے دکھائے اور پاکستان کی سیاست میں پہلی بار مذہبی جماعتیں ایک بڑی سیاسی قوت بن کر ابھریں۔ اب ہمارے سامنے عمران خان کا تجربہ ہے۔ عمران خان ایسے ہیں یا نہیں یہ ایک الگ معاملہ ہے لیکن انہیں آزادی ‘خود مختاری‘ ایمانداری اور مذہبیت ولبرل ازم کا امتزاج سمجھاجارہاہے۔ وہ ایک جانب نوازشریف کے ووٹ بینک کو متاثرکرتے ہیں اور دوسری جانب غیرسیاسی لوگوں کو سیاسی بنارہے ہیں۔ اس تناظرمیں دیکھاجائے تو پاکستانی معاشرہ خوابوں کے ساتھ زندگی بسرکرنے والا معاشرہ ہے۔ پاکستانی معاشرہ تحرک سے لبریز معاشرہ ہے۔ یہ صورتحال اس کے باوجود ہے کہ پاکستان میں ہونے والے سیاسی تجربات نے حقیقی معنوں میں عوام کو کچھ نہیں دیا۔ لیکن یہاں یہ سوال ہے کہ اس صورتحال کے باوجود پاکستانی معاشرہ اپنے سیاسی مثالیے یا Political Idea سے محروم کیوں ہے۔؟ اس کی بنیادی وجوہ 2 ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستانی معاشرہ سیاسی مثالیے کو تلاش کرتے ہوئے اخلاقیات کو اہمیت نہیں دیتا حالانکہ سیاسی مثالیے کے حصول کے لیے اخلاقیات سے زیادہ اہم کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستانی معاشرے کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہجوم اور تنظیم میں فرق نہیں کرتا اور ہربار ہجوم جمع کرنے کی صلاحیت کو تنظیم پر فوقیت دے دیتاہے۔ جس دن پاکستانی معاشرے نے ان دونوں کمزوریوں پر قابو پالیا وہ دن پاکستان میں حقیقی انقلاب کا دن ہوگا۔
No comments:
Post a Comment