Monday, April 1, 2013

اعلیٰ تعلیمی ادارے… کل اور آج

ہم نے جب کالج سے فارغ ہوکر جامعہ کراچی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیا تو ہمارے ذہن میں کالج اور یونیورسٹی کے درمیان وہی فرق تھا جو کنویں اور سمندر میں ہوتا ہے۔ ہم اسکول اور کالج کے ’’کنویں پن‘‘ سے اکتائے ہوئے تھے اور یونیورسٹی کے سمندر میں تیرنے کے خواب دیکھتے تھے۔ افسوس کہ یونیورسٹی سمندر تو ثابت نہ ہوئی مگر وہ ایک بہت بڑا تالاب ضرور تھی۔ لیکن اس تالاب کی ’’تالابیت‘‘ اس کے کلاس روم میں کم اس کی فضاء میں زیادہ تھی۔ یہ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ تھا طلبہ یونین کے انتخاب پر پابندی عائد کی جاچکی تھی لیکن اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیمیں سرگرم تھیں۔ بلاشبہ اس وقت بھی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جو طلبہ آتے تھے ان کی عظیم اکثریت کا مقصد ڈگری کا حصول ہوتا تھا تاکہ انہیں اچھا روز گار حاصل ہوسکے۔ لیکن طلبہ تنظیموں کی موجودگی طلبہ کی اچھی خاصی تعداد کو کسی نہ کسی حد تک ’’نظریاتی‘‘ بنا ہی دیتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ کسی کے لیے ایشیا ’’سرخ‘‘ ہوتا تھا اور کسی کے لیے ’’سبز‘‘۔ اس ماحول کا اثریہ ہوتا تھا کہ جو طلبہ سرخ یا سبز نہیں ہوپاتے تھے ان تک بھی سرخی اور سبزے کا تھوڑا بہت رنگ ضرور پہنچتا تھا۔ یعنی انہیں معلوم ہوجاتا تھا کہ اس وقت زندگی اور دنیا کو صرف دو عینکوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ صورت حال اچھے اچھے کیریرسٹوں کو بھی نظریات سے فلرٹ کرنا سکھا دیتی تھی اور اس کا افراد اور معاشرے دونوں کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوتا تھا۔ لیکن اب جو نسل ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے میں آرہی ہے۔ اس کے ذہن میں کیریر کے سوا کچھ ہوتا ہی نہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نظریاتی کشمکش موجود نہیں۔ بلاشبہ اس کا ایک سبب کمیونزم کا زوال اور سوویت یونین کا فنا ہوجانا ہے۔ لیکن نظریاتی کشمکش سوویت یونین اور سیکولرزم کی محتاج نہیں ہے۔ حق وباطل کی کشمکش دائمی ہے اور اسے ہر عہد میں دریافت کرنا اور اس کے مطابق جدوجہد کرنا ناگزیر ہے مگر ہم اپنی قومی زندگی بالخصوص اعلیٰ تعلیمی اداروں میں یہ کام نہیں کرسکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایک ایسی نسل آکر کھڑی ہوگئی ہے جس کے سامنے کیریر کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ معاشرے میں اور خود اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مذہبیت بڑھی ہے مگر نظریاتی شعور کمزور ہوا ہے۔ یہاں تک کہ خود اسلامی جمعیت طلبہ میں ایسے نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد نظر آتی ہے جو نظریاتی جدوجہد کے مفہوم سے پوری طرح آگاہ نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کیریرازم صرف آج کا مسئلہ ہے۔ جس زمانے میں نظریاتی کشمکش عروج پر تھی اس زمانے میں بھی کیریرسٹوں کی کمی نہ تھی۔ حسین حقانی اور جاوید ہاشمی اس کی بڑی مثالیں ہیں لیکن اس زمانے میں بہرحال کیریرازم کا ایسا غلبہ نہ تھا جیسا اب دیکھنے میں آتا ہے۔
ماضی کی نظریاتی جدوجہد کا تعلق علم سے تھا اور یہ صورت حال طلبہ کو نظریات کے علم کی جانب مائل کرتی تھی چنانچہ کچھ طلبہ شوق سے اور کچھ سیاسی ضرورت کے تحت نظریات کا مطالعہ ضرور کرتے تھے۔ اس ضرورت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ایک بار ہم سے جامعہ میں این ایس ایف کے ایک صوبائی صدر نے پوچھا کہ تم غلبہ اسلام کی بات کرتے ہو۔ ذرا یہ تو بتائو کہ تم اسلامی ریاست میں سود کے بغیر معیشت اور ریاست کس طرح چلائو گے۔ اصولی اعتبار سے یہ ایک ایسا سوال تھا جو مولانا مودودیؒ سے کیا جانا چاہے تھا لیکن یہ سوال ایک ایسے طالب علم سے کرلیا گیا تھا جو مولانا مودودیؒ کا اچھا قاری بھی نہیں تھا۔ سوال سن کر ایک لمحے کے لیے ہمیں معلوم ہوا کہ چودہ طبق کے روشن ہونے کا مفہوم کیا ہوتا ہے۔ یہ صورت حال دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو ہم پر رحم آگیا چنانچہ اس نے ہمیں ایک ایسا جواب سجھا دیا کہ خود سوال پوچھنے والے کے اوسان خطا ہوگئے۔ ہم نے کہا کہ صرف اسلام ہی سود کے خلاف نہیں کارل مارکس بھی سود کے خلاف تھا اور اگر سوشلسٹ دنیا 65 سال تک سود کے بغیر معیشت اور ریاست چلا سکتی ہے تو ہم سود کے بغیر معیشت اور ریاست کیوں نہیں چلا سکیں گے؟ جامعہ کی فضا میں اس طرح کے فکری چیلنج ابھرتے رہتے تھے اور آپ خود کو اس بات پر مائل یامجبور پاتے تھے کہ اپنے اور حریف کے نظریات کا مطالعہ جاری رکھا جائے اور غوروفکر کا سلسلہ رکنے نہ پائے لیکن ہمارے آج کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی فضا میں کوئی فکری اور نظریاتی چیلنج موجود نہیں اور طلبہ تنظیموں سے وابستہ طلبہ بھی آسانی کے ساتھ کچھ نہ پڑھنے اور کچھ نہ سوچنے کی ’’عیاشی‘‘ کے متحمل ہوسکتے ہیں۔
سیاست بالخصوص نظریاتی سیاست معاشرے کیا پوری دنیا سے انسان کو تعلق قائم کرنا یا اسے Own کرنا سکھاتی ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے لیے پاکستان کیا پوری امت مسلمہ ’’گھر کا مسئلہ‘‘ ہے۔ سوشلسٹوں کا تناظر بھی عالمگیر تھا۔ وہ سوشلزم کو آفاقی حقیقت سمجھتے تھے اور ان کے لیے دنیا کا ہر سوشلسٹ کا مریڈ تھا۔ چنانچہ جن لوگوں نے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نظریاتی سیاست کا ذائقہ چکھا ہے وہ کبھی کنویں کے مینڈک نہیں بن سکتے۔ لیکن اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نظریاتی سیاست کے خاتمے نے ایک ایسی نسل پیدا کردی ہے جو عالمی کیا قومی تناظر میں بھی کم ہی سوچتی ہے۔ اس نسل کے لیے اس کا خاندان بلکہ اس کی ذات ہی سب کچھ ہے۔ اس کی نظر میں سیاست ایک ’’گندی چیز‘‘ ہے۔ جس سے ’’اچھے بچوں‘‘ کو دور رہنا چاہیے۔ یہ نسل پاکستان کے سیاسی حالات کو اجنبی کی طرح دیکھتی ہے اور سوچتی ہے کہ ہمارا اس سیاست سے کیا تعلق۔ اس کے لیے امت مسلمہ اور بین الاقوامی مسائل ’’مریخ کے معاملات‘‘ ہیں اور وہ انہیں کبھی اپنی شخصیت کا حصہ بنانے کی خواہش یا کوشش نہیں کرتی۔
ہمارے زمانے کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں وسیع المشربی کا تجربہ عام تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ نظریاتی اختلافات کے باوجود نظریاتی حریفوں میں گہری دوستیاں ہوجاتی تھیں۔ ہمیں جامعہ کراچی سے دو ایسے دوست فراہم ہوئے جن کا تعلق بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں سے تھا۔ ان دوستوں کے ساتھ قربت اتنی بڑھی کہ اتنی قربت تو جمعیت کے دوستوں کے ساتھ بھی نہیں تھی۔ اس دوستی کی دلچسپ بات یہ تھی کہ نظریاتی بحث تقریباً روز ہوتی تھی مگر بحث سے تعلق کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوتا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دوستی کے طویل تعلق میں نہ انہوں نے کبھی ہم سے کہا کہ تم جمعیت چھوڑ دو اور نہ ہم نے کبھی ان سے کہا کہ تم اپنا کیمپ چھوڑ کر ہمارے کیمپ میں شامل ہوجائو۔ اس تعلق کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ہماری وجہ سے ان کے دل میں جمعیت کی تکریم پیدا ہوئی اور ان کی وجہ سے ہم نے بائیں بازو کے نظریات کا احترام کرنا سیکھا۔ لیکن اب ہمارے معاشرے باالخصوص اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اس طرح کے تعلقات کا صرف خواب دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کی دو بنیادی وجود ہیں۔ ایک یہ کہ اب یا تو نظریات موجود ہی نہیں اور موجود ہیں تو ان میں ایک طرح کے تعصب کا رنگ پیدا ہوگیا ہے اس کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اب انسانی تعلق کی طلب انتہائی کم ہوگئی ہے اور تعلق کی جگہ تعلقات نے لے لی ہے۔

No comments:

Post a Comment