Wednesday, August 31, 2016

بھارت کی آبی دہشت گردی

حکومت پاکستان نے انڈس واٹر ٹریٹی کی خلا ف ورزی کر نے پر بھارت کے خلاف عالمی بینک سے رجوع کر نے کا فیصلہ کیا ہے اور عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارت سے پانی کا تنا زع طے کر انے کے لئے ثالثی کورٹ قائم کریں۔پاکستان کا انڈس واٹر ٹریٹی کی خلا ف ورزی کر نے پر بھارت کے خلا ف عالمی بینک سے رجوع کا فیصلہ خو ش آئند ہے کیونکہ بھارت عرصہ دراز سے آبی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے جیسے دریائے چنا ب پر کشن کنگا ڈیم تعمیر کر کے 330 میگا واٹ اور زیر تعمیر رئیل ہائیڈروالیکٹرک پراجیکٹ سے 850 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بند ی کی جا رہی ہے جس سے پاکستان دریائے چناب کے پانی سے یکسر محروم ہو گیا ہے اور اسے آبپاشی کے لئے پانی کی عدم دستیا بی پر پریشانی کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ یادر ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین پانی کا تنا زعہ طے کر نے کے لئے 14 ،15 جولائی کو نیو دہلی میں ایک میٹنگ منعقد ہو چکی ہے مگر دونوں ممالک میں سے کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہوا اور اب جبکہ پاکستا ن نے ثالثی کورٹ کے لئے نام عالمی بینک اور بھارت کو بھجوادیئے ہیں جس کا مقصد اس آبی تنا زعہ کو حل کر نا ہے۔ ثالثی عدالت 7 ججوں پر مشتمل ہو گی جن میں 2 ججو ں کا انتخا ب پاکستان اور 2 جج بھارت کے منتخب کر دہ ہو نگے جبکہ 3 جج غیر جانبدار انہ ایمپا ئر کا کردار ادا کر یں گے۔ یہ عدالت چند ماہ میں اس تنازعہ کو نمٹا ئے گی۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کی جانب سے پانی کے استعمال کے حوالے سے جو نکا ت اٹھائے گئے ہیں ان میں بھارت کو اپنا دفاع کر نا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن نظر آرہا ہے۔ اسی لئے وہ حیلے بہانوں سے وقت گزارن کے اصولوں پر عمل پیر نظر آتا ہے۔ پاک بھارت تنا زعا ت کی طویل فہر ست میں آبی تنا زعے کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک بھارت نے ہمارے دریاﺅں پر غاضبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور پاکستان کے دریاﺅں کا پانی اپنی طرف کھینچنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے بھارت پاکستان کو بنجر بنانے کی حکمت عملی پر طویل عرصہ سے عمل پیرا ہے تاکہ پاکستان کی مشکلات مزید سے مزید تر ہوجائیں جبکہ ہمارے حکمرانوں کو بھی قومی مفاد سے غالباََ کچھ لینا دینا نہیںہے اسی لیے تو بگلیہار سمیت بھارت کی جانب سے 60چھوٹے آبی ذخائر کی تعمیر کے مسئلے کو اٹھانا ضروری نہیں سمجھا گیا اور پھر جب ڈیمز تعمیر ہوگئے تو پھر ہمارے ارباب اختیار کو ہوش آیا لیکن اس وقت تک بھارت اپنا کام دکھا چکا تھا ۔اب جبکہ یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ پاکستان کو آنے والے برسوں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا انتہائی تکلیف کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار آج بھی اس مسئلے سے آنکھیں چرانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ایسے میں عوام اپنے حکمرانوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ بھارت تو اپنے فائدے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر حد تک جانے کیلئے تیار ہے تو پھر پاکستان اپنے بچاﺅ اور مفاد کے لئے کتنی کوششیں کررہا ہے تو اس کا جواب نفی میں آتا ہے کیونکہ ماضی کی حکومتوں نے پچھلی 6دہائیوں میں کبھی بھی ڈیمز کی تعمیر پر توجہ دینے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی اسی لئے تو ہر برس بڑی مقدار میں بارشوں کا پانی سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے ایک کالا باغ ڈیم کا منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ خدا خدا کر کے کیا گیا تھا مگر اسے ہمارے سیاستدانوں نے اس قدر سیاسی بنادیا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں اسے ناقابل عمل قرار دے کر ہمیشہ کے لئے دفن کردیا اب پچھلے دنوں قومی اسمبلی کو آگاہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کالا باغ ڈیم کو قدرت کا تحفہ قرار دیتے ہیں تاہم جہاں تک پاکستان کا انڈس واٹر ٹر یٹی کے بارے عالمی بینک سے رجو ع کرنے کا فیصلہ ہے تو اس سے امید کی جانی چاہیے کہ پاکستان بہترین ثبوتوں اور دلائل کے ساتھ بھارت کے دانت کھٹے کردے گا ضروری ہے کہ اس کیس کو پوری جاں فشانی کے ساتھ لڑا جائے اور پاکستان آبی تنازعہ کے حوالے سے بھارت کے مذموم عزائم کے بارے میں عالمی دنیا کو بھی آگاہ کرے اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار پانی کی قلت کے معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں کیونکہ اگر اب بھی ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی کا سہارا لیکر کام چلانے کی مشق جاری رکھی گئی تو چالاک بنیا عالمی عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پاکستان کو نقصان پہنچا سکتا ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بھارت کے پاکستان کو بنجر بنانے کی سازش کا توڑ کرے کیونکہ راوی اور ستلج تو پہلے ہی پاکستان کے چار دریاﺅں میں سے خشک ہوگئے ہیں اگر اب بھی حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے حکومت نے چھوٹے بڑے آبی ذخائر تعمیر نہیں کئے تو حالات کی سنگینی المیے کو جنم دے سکتی ہے اس سے پہلے کہ نوبت یہاں تک پہنچے ملک کے تما اسٹیک ہولڈرز کو اپنے اپنے ذمے کے کام بطریق احسن نبھا نا ہونگے یہی وقت کا تقاضا ہے ۔

تحریر : نعمان بد ر فا روقی 


No comments:

Post a Comment