Saturday, August 4, 2012

امریکی سازشیں وجارحیت

امریکی صحافی اورمصنف باب وڈورڈکی تہلکہ خیزکتاب ’’بش ایٹ وار‘‘ (بش حالت جنگ میں) نے افغانستان میں جنگ اور اس دوران مسلم ممالک کے حکمرانوں کے کردارکے بارے میں سنسنی خیزانکشافات کیے تھے جس کے مطابق افغانستان پرامریکی حملے سے قبل اسلام آباد میں سی آئی اے کے ایجنٹوں نے یہ خفیہ رپورٹ واشنگٹن روانہ کی تھی کہ طالبان کی صفوں میں ایسے افغان راہنما موجود ہیں جو ملاعمرکی سخت گیری اور اسامہ بن لادن سے اس کی دوستی کو پسند نہیں کرتے۔ سی آئی اے کے ایک افسرشیلٹن نے رپورٹ دی کہ ترکمانستان ازبکستان اورتاجکستان ہمارے تلاش اوربچائو آپریشن کے سلسلے میں اب تک تعاون پرآمادہ نہیں جبکہ پاکستان پہلے ہی منظوری دے چکاہے نائب صدرڈک چینی نے بتایاکہ امیرقطرسے بات کرلی ہے وہ جنگی اڈے دینے پرراضی ہوگیاہے۔کچھ عرصے بعد جارج ٹینٹ نے رپورٹ دی کہ پاکستان کی آئی ایس آئی میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ اس میں کافی افسر اسامہ بن لادن کے حامی ہیں نیزتنظیم کا سربراہ (جنرل محمود)کھلم کھلا ملاعمرکی حمایت کررہاہے وزیردفاع رمزفیلڈ نے صدربش کو باخبرکرتے ہوئے بتایاکہ پاکستان نے نہ صرف ہمیں اڈے دیے ہیں بلکہ تمام سہولتیں بھی فراہم کی ہیں۔ عمان نے بھی اڈے دینے پرآمادگی ظاہرکی ہے ہم جلد افغانستان میں ہوائی جہازکے ذریعے دستی اشتہارگراکر افغانوں کو مطلع کریں گے کہ یہ جنگ اسلام کے خلاف نہیں بلکہ اس لیے ہے کہ امریکا انہیں اسامہ اور(ملاعمرسے) طالبان سے نجات دلاسکے بش کی ملاقات اردن کے شاہ عبداللہ سے بھی ہوئی جس نے بھرپورتعاون کا یقین دلایا انٹیلی جنس کے شعبے میں اردن امریکا سے بھرپور تعاون کررہاتھا اور سی آئی اے کے خفیہ آپریشنوں کے سلسلے میں اردن کو لاکھوں ڈالر دیے جارہے تھے۔ امریکی صدرنے افغانستان پرحملے کی تیاریوں کاجائزہ لینے والے اجلاس کو بتایاکہ پاکستانی حکومت آئی ایس آئی سے طالبان کے حامی افسروں کو نکالنے کی مہم شروع کرنے والی ہے۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان میں مشرف حکومت نے جنرل محموداورکئی دوسرے اہل کاروںکوبرطرف کیاتھا۔ اورآئی ایس آئی کا نیا سربراہ چن چن کر ایجنسی سے طالبان کے حامی عناصر نکال رہاتھا۔جارج ٹینٹ نے ایک چھوٹے پشتون رہنما کا حوالہ دیا جس سے سی آئی اے کا رابطہ تھا اس کانام حامدکرزئی تھا ٹینٹ نے بتایاکہ کرزئی کے علاقے میں اچھا خاصہ اسلحہ ذخیرہ کیاجاسکتاہے اس میںیہ بھی انکشاف ہوا کہ افغانستان میں ڈالروں کی گڈیاں خوب کام کررہی ہیں۔ اسی طرح جنرل فہیم کو اس نے ساری خرابیوں کا ذمہ دار قراردیا اور لکھاکہ اسے صرف باتیں کرنا آتی ہیں اور وہ جنگ کرنے پر آمادہ نہیں وہ سی آئی اے سے مزید ڈالرمانگ رہاہے۔2001ء کے آخرمیں امریکانے افغانستان پر حملہ کردیااوراسلامی ملکوں کے سربراہوں کو بش نے فون کرکے بتایاکہ رمضان میں بھی بمباری نہیں رکے گی جس سے بیشتر عرب ممالک کے سربراہوں نے اتفاق کیا مزارشریف پرحملے کے دوران طالبان پر آسمان وزمین پرہرطرف سے آگ برس رہی تھی جوطالبان ہلاک ہونے سے بچ گئے ان کے کان اور پھیپھڑے دھماکوں کی شدت سے متاثرہوئے اورکانوں کے پردے پھٹ گئے۔ اس موقع پر مشرف نے بش کو یقین دلایا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اورہم آخرتک آپ کے ساتھ رہیں گے۔ جب کابل فتح ہوگیا تو سی آئی اے نے بتایا کہ اس آسان فتح کا اصل سبب ایک پشتون کمانڈرتھا۔ جس نے طالبان سے غداری کی اور اپنے 4 ہزار فوجیوں کے ساتھ شمالی اتحاد سے جاملا 13 نومبر 2001ء کو ٹینٹ نے بتایا کہ کابل میں افراتفری پھیل رہی ہے تو بش نے کہاکہ ہمیں طالبان کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرناہوگا کہ شہرکو چھوڑتے ہوئے بھی انہوں نے سینکڑوں نہتے افغانوں پرمظالم کیے۔ ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سات کروڑ ڈالرکی رشوت تقسیم کی گئی۔2003ء کے شروع میں بش کی ملاقات یمن کے صدر علی عبداللہ صالح سے ہوئی یہ بات واضح تھی کہ یمن کئی معاملات میں امریکی احکامات سے روگردانی کررہاتھا۔ اس بات پر بش سخت ناراض تھا اس کا خیال تھا کہ یمن امریکی مفادات کے خلاف جارہاہے۔ یہ مسئلہ صرف یمن کا نہیں تھا بش چاہتا تھا کہ ہر ملک اس کے ساتھ 100 فیصد اتفاق کرے۔ وڈورڈکی کتاب نے کئی چشم کشا واقعات بیان کیے ہیں جن سے ایک طرف مسلم ممالک کے سربراہان کی امریکا نوازی کا پتا چلتاہے تو دوسری طرف امریکاکی مسلم ممالک کے خلاف جارحیت اوران کے خلاف کی جانے والی سازشوں سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ امریکا سپرتھا مگر افغانستان پرحملہ کرکے اس نے وہی غلطی کی ہے جو اس سے قبل روس نے کی تھی آج امریکا پر اتنا قرض چڑھ چکاہے جو اس کی معیشت اگلے سوسالوں میں بھی نہیں اتارسکتی اور آج نہیں تو کل اسے افغانستان سے بھی ذلت ورسوائی کے ساتھ نکلنا ہوگا عرب دنیا کے حکمران تبدیل ہورہے ہیں پاکستان میں نئے الیکشن قریب ہیں اب یہاں مشرف حکومت کی طرح اللہ نے چاہاتو امریکا نواز حکومت نہیں آئے گی ہمیں یمن جیسے چھوٹے ممالک سے سبق سیکھنا چاہیے اورامریکا کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کو ایک نئے اندازمیں ازسرنو مرتب کرنا پڑے گا جس میں حسین حقانی جیسے افراد کے اثرات نہ ہوں اور وہ مکمل مسلم ممالک اور پاکستان کے مفاد میں ہوامید ہے وہ دن دورنہیں جب پاکستان امریکی جال سے باہرنکل آئے گا۔

No comments:

Post a Comment