نسانی تاریخ میں خواب کاکردار حقیقت سے زیادہ اہم اور بنیادی ہے۔ یہاں تک کے خواب نے اکثر حقیقت کی صورت گری اور تشکیل نو کی ہے۔ خواب کا لفظ کم و بیش دنیا کی ہر زبان میں دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک Dream کے معنی میں اور دوسرا مثالیے یا Ideal کے مفہوم میں۔ خواب کو اگر Dream کہا جائے تو ثواب ماورا کی علامت ہے۔ تمام مذہبی روایتوں میں رویائے صادقہ یا سچے خوابوں کو مرکزی اہمیت حاصل ہے اور ہماری روایت میں سچے خواب نبوت کا وہ جزو ہیں جو نبوت کے خاتمے کے بعد بھی باقی رہ گیا ہے۔ خواب کو اگر مثالیہ یا Ideal سمجھا جائے تو مثالیہ انسانی زندگی کے کمال کو ظاہر کرتا ہے اور مذاہب کی تاریخ میں کمال کا تعلق ماورا سے ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دونوں معنوں میں لفظ خواب کا مفہوم تقریباً ایک ہی ہے۔
دنیا میں جتنی شریعتیں آئی ہیں انسانوں کو اس کمال کے حصول کے قابل بنانے کے لیے آئی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں خلقی طور پر رکھا ہوا ہے۔ لیکن شریعتیں صرف مجرد اصول بیان نہیں کرتیں شریعتوں کے ساتھ ”صاحب شریعت“ بھی موجود رہا ہے جو مجرد اصول کو ٹھوس انسانی تجربے میں ڈھال کر ایک اعلیٰ ترین مثالیہ یا Ideal تخلیق کرتا تھا۔ اس روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت آخری شریعت اور آپ کی ذاتِ گرامی آخری مثالیہ یا Ideal ہے اور اب قیامت تک پوری انسانیت کو اسی مثالیے سے خود کو ہم آہنگ کرنا اور اپنے اندرموجود خیر اور حسن و جمال کے امکانات کی دریافت کرنا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ¿ حسنہ پوری انسانی تہذیب اور پوری انسانی تاریخ کا مرکز ہے اور آپ کی سیرتِ طیبہ پوری انسانیت کا مشترکہ خواب ہے۔ لیکن انسانی تاریخ میں خواب یا مثالیے کی تفصیلات بے پناہ ہیں۔
اقبال نے خواب کے حوالے سے ایک بنیادی بات کہی ہے۔ اقبال نے کہا ہے:
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
”کئی“ تاریخ کے عظیم بادشاہوں میں سے ایک تھا۔ چنانچہ اقبال کے اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جیسا جس کا خواب ہوتا ہے ویسی ہی اس کی حقیقت ہوتی ہے۔ اگر کسی کا خواب عظیم بادشاہت ہو تو اسے عظیم بادشاہت مل کر رہتی ہے۔ اگر کسی کا خواب سقراط اور افلاطون بننا ہو تو وہ سقراط اور افلاطون بن کر رہتا ہے۔ انسانوں کی عظیم اکثریت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی خواہشوں میں الجھ کر رہ جاتی ہے چنانچہ ان کو چھوٹی چھوٹی چیزیں ہی عطا ہوتی ہیں۔ لیکن بعض لوگ اپنی خواہش کو ”پالتے“ ہیں اور اسے پال پوس کر ”آرزو“ بناتے ہیں۔ وہ آرزو پر بھی قناعت نہیں کرتے اسے ترقی دے کر ”تمنا“ میں ڈھالتے ہیں۔ خواہش کے تمنا بننے کا عمل ہی حقیقی معنوں میں خواب دیکھنے کا عمل ہے۔ خواہش ایک لمحے یا ایک دن کا خواب ہے لیکن تمنا پوری زندگی پر محیط ہوجانے والا خواب ہے۔ لیکن خواہش کا تمنا بن جانا کافی نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمنا کے لیے جدوجہد کو پسند کرتے ہیں۔ یہ جدوجہد روحانی اور ذہنی بھی ہوسکتی ہے اور عملی بھی۔
سقراط کا خواب حکمت پر مبنی یا Wisdom Based معاشرے کا قیام تھا۔ سقراط ایک مجسمہ ساز کا بیٹا تھا۔ نہ اس کے پاس دولت تھی، نہ طاقت تھی، نہ شاندار خاندانی پس منظر تھا مگر اسے حکمت سے محبت تھی اور وہ حکمت کو معاشرے میں عام ہوتے دیکھنا چاہتا تھا۔ سقراط نے اپنے اس خواب کے مطابق کام شروع کیا۔ وہ گلیوں اور بازاوں میں نکل جاتا، لوگوں کو جمع کرتا اور ان سے پوچھتا کہ تم صداقت کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ تمہارے نزدیک حسن کی تعریف کیا ہے؟ لوگ اسے بتاتے کہ وہ صداقت اور حسن کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ سقراط ان کی بات توجہ سے سنتا اور جب وہ اپنی بات کہہ چکتے تو سقراط انہیں آگاہ کرتا کہ ان کے خیالات کیوں غلط ہیں۔ وہ انہیں اصل حقائق پر مطلع کرتا۔ سقراط اس کام کا کوئی معاوضہ نہیں لیتا تھا بلکہ وہ پیسے لے کر فلسفہ پڑھانے والوں کو پسند نہیں کرتا تھا اور انہیں سو فسطائی یا علم بیچنے والے کہا کرتا تھا۔ سقراط کے اس ”علمی جہاد“ نے حکمت کو خواص کے دائرے نکال کر ”عوام کی چیز“ بنادیا۔ اس نے معاشرے کی روحانی اور اخلاقی استعداد بڑھا دی اور اس کی علمی و ذہنی سطح بلندکردی۔ سقراط کا اثر نوجوانوں پر سب سے زیادہ تھا۔ اس اثر نے افلاطون جیسی شخصیت پیدا کی جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پورا مغربی فلسفہ افلاطون کی فکر پر محض ایک حاشیے یا Footnote کی حیثیت رکھتا ہے۔ افلاطون کی فکر نے ارسطو کو جنم دیا جسے افلاطون مجسم عقل کہا کرتا تھا اور جسے دنیا نے معلم اوّل کا خطاب دیا۔ ان تینوں شخصیات کا زمانہ قبل مسیح کا زمانہ ہے مگر ان تینوں میں سے آج تک کوئی بھی پرانا یا Out dated نہیں ہوا اور دنیا کی کوئی ایسی تہذیب نہیں جس نے سقراط، افلاطون اور ارسطو سے کچھ نہ کچھ نہ سیکھا ہو۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سقراط کے خواب نے دنیا کو علم کی کیسی میراث عطا کی۔
کارل مارکس کے نظریات باطل تھے مگر سوشلسٹ انقلاب کارل مارکس کاخواب تھا اور اس خواب کے لیے اس نے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ اس نے مطالعے، تحقیق اور تحریر کے کام میں دن رات ایک کردیے۔ اس نے ایک طویل عرصے تک تنگدستی کی زندگی بسر کی۔ اس کا دوست اینگلز اس کی مالی مدد نہ کرتا تو مارکس اور اس کے بیوی بچوں کو فاقے کرنے پڑتے۔ مارکس کی زندگی میں ایک وقت ایسا آیا کہ اس کا بچہ بیمار تھا اور اسے اپنی انقلابی تصنیف واز کیپٹال کی اشاعت کے لیے سرمایہ دار کارتھا مارکس کے پاس جتنے پیسے تھے اس میں یا تو اس کے بچے کا علاج ہوسکتا تھا یا کتاب شائع کی جاسکتی تھی۔ مارکس نے بچے کے علاج پر کتاب کی اشاعت کو ترجیح دی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا بچہ انتقال کرگیا۔ مارکس کی اس انقلابیت، اس اخلاص نے اس کے خواب کو زندہ رکھا اور اس کے نظریات کی بنیاد پر بالآخر روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوکررہا۔ چین کے انقلابی رہنما ماﺅزے تنگ کی کہانی بھی مختلف نہیں۔ ماﺅ ایک موچی کا بیٹا تھا اور چینی قوم اصناف زدہ قوم تھی لیکن ماﺅ نے کمیونسٹ انقلاب کے لیے زندگی وقف کردی اور اس نے مردہ قوم کو نہ صرف زندہ کیا بلکہ اسے ایک انقلابی قوم میں تبدیل کردیا۔ خواب کی قوت ہی ایسی ہے وہ باطل کے دائرے میں بھی ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔
اقبال کے زمانے میں اقبال کی قوم شکست خوردہ تھی، مایوس تھی، غلام تھی، غیر منظم تھی۔ اقبال خود داغ کے شاگرد تھے اور داغ کی شاعری کا کینوس بہت محدود تھا چنانچہ داغ کے شاگرد کے کینوس کو اور بھی محدود ہونا تھا۔ مگر اقبال کی آنکھوں میں ایک خواب تھا۔ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بازیافت کا خواب۔ مسلمانوں بالخصوص برصغیر کی ملت اسلامیہ کی بیداری کا خواب۔ اس خواب نے داغ کے شاگرد کو حکیم الامت بنادیا اور حکیم الامت کی شاعری نے برصغیر کی ملت اسلامیہ کے تن مردہ میں جان ڈال دی۔ مسلمانوں کے حال کو ان کے عظیم ماضی سے جوڑ دیا اور انہیں ان کے مستقبل کے شاندار ہونے کا یقین دلایا۔
مولانا مودودیؒ نے ایک جانب اقبال کے خواب میں نئی جہات کا اضافہ کیا اور دوسری جانب اقبال کی فکر کے خانوں کو عمل کے رنگوں سے سجا دیا۔ مولانا ایک صحافی تھے مگر ان کے خواب نے انہیں عالمی سطح پر مفکر بنادیا۔ مولانا کے خواب میں ایسی دل آویزی تھی کہ مولانا کا خواب دنیا کی 75 زبانوں میں ترجمہ ہوکر دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ گیا۔
خواب دیکھنے کا عمل کسی دور میں بھی آسان نہیں رہا۔ لیکن ہمارے عہد کی نام نہاد عقل پرستی نے خواب دیکھنے کے عمل کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل سود و زیاں کے تناظر میں سوچتی ہے اور اگر اسے کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتی۔ اس کے برعکس خواب انسان کو سود و زیاں کی فکر سے بے نیاز کرکے ان دنیاﺅں میں پہنچا دیتاہے جن کا عقل خوف کے مارے تصور بھی نہیں کرسکتی۔ عقل کی ایک اور مشکل یہ ہے کہ اس کی تعلیم میں دو اور دو ہمیشہ چار ہوتے ہیں۔ لیکن خواب کی دنیا میں دو اور دو پانچ بھی ہوسکتے ہیں اور ایک سو پانچ بھی۔ عقل چونکہ ماورا تک رسائی نہیں رکھتی اس لیے وہ اس کا انکار کردیتی ہے، اس کانتیجہ یہ ہے کہ ہمارے دور میں ماورا وہم و گمان بن کر رہ گیا ہے اور ماورا کے شعور سے محرومی سورج کی روشنی سے محرومی کی طرح ہے۔
No comments:
Post a Comment