Sunday, May 8, 2016

کراچی آپریشن ناکامی کی طرف گامزن

آج سے تقریباً تین سال قبل تمام سیاسی جماعتوں کی رضا مندی سے وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف نے کراچی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو مدنظررکھتے ہوئے شہر میں ٹارگٹڈ آپریشن کی منظوری دی تھی۔ حکومت سے لے کر عسکری قیادت تک سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپریشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا،کسی سیاسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیا جائے گا۔ کراچی میں کالعدم تنظیموں، سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز اور گینگ وار گروہوں کے گرد شکنجہ تنگ ہونے لگا۔ ہزاروں کی تعداد میں جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار کیا گیا اور متعدد دہشت گرد قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مقابلے میں مارے گئے۔ آپریشن کے اہداف میں دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے سیاسی سہولت کاروں اور معاونین کی گرفتاری بھی شامل تھی تاہم افسوس ناک بات یہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہملک کےمعاشیحب میں جاری آپریشن سیاسی مصلحتوں کا شکار ہورہا ہے۔ پے در پے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جن سے آپریشن پر کئی سوالیہ نشانات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ لیاری گینگ وار کے سرغنہ سردار عزیر جان بلوچ کی گرفتاری کے بعد تفتیش کے لیے جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔ اس تفتیشی ٹیم کا سربراہ پولیس کے ایک ایس ایس پی کو بنایا گیا۔ تاہم عزیر بلوچ سے جے آئی ٹی کی جانب سے کی گئی تفتیش متنازع ہوچکی ہے اور اس حوالے سے کئی شکوک و شبہات پیدا ہوچکے ہیں۔ اب تک جے آئی ٹی کے جو حصے میڈیا کے سامنے آئے ہیں ان میں عزیر بلوچ کے سیاسی سرپرستوں کا ذکر نہیں ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ گینگ وار سرغنہ کی مکمل جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر لائی ہی نہیں گئی ہے۔ سندھ حکومت کے ایما پر جے آئی ٹی کی سربراہی کرنے والے پولیس افسر نے جے آئی ٹی کے ان حصوں پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا جس میں ایک اہم سیاسی شخصیت اور ان کی ہمشیرہ کا نام سامنے آیا تھا۔ اس تنازع نے جب طول پکڑا تو ایک وفاقی وزیر کی ہدایت پر جے آئی ٹی سے اس اہم شخصیت کا نام حذف کردیا گیا جس کے بعد کمیٹی کے سربراہ نے اس جے آئی ٹی رپورٹ پر دستخط کردیے۔ عزیر بلوچ ایسے جرائم پیشہ شخص جس نے 200 سے زائد افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا اعتراف کیا ہے، اس کی جے آئی ٹی کو سیاسی مصلحتوں کے بھینٹ چڑھادینا کسی طور پر بھی کراچی آپریشن کے لیے مفید نہیںہے۔ مذکورہ عمل سے آپریشن کو بغیر کسی سیاسی مصلحت کے جاری رکھنے اور منطقی انجام تک پہنچانے کے دعووں کو بھی زک پہنچی ہے۔ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ عزیر بلوچ نے دوران تفتیش جن افراد کے نام بطور سرپرست کے تفتیشی حکام کو بتائے تھے ،ان سب کو بلاامتیاز قانون کے کٹہرے میں لایا جاتا لیکن سیاسی مجبوریوںنے ایسا نہیں ہونے دیا۔ کراچی


آپریشن کے حوالے سے یہ تاثر گہرا ہوتا جارہا ہے کہ اس کی زد میں صرف کمزور آرہے ہیں جبکہ طاقتوروں پر ہاتھ ڈالنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ اپنے مہروں کے ذریعے جن لوگوں نے شہر کو کئی دہائیوں سے آگ میں جھونکا ہوا ہے ان کے خلاف کارروائی نہیں ہورہی ہے ،صرف نچلی سطح کے کارندوں کی گرفتاری سے آپریشن کے اہداف کا حصول نا ممکن ہے۔ ادھر ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کے کوآرڈی نیٹر آفتاب احمد کی رینجرز کی حراست میں ہلاکت نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ آفتاب احمد کو رینجرز نے گرفتار کرکے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے 90روزہ ریمانڈ حاصل کیا تھا۔ تاہم وہ رینجرز کی حراست میں ہلاک ہوگیا۔ ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ آفتاب احمد پر بہیمانہ تشدد کیا گیا جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی ہے۔ آرمی چیف نے ڈاکٹر فاروق ستار کے کوآرڈی نیٹر کی ہلاکت کا نوٹس لیا ہے اور واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ ڈی جی رینجرز نے تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی ہے جو سیکٹر کمانڈر کی سربراہی میں حقائق سامنے لائے گی جبکہ واقعہ میں ممکنہ طور پر ملوث اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے۔ آپریشن کے اس مرحلے میں اس قسم کے واقعات عسکریت پسندی میں ملوث ایک سیاسی جماعت کو نئی زندگی دے سکتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنی کارروائیوں کے دوران انسانی حقوق کے ضابطوں کی مکمل پاسداری کریں۔ کراچی آپریشن کی شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے مذکورہ واقعہ کی شفاف تحقیقات انتہائی ضروری ہیں اور اگر واقعہ میں رینجرز اہلکار قصور وار پائے جاتے ہیں تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرکے کراچی آپریشن کی ساکھ کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ تین سال سے جاری کراچی آپریشن اب اپنے حتمی مراحل میں ہے۔ بلاشبہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کے درخت پر لگنے والے کانٹوں کا تو صفایا کردیا ہے لیکن وہ اب تک اس کی جڑوں کے خاتمے میں ناکام رہے ہیں۔ بنیاد کو ختم کیے بغیر کراچی کو دہشت گردی سے پاک کرنا ایک خواب کی مانند ہے۔ گرفتار ملزمان نے دوران تفتیش جن سیاسی رہنماو ¿ں کے نام لیے تھے، ان کے خلاف کارروائی تو درکنار ان سے پوچھ گچھ کا عمل بھی شروع نہیں ہوسکا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بغیر کسی سیاسی مصلحت کے دہشت گردوں ،گینگ وار گروہوں اور ٹارگٹ کلرز کی سرپرستی کرنے والی اہم شخصیات کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور اس تاثر کو ختم کیا جائے کہ وطن عزیز میں قانون صرف کمزور لوگوں کے لیے ہے۔
محمد علی فاروق

No comments:

Post a Comment