پاکستان کے قیام کے اول روز سے ہی وطن عزیز کو درپیش مالی مسائل کا
دائرہ بڑھتے بڑھتے معاشی بدحالی کے ایک خوفناک عفریت کا روپ اختیار کرچکا
ہے ،المیہ یہ ہے کہ آنے والے مختلف ادوار میں راج سنگھاسن پر بیٹھے
حکمرانوں نے اس اہم اور بنیادی مسئلہ پر خاطر خواہ توجہ دینے کے بجائے اپنی
تمام تر صلاحیتوں اور توجہ کو اقتدار کی رسہ کشی پر مرکوز رکھا۔پاکستان کے
معاشی مسائل کے بارے میں اگرچہ مختلف مباحث کے دوران بہت سے استدلال دیے
جاتے ہیں اور ان کی متعدد وجوہات پیش کی جاتی ہیں تاہم اقتصادی ماہرین کی
اکثریت کا موقف ہے کہ پاکستان میں عوام کی معاشی بہتری اور خوشحالی کے
راستہ میں رکاوٹ موجودہ استحصالی نظام ہے جس میں مخصوص طبقات کے مفادات کو
تحفظ دینے کیلیے ہی پالیسیاں وضع کی جاتی ہیں مرحوم صدر جنرل ایوب خان کے
دور میں ملک کے بائیس خاندانوں کا بہت تذکرہ تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ
پاکستان کی دولت اور وسائل ان بائیس خاندانوں کے قبضے میں ہیں تاہم اب یہ
خاندان وسعت اختیار کرچکے ہیں چند روز قبل اقوام متحدہ کی انسانی ترقی کے
حوالے سے جاری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سیاست ایک سو
خاندانوں پر مشتمل ہے اور یہی صورتحال ملکی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ رپورٹ
میں بجا طور پر کہا گیا ہے کہ معیشت بھی انہی خاندانوں کے کنٹرول میں ہے،
مذکورہ رپورٹ کے مندرجات کی تائید قیام پاکستان سے لے کر اب تک کے حالات سے
بخوبی ہوتی ہے اگرچہ پاکستان میں 30برس سے زائد عرصہ تک فوجی حکومتیں قائم
رہیں تاہم جس مختصردورانیہ میں مختلف سول حکومتیں قائم ہوئیں اس میں بھی
بڑی حد تک پس منظر میں فوجی اشارے موجود رہے جمہوری دور ہو یا فوجی حکومت
کا دورانیہ دونوں ادوار میں سرمایہ داروں ، جاگیر داروں اور بیورو کریسی کی
بالادستی رہی چنانچہ انہیں طبقات کے مفادات پر مبنی اقتصادی پالیسیاں وضع
کی جاتی رہیں جن کے نتیجے میں جاگیرداروں نے بڑے زمینداروں اور سرمایہ
داروں کی دولت بڑھتی رہی لیکن نچلے طبقات کیلیے زندگی اجیرن ہوگئی اور سفید
پوش طبقہ بے دردی سے کچل دیا گیا یہاں اس امر کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا
ہے کہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے بیرون ملک کا روبار شروع کیے اور
صنعتیں لگائیں لیکن پاکستان کے وسائل سے ہر جائز اور ناجائز طریقے سے دولت
اکٹھی کرتے رہے جبکہ بلوچستان کے سرداروں کا ایسا طبقہ بھی ہے جو اربوں کا
مالک ہے لیکن انہوں نے اپنی سرداریاں برقرار رکھنے اور اپنے عوام کو
پسماندہ رکھنے کیلیے بلوچستان کے اندر چھوٹی بڑی صنعتیں قائم نہ کیں اس کے
برعکس دبئی سمیت خلیجی ریاستوں میں کاروبار کیے انہوں نے اپنے علاقوں میں
سڑکیں پختہ کیں نہ تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کی حالانکہ مختلف ادوار
میں صوبے کی حکمرانی بھی انہیں کے پاس رہی انہیں معلوم ہے کہ اگر لوگوں کو
روزگار مل گیا ان کے بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہوگئے تو ان کی اطاعت اور
غلامی کون کرے گا؟ اس لیے انہیں معاشی طور پر بد حالی اور ساری طاقت اور
سیاست بلاشبہ ملک کے ایک سوخاندانوں ہی کے پاس ہے البتہ اس استحصالی نظام
میں عوام کی حالت بہتر بنانے کی بجائے انہیں ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کی
جاتی ہے تاکہ ان کے جسم و جان کا رشتہ برقراررہے ،جس حکومت نے فخریہ انداز
میں اپنے پانچ سال پورے کیے اس کے دور میں تو لوگوں کیلیے جسم و جان کا
رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہوگیا تھا چنانچہ لوگ خودکشیاں کرنے اور اپنے
بچے اور گردے فروخت کرنے پر مجبور کردیے گئے زمینداروں اور جاگیرداروں کو
گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ کرکے یک جنبش قلم ان کی آمدنی میں لاکھوں
اور کروڑوں کا اضافہ کردیا گیا لیکن اس بارے میں نہیں سوچا گیا کہ اس اقدام
کے نتیجے میں گندم اور آٹا مہنگا ہوگا اور غریب عوام پر اضافی بوجھ پڑے
گا اسی قسم کے متعدد اقدامات کیے گئے اور پالیسیاں وضع کی گئیں جنہیں عوام
دشمن قراردیا جاسکتا ہے اب تو موروثی سیاست کا سلسلہ بھی تیزی سے آگے بڑھ
رہا ہے سیاسی جماعتوں کے سربراہ اپنے بیٹوں، اپنی بیگمات اور اپنی بیٹیوں
کو اسمبلیوں میں لارہے ہیں تاکہ خاندان کے جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ
مفادات کا مزید بہتر طور پر تحفظ کیا جاسکے جب تک عام آدمی اسمبلیوں میں
نہیں پہنچے گا پالیسیوں کے مرتب کرنے میں اس کا عمل دخل نہیں ہوگا اس وقت
تک عوام کے مفادات کی حامل پالیسیاں نہیں وضع ہوسکیں ملک تیزی سے انتخابات
کی طرف بڑھ رہا ہے اس تناظر میں ووٹروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ
وہ موروثی اور خاندانی سیاست کی حوصلہ شکنی کریں اور جاگیر داروں کو ووٹ نہ
دیں، دیانتدار اور اچھی شہرت کے حامل مڈل کلاس کے امیدواروں کو کامیاب
بنائیں استحصالی نظام کو جمہوری طریقے سے کمزور کرنے کا یہی طریقہ ہے ۔
No comments:
Post a Comment