استغفار کے معنیٰ ہیں ’’مغفرت چاہنا‘‘۔ اور مَغْفِرۃٌ اور غُفرانٌ کے معنیٰ ہیں ’’ڈھانپنا اور پردہ ڈالنا‘‘۔ اللہ کے مغفرت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ انسان کے جرم کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے، اس کی سزا دینے کے بجائے اُس پر اپنے کرم سے پردہ ڈال دے اور انسان کے نامۂ اعمال میں اس کا شمار نہ کرے، بہ الفاظِ دیگر یہ کہ جرم پر مجرم کی گرفت کرنے کے بجائے اسے معاف کردے۔ اس لفظ میں اس طرف کھلا ہوا اشارہ ہے کہ ہر گناہ موجب ِ عذاب و سزا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ اللہ اپنے فضل وکرم سے کسی گناہ کی پردہ پوشی کرلے اور بندے پر رحم کھاکر اسے معاف کردے۔ دوسرے یہ کہ گناہ کی پردہ پوشی اور معافی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، اور کوئی نہیں جو انسان کو اس کے گناہ کے عذاب سے بچالے، اور اس مغفرت کے حاصل کرنے کا اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں کہ انسان خلوصِ دل سے اُسی سے مغفرت کا طالب ہو جس کی اُس نے نافرمانی کی ہے۔ اپنے جرم سے متنفر اور اپنی غلط روی پر نادم و پشیمان ہو، اپنی نافرمانی پر ترساں، لرزاں اللہ کے حضور پہنچے، اُس سے گڑگڑاکر اپنے جرم کی معافی چاہے اور آئندہ اُس کی نافرمانی نہ کرے اور اُس کی رضا کو ہر دم پیشِ نظر رکھنے کا اُس سے مخلصانہ عہد کرے۔ استغفار کے معنیٰ استغفراللہ پڑھنے کے نہیں، بلکہ دل کی انتہائی گہرائیوں سے اپنے قصور کی معافی چاہنے اور اللہ کے عذاب سے ڈر کر اللہ کی طرف پلٹنے کے ہیں۔
احتساب و استغفار کی کثرت
’’اور ایک دن میں سو، سو بار کرتا ہوں‘‘۔ کئی احادیث میں یہی تعداد آئی ہے، لیکن بخاری کی ایک روایت میں ہے ’’بخدا، میں ایک دن میں ستّر بار سے زیادہ استغفار و توبہ کرتا ہوں‘‘۔ اس لیے سو بار سے مراد معیّن تعداد بھی ہوسکتی ہے اور کثرتِ تعداد کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے خواہ تعداد سو سے کم ہو یا کچھ زیادہ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے علوئے مرتبت و عصمت کے باوجود اپنے احتساب کی طرف کتنے زیادہ متوجہ رہتے تھے، نیز یہ کہ آپ اپنا احتساب کس قدر شدید کرتے تھے، اور اسی سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم گناہ گاروں کو احتساب و استغفار کی طرف کس قدر اور کس شدت کے ساتھ متوجہ رہنا چاہیے اور ہم اس کے کتنے ضرورت مند ہیں۔ دراصل اس ارشادِ نبویؐ کا منشا یہی ہے کہ ہر بندۂ مومن احتساب و استغفار کی طرف شدت سے متوجہ ہو، جیسا کہ صحیح مسلم ہی کی دوسری روایت میں صراحتاً اس کا ذکر موجود ہے۔ ’’اے لوگو! اللہ کی طرف پلٹو اور توبہ کرو کیونکہ میں ایک دن میں اللہ سے سو بار توبہ کرتا ہوں۔‘‘ (مسلم)
احتساب و استغفار کی کثرت
’’اور ایک دن میں سو، سو بار کرتا ہوں‘‘۔ کئی احادیث میں یہی تعداد آئی ہے، لیکن بخاری کی ایک روایت میں ہے ’’بخدا، میں ایک دن میں ستّر بار سے زیادہ استغفار و توبہ کرتا ہوں‘‘۔ اس لیے سو بار سے مراد معیّن تعداد بھی ہوسکتی ہے اور کثرتِ تعداد کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے خواہ تعداد سو سے کم ہو یا کچھ زیادہ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے علوئے مرتبت و عصمت کے باوجود اپنے احتساب کی طرف کتنے زیادہ متوجہ رہتے تھے، نیز یہ کہ آپ اپنا احتساب کس قدر شدید کرتے تھے، اور اسی سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم گناہ گاروں کو احتساب و استغفار کی طرف کس قدر اور کس شدت کے ساتھ متوجہ رہنا چاہیے اور ہم اس کے کتنے ضرورت مند ہیں۔ دراصل اس ارشادِ نبویؐ کا منشا یہی ہے کہ ہر بندۂ مومن احتساب و استغفار کی طرف شدت سے متوجہ ہو، جیسا کہ صحیح مسلم ہی کی دوسری روایت میں صراحتاً اس کا ذکر موجود ہے۔ ’’اے لوگو! اللہ کی طرف پلٹو اور توبہ کرو کیونکہ میں ایک دن میں اللہ سے سو بار توبہ کرتا ہوں۔‘‘ (مسلم)
No comments:
Post a Comment