عام انتخابات کی آمد کی شور انگیزی سیاست دانوں کی سماعت کے جزیروں میں
قافلہ نوبہار کی چاپ بن کر ابھر رہی ہے۔ یہ چاپ سماعت نواز ہی نہیں دل
نواز بھی ہے۔ مگر 63-62 پر عمل درآمد کا خوف ہوا بن کر انہیں ہراساں کر
رہا ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ سیاست دان اسے خوف و ہراس کی علامت قرار دے کر
دہشت گرد ہی قرار نہ دے ڈالیں۔
جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کا یہ تجزیہ قابل غور ہے کہ کرپٹ لوگ کرپشن سے پاک معاشرہ قائم نہیں کر سکتے۔ بدامنی، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب میں مبتلا عوام اس پر غور کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ البتہ الیکشن کمیشن کرپٹ لوگوں کو ایوان اقتدار سے دور رکھ کر کرپشن فری معاشرہ کی تشکیل و تکمیل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مگر حکمرانوں نے اسے ’’دور کے ڈھول‘‘ بنا دیا ہے۔ ضمنی الیکشن میں اس کے کردار نے بہت سے شکوک و شبہات پیدا کر دیے تھے اور اب ملازمتوں پر قبل از وقت پابندی لگا کر رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔
امیر جماعت اسلامی کی اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ملک کی معیشت اور زراعت کو تباہ کرنے والوں کو ووٹ دینا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو گا۔ شاید من حیث القوم ہم اذیت پسند ہیں خود کو اذیت پہنچا کر خوش ہوتے ہیں۔
گزرا ہوا وقت اس حقیقت کا گواہ ہے کہ جماعت اسلامی کے رہنمائوں پر کرپشن کے الزامات کبھی نہیں لگے حالاں کہ اس کے بہت سے کارکن بلدیاتی اداروں میں پہنچے۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ میں بھی قوم کی نمائندگی کی مگر ان کے کردار پر کبھی کوئی انگلی نہ اٹھا سکا۔ کیونکہ ان کی کارکردگی امانت، دیانت اور خدمت کی قابل تحسین مثال رہی ہے کہ یہی ان کا نصب العین ہے المیہ یہی ہے کہ اس کارکردگی کو قابل تقلید نہیں سمجھا گیا۔ امیر جماعت منور حسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواروں کو ووٹ دیں کیونکہ وطن عزیز کو اہل، دیانت دار اور منظم سیاسی قوت ہی سیاسی اور معاشی بحرانوں سے نجات دلا سکتی ہے۔ یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہو گا کہ میاں نواز شریف نے دھرنا دیا تو چوہدری شجاعت نے کہا کہ دھرنا تو طاہر القادری کا تھا یہ تو دھرنی تھی ہمارے خیال میں یہ دھرنی بھی نہ تھی بلکہ دھرنچہ تھا۔ دھرنے کا بچہ۔ اگر اس دھرنے میں جماعت اسلامی شامل نہ ہوتی تو دھرنا دھرے کا دھرا رہ جاتا۔ عین وقت پر سبھی ’’عین غین‘‘ ہو گئے تھے۔ دھرنے کو قابل ذکر بنانا جماعت اسلامی کے منظم ہونے کی دلیل ہے۔ ورنہ اس پر بات کرنا بھی وقت کا زیاں ہوتا۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو کے درمیان 63-62 سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آئین کی ان دفعات کو مالی معاملات تک ہی رکھا جائے تو بہتر ہو گا جواباً کہا گیا کہ یہ بہت اچھی سوچ ہے کیونکہ عوام سیاست دانوں کے اخلاقی معاملات کو ان کا ذاتی فعل سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ پھر بھٹو مرحوم کی ایک تقریر کے حوالہ سے کہا گیا کہ بھٹو مرحوم نے کہا تھا کہ میں شراب پیتا ہوں عوام کا خون نہیں پیتا۔ تو عوام نے دل کھول کر داد دی تھی۔ خان صاحب نے 63-62 کا مالی بدعنوانی تک رکھنے کی بات بھی اسی تناظر میں کہی ہے۔ بھٹو مرحوم عوام کو یہی سمجھانا چاہتے تھے کہ خون پینا شراب پینے سے زیادہ بدترین فعل ہے۔ زرداری حکومت پانچ سال سے عوام کا خون پی رہی ہے، اس خون آشامی کو روکنے کے لیے دیانت دار اور امین لوگوں کا انتخاب بہت ضروری ہے۔ خدا جانے ہمیں یہ گمان کیوں ہو رہا ہے کہ زرداری صاحب 63-62 پر عمل درآمد کرا کے اپنی عاقبت سنورانے کا اہتمام کر رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کا یہ تجزیہ قابل غور ہے کہ کرپٹ لوگ کرپشن سے پاک معاشرہ قائم نہیں کر سکتے۔ بدامنی، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب میں مبتلا عوام اس پر غور کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ البتہ الیکشن کمیشن کرپٹ لوگوں کو ایوان اقتدار سے دور رکھ کر کرپشن فری معاشرہ کی تشکیل و تکمیل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مگر حکمرانوں نے اسے ’’دور کے ڈھول‘‘ بنا دیا ہے۔ ضمنی الیکشن میں اس کے کردار نے بہت سے شکوک و شبہات پیدا کر دیے تھے اور اب ملازمتوں پر قبل از وقت پابندی لگا کر رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔
امیر جماعت اسلامی کی اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ملک کی معیشت اور زراعت کو تباہ کرنے والوں کو ووٹ دینا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو گا۔ شاید من حیث القوم ہم اذیت پسند ہیں خود کو اذیت پہنچا کر خوش ہوتے ہیں۔
گزرا ہوا وقت اس حقیقت کا گواہ ہے کہ جماعت اسلامی کے رہنمائوں پر کرپشن کے الزامات کبھی نہیں لگے حالاں کہ اس کے بہت سے کارکن بلدیاتی اداروں میں پہنچے۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ میں بھی قوم کی نمائندگی کی مگر ان کے کردار پر کبھی کوئی انگلی نہ اٹھا سکا۔ کیونکہ ان کی کارکردگی امانت، دیانت اور خدمت کی قابل تحسین مثال رہی ہے کہ یہی ان کا نصب العین ہے المیہ یہی ہے کہ اس کارکردگی کو قابل تقلید نہیں سمجھا گیا۔ امیر جماعت منور حسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواروں کو ووٹ دیں کیونکہ وطن عزیز کو اہل، دیانت دار اور منظم سیاسی قوت ہی سیاسی اور معاشی بحرانوں سے نجات دلا سکتی ہے۔ یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہو گا کہ میاں نواز شریف نے دھرنا دیا تو چوہدری شجاعت نے کہا کہ دھرنا تو طاہر القادری کا تھا یہ تو دھرنی تھی ہمارے خیال میں یہ دھرنی بھی نہ تھی بلکہ دھرنچہ تھا۔ دھرنے کا بچہ۔ اگر اس دھرنے میں جماعت اسلامی شامل نہ ہوتی تو دھرنا دھرے کا دھرا رہ جاتا۔ عین وقت پر سبھی ’’عین غین‘‘ ہو گئے تھے۔ دھرنے کو قابل ذکر بنانا جماعت اسلامی کے منظم ہونے کی دلیل ہے۔ ورنہ اس پر بات کرنا بھی وقت کا زیاں ہوتا۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو کے درمیان 63-62 سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آئین کی ان دفعات کو مالی معاملات تک ہی رکھا جائے تو بہتر ہو گا جواباً کہا گیا کہ یہ بہت اچھی سوچ ہے کیونکہ عوام سیاست دانوں کے اخلاقی معاملات کو ان کا ذاتی فعل سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ پھر بھٹو مرحوم کی ایک تقریر کے حوالہ سے کہا گیا کہ بھٹو مرحوم نے کہا تھا کہ میں شراب پیتا ہوں عوام کا خون نہیں پیتا۔ تو عوام نے دل کھول کر داد دی تھی۔ خان صاحب نے 63-62 کا مالی بدعنوانی تک رکھنے کی بات بھی اسی تناظر میں کہی ہے۔ بھٹو مرحوم عوام کو یہی سمجھانا چاہتے تھے کہ خون پینا شراب پینے سے زیادہ بدترین فعل ہے۔ زرداری حکومت پانچ سال سے عوام کا خون پی رہی ہے، اس خون آشامی کو روکنے کے لیے دیانت دار اور امین لوگوں کا انتخاب بہت ضروری ہے۔ خدا جانے ہمیں یہ گمان کیوں ہو رہا ہے کہ زرداری صاحب 63-62 پر عمل درآمد کرا کے اپنی عاقبت سنورانے کا اہتمام کر رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment