عسکری صاحب نے کہیں لکھا ہے کہ مغربی ناول نگار کائنات میں خیر کی
موجودگی کا انکار تو نہیں کرتے مگر وہ مطالعہ بدی ہی کا کرتے ہیں۔ سراج
منیر نے سلیم احمد کے حوالے سے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ادب بیک وقت
نفسِ امارہ، نفسِ لوامہ اور نفسِ مطمئنہ کی کیفیات کا اظہار ہے، مگر مغربی
ادب نے خود کو نفسِ امارہ کی کیفیات کے اظہار تک محدود کرلیا ہے۔ اس سلسلے
میں سراج منیر نے یہ بنیادی بات بھی کہی ہے کہ لوگ ادب میں صرف جنس کے
اظہار کو نفسِ امارہ کا اظہار سمجھتے ہیں، حالانکہ نفسِ امارہ کے اظہار کی
ہزاروں صورتیں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً انا پرستی، نمودونمائش، شہرت طلبی اور
پیسے کی پوجا بھی نفسِ امارہ ہی کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں۔ لیکن یہاں
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادب میں منفی رجحانات کے اظہار کا غلبہ کیوں ہے؟
مغرب کے حوالے سے اس سوال کا جواب واضح ہے۔ مذہب صرف عقائد، عبادات اور اخلاقیات کا مجموعہ نہیں ہوتا… وہ زندگی کو معنی عطا کرتا ہے، مقصد سے ہم کنار کرتا ہے۔ خدا کی موجودگی پوری کائنات اور زندگی کی ایک مرتب اور منظم تصویر کو شعور میں راسخ کرتی ہے۔ مذہب انسان کو کچھ نہ کچھ صبر کرنا اور منفی تجربات کو جذب کرنا سکھاتا ہے اور نفی میں اثبات کا رنگ پیدا کرتا ہے۔ خدا کا تصور انسانوں کے تعلقات کو ان معنوں میں منفی ہونے سے بچاتا ہے۔ جب انسان ہر چیز میں خدا کو حکم مان لیتا ہے تو انسانوں سے اس کی شکایت ختم نہیں ہوتی تو کم ضرور ہوجاتی ہے۔ آخرت کا تصور انسان کو بتاتا ہے کہ ہر نیکی ایک بڑا اجر بن کر بالآخر اس کی جانب لوٹنے والی ہے۔ خدا کا تصور انسان کو شُکر کے ذائقے سے روشناس کراتا ہے، اور شُکر زندگی کی کڑواہٹ کو کچھ نہ کچھ کم کردیتا ہے۔ بحیثیتِ مجموعی مذہب انسان کو زندگی کا ایک متوازن تصور عطا کرتا ہے، جس میں دکھ کے ساتھ خوشی بھی ہوتی ہے، تکلیف کے ساتھ زندگی میںکہیں نہ کہیں راحت بھی کارفرما ہوتی ہے۔ زندگی میں بدصورتی کا وجود ہے تو خوبصورتی کے وجود سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی ’’غیروں‘‘ سے گھری ہوتی ہے تو اس میں کوئی نہ کوئی ’’اپنا‘‘ بھی ہوتا ہے۔ اور اس ایک اپنے کی موجودگی سے بہت سے غیر قابلِ برداشت ہوجاتے ہیں۔ لیکن مغرب نے خدا اور مذہب کا انکار کردیا،
اور مغرب میں ایک روحانی، نفسیاتی، ذہنی، جذباتی اور سماجی ’’کانا پن‘‘ پیدا ہوگیا۔ یعنی عدم توازن مغرب کا وجودی یا Existential مسئلہ بن گیا۔ انسانی تعلقات کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ خدا انسانوں کے درمیان موجود نہ ہو تو صرف انسان، انسان کے لیے کافی نہیں ہوتا خواہ ان کا تعلق کتنا ہی مثبت کیوں نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کی محبت اور اس کے ساتھ تعلق انسانی فطرت اور اس کی ساخت یا ڈیزائن کا حصہ ہے، اور خدا کے ساتھ انسان کا تعلق انسان کو جو تسکین عطا کرتا ہے وہ انسانی تعلقات کو مثبت، گہرا، بامعنی اور خوبصورت بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مغرب میں سارتر کے الفاظ میں ’’انسان، انسان کا جہنم بن گیا‘‘ اور لارنس نے کہا ’’مغرب میں انسانی تعلق کا ادب مرگیا ہے‘‘ تو اس کی وجہ یہ تھی کہ خدا اور مذہب کے تصور سے محروم ہوکر مغربی انسان اس قابل نہ رہے کہ وہ صرف اپنی استعداد کی بنیاد پر انسانوں کے ساتھ گہرا، مثبت، بامعنی اور خوبصورت تعلق استوار کرسکیں۔ کہنے کو مغرب رومانس کی دنیا ہے، اور رومانس کو اصولی اعتبار سے تعلق کو مضبوط بنانے والا ہونا چاہیے، مگر مغرب میں رومانس بڑھ رہا ہے اور مرد اور عورت کا تعلق مسلسل کمزور ہورہا ہے، یہاں تک کہ مغرب میں شادی طلاق حاصل کرنے کا ایک بہانہ بن گئی ہے۔ اس صورت میں ادب میں منفیت ایک سرطان بن کر نہ پھیلے تو اور کیا ہو؟ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ادب میں منفیت کا سرطان کہاں سے آیا؟ اور ہمارے ادب کا بڑا حصہ بدی کے مطالعے کے لیے کیوں وقف ہوگیا؟
بعض لوگ مغرب کو محض ایک جغرافیہ سمجھتے ہیں۔ مگر مغرب ایک تناظر، ایک نفسیات اور ایک زاویۂ نگاہ کا نام ہے۔ مغرب نے ہمیں سیاسی اور عسکری طور پر غلام بنایا تو یہ غلامی صرف سیاسی اور عسکری غلامی نہ رہی، یہ تناظر اور نفسیات کی غلامی میں تبدیل ہوگئی۔ ہم نے خدا اور مذہب کو ترک تو نہیں کیا لیکن مغربی فکر کے غلبے نے ہمارے شعور کو خانوں میں بانٹ دیا اور ہم نے سمجھا کہ مذہب کا تعلق تو عقائد، عبادات اور اخلاقیات سے ہے، اسے ادب وغیرہ سے کیا لینا دینا! مارکس اور فرائیڈ ہمارے ادب پر دو بڑے اثرات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مارکس فکر کے زیراثر ہمارے یہاں ترقی پسند تحریک شروع ہوئی۔ مارکس نے معاشیات پر اتنا اصرار کیا کہ معاشی عنصر اس کے یہاں معاشی جبلّت بلکہ معاشی جنسیت، یا Economic Sextuality بن گیا۔ جنس کے سلسلے میں فرائیڈ کی تفہیم غیر معمولی ہے اور اس کے یہاں جنس ایک زندگی بخش قوت یا Life force ہے، مگر ہمارے یہاں فرائیڈ کی ناقص تفہیم نے جنس کو ایک مرض، ایک کابوس اور انسانی شخصیت کا ایک عدم توازن بنادیا۔
پریم چند ترقی پسند افسانے کا سب سے بڑا نام ہیں اور ان کے افسانے ’’کفن‘‘ کو ترقی پسند افسانے میں بڑا مقام حاصل ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پریم چند نے اپنے تئیں اس افسانے میں معاشی عنصر کو انسانوں کے اندر ایسی سفاکی پیدا کرتے ہوئے دکھایا ہے کہ انسان اپنی انسانیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ لیکن منشی پریم چند نے لاشعوری طور پر ’کفن‘ میں بعض ایسی باتیں کہی ہیں جن سے ان کے نظریے اور مطمح نظر کی نفی ہوجاتی ہے۔ مثلاً پریم چند نے دکھایا ہے کہ افسانے میں ایسے جاگیردار موجود ہیں جو طوعاً و کرہاً ہی سہی، ضرورت کے وقت غریبوں کی مالی مدد کرتے ہیں۔ افسانے کے مرکزی کردار بظاہر اپنی غربت کی وجہ سے کفن کے پیسے کھا جاتے ہیں مگر خود پریم چند نے لکھا ہے کہ ان کرداروں کی غربت اور ہولناک فلاکت جاگیردارانہ سماج سے زیادہ خود ان کی ’’کام چوری‘‘ کا نتیجہ تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ معاشرے میں ایسے کردار نہیں ہوتے۔ تاہم ایسے کردار استثنائی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں اور تخلیقی عمل استثنائی مثالوں سے بہت کم اور عام مثالوں سے زیادہ متعلق ہوتا ہے، اس لیے کہ ادب کا تعلق معاشرے کے مرکزی دھارے سے ہوتا ہے۔ عصمت کے یہاں جنس کا بیان یا تو اتنا اتھلا اور مضحکہ خیز ہے کہ آدمی قے کردے، یا پھر وہ جنس کی قوت کو یہ دکھانے کے لیے استعمال کرتی ہیں کہ ہمارے معاشرے کی مذہبیت کتنی جھوٹی ہے اور ہم کتنے منافق ہیں۔ منٹو کے یہاں جنس کے بیان کے دو دائرے ہیں۔ ایک دائرے میں جنس منٹو کے یہاں انسان کی فطرت کے گہرے رجحانات کا انکشاف بن گئی ہے، دوسرے دائرے میں وہ ایک مرض ہے، ایک ناسور ہے اور بدی کا مطالعہ ہے۔
مغرب اور اس کے زیراثر ہمارے یہاں بھی ادب میں بدی کے مطالعے کا رجحان اس لیے عام ہوا کہ اس میں ایک ’’دریافت‘‘ کا عنصر اور لطف محسوس کیا گیا۔ لکھنے والوں کو لگا کہ بدی کی پیشکش کے ذریعے وہ اَن دیکھی دنیائوں کو تلاش کررہے ہیں۔ اس کے مقابلے پر خیر کی پیشکش کے حوالے سے انہوں نے محسوس کیا کہ اس کی تمام جہتیں معلوم ہیں اور ان میں ’’نئے سماج‘‘کے لیے کوئی ’’نیا پن‘‘ نہیں ہوگا۔ لیکن اقبال نے بتایا کہ خیر کے دائرے میں دریافت کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا اور اصل مسئلہ خیر کے ساتھ تعلق اور تخلیقی صلاحیت کا ہے۔ تعلق اور تخلیقی صلاحیت موجود ہو تو خیر کے تصورات اور اثباتی پہلوئوں کی بنیاد پر بھی بڑا ادب تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انحرافی اور منفی رجحانات میں زیادہ قوت ہوتی ہے اور ان کا بیان زیادہ جمالیاتی اور ادبی یا Artistic محسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ نئے لکھنے والوں میں زیادہ جوش و جذبہ تھا۔ لیکن ادب میں اصل مسئلہ مثبت اور منفی کا ہوتا ہی نہیں، اصل چیز یہ ہے کہ کہی گئی بات ادب بن سکی یا نہیں۔ لیکن نئے ادب میں انحراف کو اتنی اہمیت حاصل ہوئی کہ صرف انحراف ہی ادب بن کر رہ گیا، اور اپنی روایت سے اس کے تعلق کا سوال پس منظر میں چلا گیا۔ لیکن ہمارے نئے ادب نے اس کی بڑی قیمت ادا کی، اور وہ یہ کہ یہ ادب وقت کی کسوٹی پر کھرا ثابت نہ ہوسکا۔ نتیجہ یہ ہے کہ سوا اور ڈیڑھ سو سال پرانا ادب آج بھی ’’نیا‘‘ محسوس ہوتا ہے اور پچاس ساٹھ سال کی عمر کا حامل ادب اتنا پرانا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پرانے پن کو دیکھ کر رحم آتا ہے۔
مغرب کے حوالے سے اس سوال کا جواب واضح ہے۔ مذہب صرف عقائد، عبادات اور اخلاقیات کا مجموعہ نہیں ہوتا… وہ زندگی کو معنی عطا کرتا ہے، مقصد سے ہم کنار کرتا ہے۔ خدا کی موجودگی پوری کائنات اور زندگی کی ایک مرتب اور منظم تصویر کو شعور میں راسخ کرتی ہے۔ مذہب انسان کو کچھ نہ کچھ صبر کرنا اور منفی تجربات کو جذب کرنا سکھاتا ہے اور نفی میں اثبات کا رنگ پیدا کرتا ہے۔ خدا کا تصور انسانوں کے تعلقات کو ان معنوں میں منفی ہونے سے بچاتا ہے۔ جب انسان ہر چیز میں خدا کو حکم مان لیتا ہے تو انسانوں سے اس کی شکایت ختم نہیں ہوتی تو کم ضرور ہوجاتی ہے۔ آخرت کا تصور انسان کو بتاتا ہے کہ ہر نیکی ایک بڑا اجر بن کر بالآخر اس کی جانب لوٹنے والی ہے۔ خدا کا تصور انسان کو شُکر کے ذائقے سے روشناس کراتا ہے، اور شُکر زندگی کی کڑواہٹ کو کچھ نہ کچھ کم کردیتا ہے۔ بحیثیتِ مجموعی مذہب انسان کو زندگی کا ایک متوازن تصور عطا کرتا ہے، جس میں دکھ کے ساتھ خوشی بھی ہوتی ہے، تکلیف کے ساتھ زندگی میںکہیں نہ کہیں راحت بھی کارفرما ہوتی ہے۔ زندگی میں بدصورتی کا وجود ہے تو خوبصورتی کے وجود سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی ’’غیروں‘‘ سے گھری ہوتی ہے تو اس میں کوئی نہ کوئی ’’اپنا‘‘ بھی ہوتا ہے۔ اور اس ایک اپنے کی موجودگی سے بہت سے غیر قابلِ برداشت ہوجاتے ہیں۔ لیکن مغرب نے خدا اور مذہب کا انکار کردیا،
اور مغرب میں ایک روحانی، نفسیاتی، ذہنی، جذباتی اور سماجی ’’کانا پن‘‘ پیدا ہوگیا۔ یعنی عدم توازن مغرب کا وجودی یا Existential مسئلہ بن گیا۔ انسانی تعلقات کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ خدا انسانوں کے درمیان موجود نہ ہو تو صرف انسان، انسان کے لیے کافی نہیں ہوتا خواہ ان کا تعلق کتنا ہی مثبت کیوں نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کی محبت اور اس کے ساتھ تعلق انسانی فطرت اور اس کی ساخت یا ڈیزائن کا حصہ ہے، اور خدا کے ساتھ انسان کا تعلق انسان کو جو تسکین عطا کرتا ہے وہ انسانی تعلقات کو مثبت، گہرا، بامعنی اور خوبصورت بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مغرب میں سارتر کے الفاظ میں ’’انسان، انسان کا جہنم بن گیا‘‘ اور لارنس نے کہا ’’مغرب میں انسانی تعلق کا ادب مرگیا ہے‘‘ تو اس کی وجہ یہ تھی کہ خدا اور مذہب کے تصور سے محروم ہوکر مغربی انسان اس قابل نہ رہے کہ وہ صرف اپنی استعداد کی بنیاد پر انسانوں کے ساتھ گہرا، مثبت، بامعنی اور خوبصورت تعلق استوار کرسکیں۔ کہنے کو مغرب رومانس کی دنیا ہے، اور رومانس کو اصولی اعتبار سے تعلق کو مضبوط بنانے والا ہونا چاہیے، مگر مغرب میں رومانس بڑھ رہا ہے اور مرد اور عورت کا تعلق مسلسل کمزور ہورہا ہے، یہاں تک کہ مغرب میں شادی طلاق حاصل کرنے کا ایک بہانہ بن گئی ہے۔ اس صورت میں ادب میں منفیت ایک سرطان بن کر نہ پھیلے تو اور کیا ہو؟ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ادب میں منفیت کا سرطان کہاں سے آیا؟ اور ہمارے ادب کا بڑا حصہ بدی کے مطالعے کے لیے کیوں وقف ہوگیا؟
بعض لوگ مغرب کو محض ایک جغرافیہ سمجھتے ہیں۔ مگر مغرب ایک تناظر، ایک نفسیات اور ایک زاویۂ نگاہ کا نام ہے۔ مغرب نے ہمیں سیاسی اور عسکری طور پر غلام بنایا تو یہ غلامی صرف سیاسی اور عسکری غلامی نہ رہی، یہ تناظر اور نفسیات کی غلامی میں تبدیل ہوگئی۔ ہم نے خدا اور مذہب کو ترک تو نہیں کیا لیکن مغربی فکر کے غلبے نے ہمارے شعور کو خانوں میں بانٹ دیا اور ہم نے سمجھا کہ مذہب کا تعلق تو عقائد، عبادات اور اخلاقیات سے ہے، اسے ادب وغیرہ سے کیا لینا دینا! مارکس اور فرائیڈ ہمارے ادب پر دو بڑے اثرات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مارکس فکر کے زیراثر ہمارے یہاں ترقی پسند تحریک شروع ہوئی۔ مارکس نے معاشیات پر اتنا اصرار کیا کہ معاشی عنصر اس کے یہاں معاشی جبلّت بلکہ معاشی جنسیت، یا Economic Sextuality بن گیا۔ جنس کے سلسلے میں فرائیڈ کی تفہیم غیر معمولی ہے اور اس کے یہاں جنس ایک زندگی بخش قوت یا Life force ہے، مگر ہمارے یہاں فرائیڈ کی ناقص تفہیم نے جنس کو ایک مرض، ایک کابوس اور انسانی شخصیت کا ایک عدم توازن بنادیا۔
پریم چند ترقی پسند افسانے کا سب سے بڑا نام ہیں اور ان کے افسانے ’’کفن‘‘ کو ترقی پسند افسانے میں بڑا مقام حاصل ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پریم چند نے اپنے تئیں اس افسانے میں معاشی عنصر کو انسانوں کے اندر ایسی سفاکی پیدا کرتے ہوئے دکھایا ہے کہ انسان اپنی انسانیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ لیکن منشی پریم چند نے لاشعوری طور پر ’کفن‘ میں بعض ایسی باتیں کہی ہیں جن سے ان کے نظریے اور مطمح نظر کی نفی ہوجاتی ہے۔ مثلاً پریم چند نے دکھایا ہے کہ افسانے میں ایسے جاگیردار موجود ہیں جو طوعاً و کرہاً ہی سہی، ضرورت کے وقت غریبوں کی مالی مدد کرتے ہیں۔ افسانے کے مرکزی کردار بظاہر اپنی غربت کی وجہ سے کفن کے پیسے کھا جاتے ہیں مگر خود پریم چند نے لکھا ہے کہ ان کرداروں کی غربت اور ہولناک فلاکت جاگیردارانہ سماج سے زیادہ خود ان کی ’’کام چوری‘‘ کا نتیجہ تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ معاشرے میں ایسے کردار نہیں ہوتے۔ تاہم ایسے کردار استثنائی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں اور تخلیقی عمل استثنائی مثالوں سے بہت کم اور عام مثالوں سے زیادہ متعلق ہوتا ہے، اس لیے کہ ادب کا تعلق معاشرے کے مرکزی دھارے سے ہوتا ہے۔ عصمت کے یہاں جنس کا بیان یا تو اتنا اتھلا اور مضحکہ خیز ہے کہ آدمی قے کردے، یا پھر وہ جنس کی قوت کو یہ دکھانے کے لیے استعمال کرتی ہیں کہ ہمارے معاشرے کی مذہبیت کتنی جھوٹی ہے اور ہم کتنے منافق ہیں۔ منٹو کے یہاں جنس کے بیان کے دو دائرے ہیں۔ ایک دائرے میں جنس منٹو کے یہاں انسان کی فطرت کے گہرے رجحانات کا انکشاف بن گئی ہے، دوسرے دائرے میں وہ ایک مرض ہے، ایک ناسور ہے اور بدی کا مطالعہ ہے۔
مغرب اور اس کے زیراثر ہمارے یہاں بھی ادب میں بدی کے مطالعے کا رجحان اس لیے عام ہوا کہ اس میں ایک ’’دریافت‘‘ کا عنصر اور لطف محسوس کیا گیا۔ لکھنے والوں کو لگا کہ بدی کی پیشکش کے ذریعے وہ اَن دیکھی دنیائوں کو تلاش کررہے ہیں۔ اس کے مقابلے پر خیر کی پیشکش کے حوالے سے انہوں نے محسوس کیا کہ اس کی تمام جہتیں معلوم ہیں اور ان میں ’’نئے سماج‘‘کے لیے کوئی ’’نیا پن‘‘ نہیں ہوگا۔ لیکن اقبال نے بتایا کہ خیر کے دائرے میں دریافت کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا اور اصل مسئلہ خیر کے ساتھ تعلق اور تخلیقی صلاحیت کا ہے۔ تعلق اور تخلیقی صلاحیت موجود ہو تو خیر کے تصورات اور اثباتی پہلوئوں کی بنیاد پر بھی بڑا ادب تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انحرافی اور منفی رجحانات میں زیادہ قوت ہوتی ہے اور ان کا بیان زیادہ جمالیاتی اور ادبی یا Artistic محسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ نئے لکھنے والوں میں زیادہ جوش و جذبہ تھا۔ لیکن ادب میں اصل مسئلہ مثبت اور منفی کا ہوتا ہی نہیں، اصل چیز یہ ہے کہ کہی گئی بات ادب بن سکی یا نہیں۔ لیکن نئے ادب میں انحراف کو اتنی اہمیت حاصل ہوئی کہ صرف انحراف ہی ادب بن کر رہ گیا، اور اپنی روایت سے اس کے تعلق کا سوال پس منظر میں چلا گیا۔ لیکن ہمارے نئے ادب نے اس کی بڑی قیمت ادا کی، اور وہ یہ کہ یہ ادب وقت کی کسوٹی پر کھرا ثابت نہ ہوسکا۔ نتیجہ یہ ہے کہ سوا اور ڈیڑھ سو سال پرانا ادب آج بھی ’’نیا‘‘ محسوس ہوتا ہے اور پچاس ساٹھ سال کی عمر کا حامل ادب اتنا پرانا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پرانے پن کو دیکھ کر رحم آتا ہے۔
No comments:
Post a Comment