ایک زمانہ وہ تھا جب دوست ممالک کے سربراہان پاکستان کے دورے پر آتے تھے تو
اسکول وکالج کے طلباء اور عوام ائیرپورٹ اور شاہراہوں کے دونوں طرف جمع
ہوکر ان کا استقبال کرتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب چین کے وزیراعظم چواین
لائی آئے تھے تو کراچی ائیرپورٹ اور شاہراہ فیصل پر لوگ قطار درقطار اپنے
دوست ملک کے سربراہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ ان کے ہاتھوں میں
پاکستان اور چین کے جھنڈے تھے، شاہراہوں کو بھی جھنڈیوں اور بینروں سے
سجایا گیا تھا۔ اب زمانہ تو وہی ہے لیکن حالات اتنے بدل گئے ہیں کہ کسی بھی
ملک کا سربراہ آئے، وہ اسلام آباد اترتا ہے اور وہیں سے چلا جاتا ہے۔ نہ
وہ کراچی آکر بابائے قوم کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھاتا ہے نہ فاتحہ
خوانی کرتا ہے۔ اسی طرح لاہور کے شالا مار باغ میں بھی شہریوں کی جانب سے
کوئی استقبالیہ دیا جاتا ہے نہ ضیافت۔ ان روکھے پھیکے دوروں کے نتیجے میں
ریاستی اور سرکاری رابطہ تو ہوجاتا ہے لیکن یہ سیاسی، سفارتی اور ثقافتی
رابطے کی کمزور کڑی ہے، اس لیے عوام کا عوام سے کوئی تعلق اور رابطہ استوار
نہیں ہوتا۔
وہ زمانہ اور دور ہمیں اس لیے یاد آگیا کہ مصر کے صدر محمد مرسی گزشتہ دنوں
پاکستان کے سرکاری دورے پر اسلام آباد آئے اور دس گھنٹے قیام کے بعد واپس
دہلی چلے گئے۔ ہماری خواہش اور آرزو تھی کہ صدر مرسی کراچی آئیں تو ہم اہلِ
کراچی مصر کے اخوانی صدر سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کریں۔ لیکن شاید
حالات آڑے آگئے ہوں گے، تاہم جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم سید منور
حسن کی قیادت میں وفد کی صدر مرسی سے ملاقات نے ہماری آدھی خواہش ضرور پوری
کردی۔ اس ملاقات کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں دونوں برادر ملکوں کے درمیان
تعلقات کو مزید مضبوط ومستحکم کرنے کی تجاویز پر اتفاق کیا گیا۔ سید صاحب
نے صدر مرسی سے ملاقات میں پاکستان کے 18 کروڑ عوام کے جذبات کی ترجمانی
کرتے ہوئے کہا کہ صدر مرسی کا دورۂ پاکستان تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ نصف
صدی سے زیادہ عرصہ بعد مصر کا کوئی صدر پاکستان آیا ہے۔ آج کا مصر ایک
مختلف مصر ہے، اور محمد مرسی جمہوری طریقے سے مصر کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ صدر مرسی سے سید صاحب کی ملاقات کے نتیجے میں پاکستان اور مصر کے عوام میں تعلق اور رشتہ مزید گہرا اور مضبوط ہوگا، اور جب پاکستان میں بھی اخوان المسلمون کی طرح جماعت اسلامی کی حکومت قائم ہوگی تو دونوں ممالک کے سربراہ نہ صرف اسلام آباد بلکہ لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں کھلی جیپ میں کاروانِ اخوت ومحبت کا مظاہرہ کریں گے۔
صدر مرسی کا یہ سرکاری دورہ تھا۔ صدر زرداری نے نہ صرف مصری صدر کو سفارتی پروٹوکول دیا بلکہ والہانہ استقبال کے ساتھ پاکستان اور مصر کے ساتھ تجارتی واقتصادی شعبوں میں مفاہمت کی آٹھ یادداشتوں پر دستخط بھی کیے۔ ملاقات میں یہ بھی طے ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے کے لیے ششماہی بنیادوں پر سربراہانِ مملکت کی سطح پر ملاقات ہوگی۔ صدر مرسی نے اپنے دورے کے موقع پر بجا طور پر فرمایا کہ پاکستان اور مصر اسلامی دنیا کے دو اہم ستون ہیں۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے وفد سے ملاقات میں یہ بھی فرمایا کہ فلسطین اور کشمیر کے مسائل حل ہونے تک خطے میں امن قائم نہیں ہوگا۔
مصری صدر محمد مرسی کا دورۂ پاکستان مصر اور پاکستان کے درمیان تعلقات کا ایک نیا موڑ ہے۔ اب تک مصر سے پاکستان کے تعلقات صر ف سیاسی اور سفارتی سطح پر تھے۔ مصر میں آمریت کے خاتمے اور اسلام پسند اخوان المسلمون کی حکومت کے قیام سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں ایک نیا موڑ آئے گا۔ اس دورے سے جہاں دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور دفاعی تعلقات میں اضافہ ہوگا، وہیں دونوں ملک مل کر امتِ مسلمہ کی فلاح وترقی کے لیے بھی بامعنی کردار ادا کرسکیں گے۔
خزاں رسیدہ مصر ایک طویل جدوجہد اور قربانی کے بعد آمریت اور استعماریت کے شکنجے سے آزاد ہوا ہے، ہرچند کہ اس آزادی کو ’’عرب بہار‘‘ کا نام دیا جارہا ہے لیکن اصلاً یہ قوم یا قومیت کی نہیں بلکہ ’’اسلامی بہار‘‘ ہے۔ عرب قومیت نے خود عربوں کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ اسے آج تک بھگت رہے ہیں۔ اسی لیے استعماری اور طاغوتی طاقتوں نے نہایت عیاری اور مکاری کے ساتھ ’’اسلامی بہار‘‘ کو ’’عرب بہار‘‘ سے تشبیہ دی ہے تاکہ قومیت کے زہر اور عصبیت کے مقابلے میں اسلام کی حقانیت اور صداقت کو آگے نہ آنے دیا جائے۔ لیکن یہ فتنہ زیادہ عرصہ نہیں چلے گا، جو بھی اسلامی قومیت کے مقابلے میں نسلی، لسانی اور علاقائی عصبیت کا مظاہرہ کرے گا اسلام پسند اسے ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہم ایک بار پھر مصر کو اسلامی بہار کی آغوش میں نئے جنم پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ پاکستان اور مصر مل کر مسلم اُمہ کے اتحاد، یکجہتی، سلامتی، استحکام اور ترقی و سربلندی کے لیے کام کریں گے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ صدر مرسی سے سید صاحب کی ملاقات کے نتیجے میں پاکستان اور مصر کے عوام میں تعلق اور رشتہ مزید گہرا اور مضبوط ہوگا، اور جب پاکستان میں بھی اخوان المسلمون کی طرح جماعت اسلامی کی حکومت قائم ہوگی تو دونوں ممالک کے سربراہ نہ صرف اسلام آباد بلکہ لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں کھلی جیپ میں کاروانِ اخوت ومحبت کا مظاہرہ کریں گے۔
صدر مرسی کا یہ سرکاری دورہ تھا۔ صدر زرداری نے نہ صرف مصری صدر کو سفارتی پروٹوکول دیا بلکہ والہانہ استقبال کے ساتھ پاکستان اور مصر کے ساتھ تجارتی واقتصادی شعبوں میں مفاہمت کی آٹھ یادداشتوں پر دستخط بھی کیے۔ ملاقات میں یہ بھی طے ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے کے لیے ششماہی بنیادوں پر سربراہانِ مملکت کی سطح پر ملاقات ہوگی۔ صدر مرسی نے اپنے دورے کے موقع پر بجا طور پر فرمایا کہ پاکستان اور مصر اسلامی دنیا کے دو اہم ستون ہیں۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے وفد سے ملاقات میں یہ بھی فرمایا کہ فلسطین اور کشمیر کے مسائل حل ہونے تک خطے میں امن قائم نہیں ہوگا۔
مصری صدر محمد مرسی کا دورۂ پاکستان مصر اور پاکستان کے درمیان تعلقات کا ایک نیا موڑ ہے۔ اب تک مصر سے پاکستان کے تعلقات صر ف سیاسی اور سفارتی سطح پر تھے۔ مصر میں آمریت کے خاتمے اور اسلام پسند اخوان المسلمون کی حکومت کے قیام سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں ایک نیا موڑ آئے گا۔ اس دورے سے جہاں دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور دفاعی تعلقات میں اضافہ ہوگا، وہیں دونوں ملک مل کر امتِ مسلمہ کی فلاح وترقی کے لیے بھی بامعنی کردار ادا کرسکیں گے۔
خزاں رسیدہ مصر ایک طویل جدوجہد اور قربانی کے بعد آمریت اور استعماریت کے شکنجے سے آزاد ہوا ہے، ہرچند کہ اس آزادی کو ’’عرب بہار‘‘ کا نام دیا جارہا ہے لیکن اصلاً یہ قوم یا قومیت کی نہیں بلکہ ’’اسلامی بہار‘‘ ہے۔ عرب قومیت نے خود عربوں کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ اسے آج تک بھگت رہے ہیں۔ اسی لیے استعماری اور طاغوتی طاقتوں نے نہایت عیاری اور مکاری کے ساتھ ’’اسلامی بہار‘‘ کو ’’عرب بہار‘‘ سے تشبیہ دی ہے تاکہ قومیت کے زہر اور عصبیت کے مقابلے میں اسلام کی حقانیت اور صداقت کو آگے نہ آنے دیا جائے۔ لیکن یہ فتنہ زیادہ عرصہ نہیں چلے گا، جو بھی اسلامی قومیت کے مقابلے میں نسلی، لسانی اور علاقائی عصبیت کا مظاہرہ کرے گا اسلام پسند اسے ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہم ایک بار پھر مصر کو اسلامی بہار کی آغوش میں نئے جنم پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ پاکستان اور مصر مل کر مسلم اُمہ کے اتحاد، یکجہتی، سلامتی، استحکام اور ترقی و سربلندی کے لیے کام کریں گے۔
No comments:
Post a Comment