Saturday, February 23, 2013

جنگ …کل اور آج

اقبال نے اپنی ایک نظم میں مولانا روم سے سوال کیا ہے کہ جہاد کا جواز کیا ہے؟ اس کی روح کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے فرمایا ہے کہ دوست کے آئینے پر دوست کا پتھر مار۔ یعنی اللہ کے حکم سے صرف اللہ ہی کے لیے انسان کو قتل کر۔ انسانی تاریخ میں کل بھی جنگ کا جواز یہی تھا اور آج بھی جنگ کا جواز یہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہے اور اس کی جان پر صرف اللہ ہی کا حق ہے۔ چنانچہ اس حق کو صرف اللہ کے لیے ہی سلب کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جنگوں کی تاریخ میں یہ جواز کم ہی بروئے کار آیا ہے۔ صرف مسلمان ہیں جنہوں نے اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں اس اصول کی پیروی کی ہے۔ تاہم جنگ کے اصل اصول سے انحراف کے باوجود ماضی میں جنگوں کی ایک اخلاقیات تھی جو جنگ کی ہولناکی کو ایک حد سے بڑھنے نہیں دیتی تھی۔ مثلاً ماضی میں جنگ بیشتر صورتوں میں میدان جنگ تک محدود ہوتی تھی۔ جس کو جنگ لڑنی ہوتی تھی میدان میں نکل آتا تھا اور داد شجاعت دیتا تھا۔ لیکن جو لوگ میدان جنگ میں نہیں ہوتے تھے انہیں شریک جنگ یا Cobatant نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اور ان کی جان محفوظ ہوتی تھی۔ اصول تھا کہ عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ کھڑی فصلیں تباہ نہیں کی جائیں گی۔ پانی کے ذخیرے میں زہر نہیں ملایا جائے گا۔ جنگ میں ہتھیار ڈالنے یا فرار ہو جانے والے کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ عبادت گاہ خواہ کسی کی ہو اسے نقصان نہیں پہنچایا جائے گا اور عبادت گاہ کے اندر عبادت میں مصروف لوگوں سے تعارض نہیں کیا جائے گا۔ پرانے زمانے میں اگر چہ شب خون مارا جاتا تھا مگر اسے پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن عصر حاضر میں جنگ کی نوعیت، معنویت اور اس کے اثرات یکسر تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں ایک اندازے کے مطابق سات کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی اکثریت عام افراد پر مشتمل تھی اور یہ لوگ میدان جنگ میں نہیں اپنے شہروں اپنے قصبوں اور اپنے دیہات میں ہلاک ہوئے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ فی زمانہ میدان جنگ کا دائرہ پھیل کر اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ اس نے پورے معاشرے کو گرفت میں لے لیا ہے۔ اب جنگ ہوتی ہے تو میدانِ جنگ سے کہیں زیادہ اہم بڑے بڑے شہر اور ان کی فوجی اور غیر فوجی تنصیبات ہوتی ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اب جنگ کی مابعدالطبیعاتی اور اخلاقی بنیادیں تو کیا عقلی بنیادیں تک موجود نہیں۔ حالانکہ ہمارے عہد کے لوگوں کو اپنی ’’عقل پرستی‘‘ پر بڑ اناز ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ انسان جتنا عاقل و بالغ اب ہوا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن جنگوں کی نوعیت بتا رہی ہے کہ عصر حاضر میں کم و بیش تمام جنگیں اندھی نفرت، غصے اور لایعنی قومی خود پسندی کے زیرسایہ لڑی جارہی ہیں۔ اگر چہ جاپان کے خلاف ایٹم بموں کا استعمال دوسری عالمی جنگ کا حصہ تھا لیکن انسانوں کے خلاف ایٹم بم کا استعمال اس امر کا اعلان تھا کہ ایٹم بم استعمال کرنے والے اپنے دشمن کو انسان کیا کیڑا مکوڑا بھی نہیں سمجھتے اور ان کے نزدیک اپنی مائوں کے بطن میں موجود بچے بھی ان کے دشمن ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو خود ایٹم بم کی ایجاد انسانیت کے خلاف ایک سازش تھی۔ اس لیے آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ جب یہ سوچتا ہوں کہ ایٹم بم میرے فارمولے کی بنیاد پر بنایا گیا تو مجھے خیال آتا ہے کہ کاش میں آئن اسٹائن کے بجائے ایک موچی ہوتا۔ لیکن آئن اسٹائن کا یہ بیان خود انتہائی کمزور اخلاقیات کا شاخسانہ ہے اس لیے کہ آئن اسٹائن جس سائنس کا پرچم لیے کھڑا تھا اس کا خدا، مذہب، مابعدالطبیعات اور اخلاقیات پر ایمان ہی نہیں تھا۔ لیکن ایٹم بم کی ہولناکی صرف اس کے استعمال تک محدود نہ تھی۔ امریکا نے جن شہروں میں ایٹم بم استعمال کیا ان شہروں میں چالیس سال کے بعد بھی معذور بچے پیدا ہوتے رہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عہد جدید میں جنگ ختم ہونے کے باوجود بھی چالیس پچاس سال تک جاری رہ سکتی ہے۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو عصر حاضر میں جنگ ’’خیال‘‘ بن گئی ہے۔ خیال، ماضی سے حال اور حال سے مستقبل میں سفر کرتا ہے اور اب جنگ کے اثرات بھی خیال کی طرح وقت کی شاہراہ پر سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں نے یورپ میں اس بے معنویت کو فروغ دیا جس نے مغرب میں مذہبی فکر کا جنازہ نکال دیا اور انسانی رشتوں کی بنیادیں ہلا دیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہیرو شیما اور ناگاساکی میں جو کچھ ہوا ایٹم بم کا کیا دھرا تھا لیکن انسان نے فی زمانہ ایسی چیزیں ایجاد کر لی ہیں کہ ایٹم بم کے استعمال کے بغیر بھی جنگ انتہائی ہلاکت آفریں ہو سکتی ہے اور خیال کی طرح وقت میں سفر کر سکتی ہے۔ اس کا ایک ثبوت ویت نام، کمبوڈیا اور افغانستان ہے جہاں بچھی ہوئی بارودی سرنگیں جنگ کے خاتمے کے دس اور بیس سال بعد بھی انسانوں کو ہلاک کرتی رہیں۔ عراق پر مسلط کی گئی امریکا کی جارحیت بظاہر ختم ہو گئی مگر امریکا کی فوجوں کے انخلا کے بعد بھی عراق سے اس جنگ کی ہلاکت آفرینی کی اطلاعات آتی رہیں۔
عراق میں امریکا کی مزاحمت سنی آبادی کے علاقوں میں ہوئی اور ان علاقوں میں فلوجہ سرفہرست تھا۔ چنانچہ امریکا نے فلوجہ کی زمین کے ایک ایک انچ پر اپنے معلوم اور نامعلوم گولے بارود کے ڈھیر لگا دیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معذور بچوں کی پیدائش میں ہولناک اضافہ ہو گیا۔ فلوجہ کے ڈاکٹروں کے مطابق جنگ سے پہلے فلوجہ میں پندرہ روز میں دو معذور بچوں کی پیدائش رپورٹ ہوتی تھی لیکن جنگ کے بعد ہر دن دو معذور بچے پیدا ہونے لگے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بچوں کی معذوری بھی ہولناک ہے۔ بعض بچوں کا سر عام بچوں کے سر سے بڑا ہوتا ہے۔ بعض بچے دوسر لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ بچے پیدائش کے وقت دماغ کے سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں اور چند بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیک وقت کئی چیزوں کے سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس صورت حال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے فلوجہ کے مزاحمت کاروں کے خلاف سفید فاسفورس سمیت انتہائی زہریلے کیمیائی مادے استعمال کیے۔ فلوجہ میں صورت حال اتنی ہولناک ہوئی کہ برطانیہ کے ڈاکٹروں نے عراق کے طبی ماہرین کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں درخواست دی کہ عراق میں بچوں کی معذوری میں ہولناک اضافے کی تحقیق کرائی جائے اور فلوجہ کی سرزمین کو کیمیائی مادوں سے پاک کیا جائے۔ اس سلسلے میں خلیج کی پہلی جنگ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اس جنگ کے بعد عراق کے خلاف اقتصادی پابندیاں عاید کر دی تھیں جن کے نتیجے میں دس سال میں دس لاکھ عراقی باشندے غذا اور دوائوں کی قلت سے ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں پانچ لاکھ بچے بھی شامل تھے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ خلیج کی جنگ اپنے خاتمے کے بعد بھی مزید دس سال جاری رہی اور ’’خاموش جنگ‘‘ نے ’’چیختی چلاتی‘‘ جنگ سے کہیں زیادہ انسانوں کو ہلاک کیا۔ کتنی عجیب بات  ہے کہ تاریخ چنگیز خان کو ’’درندہ‘‘ کہتی ہے اور چنگیز خان سے کہیں زیادہ انسانوں کو ہلاک کرنے والے امریکا اور یورپ کے رہنما ’’مہذب انسان‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ صورت حال بجائے خود جنگ کی بدلی ہوئی معنویت پر ایک بلیغ تبصرہ ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ امریکا نے جاپان کے خلاف اس لیے ایٹم بم استعمال کیا کہ جاپان کے پاس ایٹم بم نہیں تھا۔ ہوتا تو امریکا کبھی جاپان کو ایٹمی حملے کا نشانہ نہ بناتا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکا اور سابق سوویت یونین نے پوری دنیا میں پچاس سال تک ’’سرد جنگ‘‘ لڑی مگر ان کے درمیان گرم ’’جنگ‘‘ کی نوبت کبھی نہ آسکی۔ اس کی وجہ کوئی اخلاقی اصول یا دلیل نہیں تھی۔ اس کی وجہ ’’خوف کا توازن‘‘ تھا۔ امریکا کے پاس ایٹم بم تھا تو سوویت یونین کے پاس بھی ایٹم بم تھا۔ امریکا کے پاس بین البراعظمی میزائل تھے تو سوویت یونین کے پاس بھی ایسے میزائلوں کے کمی نہ تھی۔ یہی صورت حال پاک بھارت تعلقات کی بھی ہے۔ بھارت نے 1971ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا اور ساری دنیا دیکھتی رہی۔ اس وقت پاکستان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو بھارت مشرقی پاکستان کو الگ نہیں کر سکتا تھا۔ پاک بھارت تعلقات کی گزشتہ 25 سال کی تاریخ میں کئی مواقع ایسے آئے کہ بھارت پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے ہی والا تھا مگر پاکستان کے ایٹم بم کے خوف نے ایسا کرنے سے باز رکھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو طاقت یا خوف کا توازن بڑی اچھی چیز ہے مگر گہرائی میںدیکھا جائے تو محض طاقت یا خوف کا توازن انسانیت کی نفی ہے۔ کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان، مذہب، اخلاق، علم، دلیل اور محبت کی زبان سمجھنے سے معذور ہو گیا ہے۔ وہ اب صرف ایک زبان سمجھتا ہے۔ طاقت کی زبان۔ خوف کی زبان۔

No comments:

Post a Comment