Monday, August 13, 2012

خودکلامی اورمکالمہ

ایک خاتون رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی سخت شکایت کی ہے کہ جامعہ کراچی کے کلاس رومز کی فضا انتہائی افسوسناک اور دم گھونٹ دینے والی ہے۔ اس کی مثال انہوں نے یہ دی ہے کہ جامعہ کراچی کے کلاس رومز میں بے شمار موضوعات پر گفتگو ممکن ہی نہیں۔ مثلاً جامعہ کراچی کے کلاس رومز میں فرقہ ورانہ تشدد‘ جنس‘ سیاسی جماعتوں، توہین رسالت حتیٰ کے سیکولرازم پر بھی گفتگو نہیں ہوسکتی۔ رپورٹر نے ایک استاد کا واقعہ نقل کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس سلسلے میں ایک کلاس میں مذہب بمقابلہ ریاست کے موضوع پر بحث چھڑگئی ایک طالبہ نے ہاتھ اٹھا کر استاد سے کہا کہ سر میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں سیکولر ازم کی حمایت کیوں کرتی ہوں۔ استاد نے یہ سنتے ہی طالبہ سے کہا کہ وہ اپنی گفتگوکو وہیں روک دے جہاں وہ ہے اور اگر اسے اس موضوع پر بات کرنی ہے تو وہ اس کے کمرے میں آکر بات کرے۔ طالبہ کمرے میں گئی تو استاد نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ بھئی کلاس روم میں بعض موضوعات پربات نہیں ہوسکتی۔ رپورٹر نے جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے استاد مطاہراحمد کے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعے کا بھی ذکر کیا ہے۔ مطاہراحمد کے بقول 2003ءمیں وہ یورپ کی تاریخ کے استاد تھے اور مذہب اور ریاست کی علیحدگی کا موضوع ان کے کورس کا حصہ تھا چنانچہ انہوں نے اپنے ایک لیکچر میں سیکولر ازم پر تفصیل سے بات کی۔ چند روز بعد انہیں شیخ الجامعہ کے دفترکی جانب سے ایک خط موصول ہوا۔ خط کسی نامعلوم طالب علم کی طرف سے تھا جس میں شیخ الجامعہ سے کہا گیا تھا کہ مطاہر احمد طلبہ میں کافرانہ خیالات کو عام کررہے ہیں اور اگر شیخ الجامعہ نے انہیں ایسا کرنے سے نہ روکا تو پھر خط لکھنے والے شخص کے گروہ کو کچھ کرنا پڑے گا۔
اس طرح کی گفتگو عام طور پر یہ ظاہرکرنے کے لیے کی جاتی ہے کہ پاکستانی معاشرہ اپنی مذہبیت کی وجہ سے انتہا پسند اور تنگ نظر ہوگیا ہے یہاں تک کہ وہ زندگی کے اہم موضوعات پر بھی گفتگو کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن انتہا پسندی اور تنگ نظری صرف مذہبی ذہن کا مسئلہ نہیں ہے۔ سیکولر اور لبرل معاشرے اسلامی معاشروں سے ہزار گنا زیادہ انتہا پسند اور تنگ نظر رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال سوشلسٹ دنیا کا تجربہ ہے۔ سوشلزم مذہب کو مسترد کرتا تھا لیکن مذہب اور کچھ نہیں تو کم ازکم ایک ”علمی معاملہ“ اور ایک ”تاریخی تجربہ“ تو تھا ہی۔ چنانچہ اصولی اور علمی اعتبار سے سوشلسٹ دنیا کو اپنی جامعات میں اسلام سمیت تمام مذاہب کی تعلیم وتدریس کا بندوبست کرنا چاہیے تھا۔ لیکن روس اور چین سمیت پوری سوشلسٹ دنیا نے مذہب کی تعلیم کو تدریس تو درکنار مذہب کے ”ذکر“ کو بھی ”کفر“ بنادیا اور اس ”کفر“ کی سزا موت یا سائبیریا کی اسیری تھی۔ اہم بات یہ تھی کہ یہ کام صرف حکومت اور ریاست نہیں کرتی تھی معاشرے کے عام لوگ بھی مذہب کے ذکر کو کفر ہی سمجھتے تھے اور وہ ”کافروں“ کے ساتھ وہی سلوک کرتے تھے جو ریاست کے قوانین کا تقاضہ تھا۔ اس کے برعکس سوشلسٹوں نے پوری اسلامی دنیا میں کئی مقامات پر طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا۔ پاکستان سمیت کئی مسلم ملکوں میں سوشلسٹ نظریات کا پرچار کیا۔ سوشلسٹ نظریات کی بنیاد پر سیاست کی۔ تعلیمی اداروں اور محنت کشوں کے دائروں میں انجمن سازی کی۔ انہیں کم وبیش ہر دور میں جلسے جلوس کی آزادی رہی ہے۔ وہ اپنے اخبارات ورسائل کی اشاعت اور تقسیم میں آزاد رہے ہیں۔ حالانکہ اسلام کی رو سے سوشلزم صریح کفر تھا۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ زیادہ تنگ نظر اور زیادہ انتہا پسند کون ہے؟ اسلامی معاشرہ اور اس کے لوگ یا سیکولر معاشرہ اور اس کے لوگ؟
ہم جب جامعہ کراچی میں بی اے آنرز کے طالب علم تھے تو سیاسیات ہمارے ضمنی یا Subsidary مضامین میں سے ایک تھا۔ ہمارے سیاسیات کے استاد مکرم کا طریقہ تھا کہ وہ کلاس میں پانچ سات منٹ دیر سے آتے اور پھر دیر سے آنے کے بعد ڈیڑھ سو طلبہ کی ”حاضری“ لیتے جس میں مزید پانچ سات منٹ برباد ہوجاتے۔ لیکن کلاس میں سوشلزم پڑھانے کی باری آتی تو وہ تین دن لگاتار وقت پرآتے۔ انہوں نے حاضری لینے کا عمل ترک کردیا اور کلاس ختم ہونے کے وقت کے بعد تک ہمیں سوشلزم پڑھاتے رہے۔ اس کی وجہ ظاہر تھی۔ سوشلزم ان کا پسندیدہ نظریہ تھا۔ سوشلزم پر گفتگو ختم ہوئی تو انہوں نے کلاس کا طائرانہ جائزہ لیا اور کہاکہ کوئی سوال؟ کسی نے کوئی سوال نہ کیا تو انہوں نے ہماری طرف دیکھا اور فرمایا فاروقی صاحب آپ بھی کوئی سوال نہ کریں گے؟ ہم نے کہا کیوں نہیں۔ ہم نے استاد مکرم سے بعد احترام عرض کیا کہ آپ نے مارکس کے تمام بنیادی نظریات کی وضاحت کردی مگر آپ نے یہ نہیں بتایاکہ مارکس مذہب کے بارے میں کیا کہتا تھا؟ استاد مکرم سمجھ گئے کہ ہم یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ مارکس مذہب کو عوام کی افیون کہتا تھا اور اس کی اس تعریف کا اطلاق اسلام پر عمل ہوتا ہے اور استاد مکرم یہ کہہ کر طالب علموں کو سوشلزم سے پہلے ہی مرحلے پر ”بدظن“ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ہمارا یہ سوال سنتے ہی استاد محترم بھڑک اٹھے۔ کہنے لگے ایسا سوال تو کسی نے مارکس سے بھی نہیں پوچھا تھا اور یہ سوال پوچھ کر گویا آپ نے میری توہین کی ہے۔ میری ساکھ پر حملہ کیا ہے چنانچہ آپ فوراً کلاس سے نکل جائیں۔ ہمیں سو فیصد یقین تھا کہ ہم حق پر ہیں اور ہم نے استاد محترم کی رتی برابر بھی توہین نہیں کی ہے چنانچہ ہم نے کلاس روم چھوڑنے سے انکار کردیا۔ اس واقعے کا مفہوم اس کے سوا کیا ہے جامعہ کراچی کے ایک کلاس روم میں ایک طالب علم کو مارکس کے بارے میں ایک بنیادی علمی سوال کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ مذہبی یا سیکولر ذہن کا نہیں مسئلہ پورے معاشرے کا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ صورتحال پیدا کیوں ہوئی ہے؟
اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں مکالمے کے بجائے خود کلامی کا مرض پیدا ہوگیا ہے۔ اعلیٰ ترین سطح پر خود کلامی بڑی شاعری اور بڑا آرٹ پیدا کرتی ہے لیکن پست ترین سطح پر خود کلامی خودپسندی کے مرض کی بدترین صورت بن جاتی ہے۔ خود کلامی کا مطالبہ یہ ہے کہ ہر فرد اور ہرطبقہ یہ کہ بے بس وہی حق ہے اور اسی کی بات کہے اور سنے جانے کے لائق ہے۔ اس کے برعکس مکالمے کا مطلب ”دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا اور اسے اہمیت دیناہے۔ سلیم احمد نے کہیں لکھا ہے کہ ہمارا معاشرہ مکالمے سے خوف زدہ ہے۔ اسے خوف ہے کہ وہ مکالمہ کرے گا تو پہچان لیا جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پہچان لیے جانے کا کیا مطلب ہے؟ اس کے دومعنی ہیں۔ ایک یہ کہ مکالمہ کرتے ہی یہ حقیقت آشکار ہوجائے گی کہ ہم مکالمہ نہیں خود کلامی چاہتے ہیں۔ اس بات کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ مکالمے کا آغاز ہوتے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ ہمارے پاس حق ہی نہیں ہے یا ہے تو اتنا مجرد کہ ہم خود اس کا اچھا دفاع نہیں کرسکتے۔ لیکن ایک مسئلہ ”ساکھ“ کا بھی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ کمیاب ہیں جو کسی موضوع پر غیرجانبداری کے ساتھ خالص ”علمی گفتگو کرسکیں“۔ مختلف موضوعات پرگفتگوکرنے والے لوگوں کی عظیم اکثریت جانبداری اور مفادات کے تحت گفتگو کرتی ہے جس سے لوگوں میں منفی ردعمل پیدا ہوسکتا ہے۔ ورنہ ہمارے معاشرے میں اتنی جان ہے کہ وہ اسلام سے متصادم نظریات پر نہ صرف یہ کہ علمی گفتگو سن سکتا ہے بلکہ اس کی تعریف بھی کرسکتا ہے۔
nn

No comments:

Post a Comment