شہر میں پاکستانی پرچموں کی بہار دیکھ کر یقین ہوا کہ یوم آزادی 14 اگست ہے بظاہر تو یہ بے پناہ خوشی کا دن ہے کیونکہ ہم نے آج ہی کے دن غلامی سے نجات حاصل کی تھی۔ قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت نے ہمیں مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سانس لینے کا حسین ترین موقع فراہم کیا۔ بجائے اس کے کہ ہم جشن آزادی میں شریک ہوتے۔ مزد و زن، بچوں کے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم اور قومی ترانہ پاک سرزمین شادباد کی گونج سے چہک اٹھتے، دل امنگ و ترنگ سے سرشار ہوتا دل زخمی و گھائل ہوتا جارہا تھا۔ چند سال پیچھے جھانک کر دیکھا تو وجود کا دیا بجھ سا گیا۔ ہم و اندواہ کے بادلوں میں خود کو گھرا ہوا پایا۔ ناگہانی افتاد، سانحات، حادثات، ڈینگی و کانگو وائرس کی وبا، پشاور میں اسکول کے معصوم بچوں سے خون کی ہولی، تھر میں بیماری اموات، بھوک و افلاس، فاقہ مستی خودکشی غربت و کسمپرسی کے میدان میں سسک سسک کر دم توڑتی زندگی کی آنکھ مچولی اور قوم کو سود و حرام جیسی لعنت میںغرق دیکھ کر ہوش و حواس کھو بیٹھا کیا ملک کے بدترین حالات کے پیش نظر ہوش میں رہنا ممکن ہے جشن یوم آزادی میرے نزدیک یہ ناپسندیدہ روایت ہے۔ جھوٹ، بے ایمانی اور ہیرا پھیری کے وسیع میدان میں رونق افروز رہنما و سیاستداں گرگٹ کی طرح رنگ بدل بدل کر ہیولا کی طرح دھمال ڈال رہے ہیں۔ صدارت و وزارت عظمی کی کرسیوں کو للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں انہیں یہ تک توفیق نہیں کہ لاچار، مجبور و بے بس غریبوں کا دکھ درد.... اپی بانہوں میں سمیٹیں۔ حصول کردہ قومی اسمبلی سے بھاری تنخواہ اور مراعات سے فیضاب ہونے والے اگر آدمی تنخواہ بیواﺅں اور یتیموں میں تقسیم کردیں تو دین و دنیا میں سرخرو ہوں گے لیکن وہ دکھ درد کیا سمیٹیں گے یورو و ڈال سمیٹنے میں لگے پڑے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ کے بینکوں کا منہ بھرنے لندن اور دیگر ممالک میں کروڑوں کی جائیدادیں بیوی بچوں کے نام وقف کررہےہیں۔ یہ ہے ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ یوم آزادی ایک نعمت کے طور پر قدرت نے عطا کیا اور ہم آج اس نعمت خداوندی کو ملک کی پیشانی پر بددیانتی و کرپشن کا جھومر سجاکر عیشی کے جھولے میں جھول رہے ہیں۔نہ جانے کیوں حالات، واقعات دہشتگردی اور دل کو یزہ ریزہ کردینے والے بم دھماکوں نے قوم کو گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں بے گناہوں کی اماوت کے سبب بے شمار گھروں میں بیوائیں، یتیم بچے آہ و بکا کے عالم میںکفیل کے بغیر فاقہ کشی سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے وہ بھی دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔ پاکستان امن و آشتی و سکون قلب کے لیے وجود میں لایا گیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے حصول پاکستان کے لیے 20لاکھ بندگان خدا کا خون بہایا گیا تھا آج دل خون کے آنسو رو رہا ہے دکھی دل اور پرنم آنکھوں سے بہتے ہوئے خون کے قطروں کو اپنی ہتھیلی پہ یکجا کر کے لبریز آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ کرپشن ناعاقبت اندیشی، چوری، ڈاکا و سیاہ کاری سے پاکستان کا چہرہ مسخ ہوکر رہ گیا ہے سوچ رہا ہوں یہ وہ پاکستان تو نہ رہا جسے آباﺅ اجداد نے اپنے خون سے سینچا تھا پھر یہ ون کے قطرے کیوں سرکشی پہ آمادہ ہیں؟ میں شکست دل مایوسی اور افسردگی کے عمیق کھائی میں پڑا سسک رہا ہوں بالآخر تفکرات کے کھائی سے باہر نکل پڑا اور حال کے کاندھے پر سر رکھ کر سکون کی تلاش میں آج بھی بھٹک رہا ہوں بھٹکتے ہوئے 70 سال کا عرصہ گزرنے کو ہے لیکن منزل کا دور دور تک پتہ نہیں۔ رسم آزادی کا طوق گلے میں لٹکائے.... راہوں میں لڑکھڑاتا یادوں سے ٹکراتا ہوا ایک بک اسٹال پہ میرے قدم رک گئے جہاں اخبارات اور رسائل اور کتابوں پر میری نظر جم گئی تاریخ کھنگالنے، قصے کہانیوں کی دلچسپی نے مجھے شہنشاہ و ہندوستان اکبر، ملا دو پیازہ، بیربل، شہزادہ سلیم، راجہ مان سنگھ اور انار کلی جیسے کرداروں کے حوالے سے ایک کتاب ہاتھ آگئی، خرید لی، زخم خوردہ دل سے چہرل قدمی کرتا ہوا مزار قائد پہنچ گیا۔ جہاد مرد و زن تفریح کے غرض سے ادھر ادھر پھر رہے ہیں۔ بچوں اور بڑوں کے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم مزار قائد کی پر شکوہ بلند و بالا شاہکار عمارت کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتا رہا۔ ہری بھری گھاس پھول کے پودوں کے قریب خالی بینچ پر بیٹھ کر ورق گدانی کرنے لگا۔ کتاب کے مطالعے میں کچھ زیادہ ہی کھو گیا، پھر کیا ہوا؟ ذہن تھک گیا اور اعصاب ڈھیلے پڑے گئے۔ کتاب اپنی چھاتی پہ رکھ کر گھاس پر لیٹ گیا۔ نیند نے آدبوچا، چند لمحے بعد خوابوں کی دنیا میں سیر کرتا ہوا اپنے آپ کو شیش محل میں انار کلی کو رقص کرتے دیکھ رہا تھا شاہی لباس میں تخت پہ براجمان ہوں۔ درباری قطار میں ہاتھ باندھے کھڑے ہیں حسین دوشیزہ کا رقص ختم ہوتے ہی تخت شاہی سے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی گردن سے قیمتی ہار اتار کر انار کلی کی طرف اچھال دیا اپنی پشت پہ ہاتھ رکھے شاہی انداز میں دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا ہوا شیش م حل سے باہر زمین دوز تہہ خانے کے اندر داخل ہوگیا۔ پروقار خوبصورت ہال وسط میں چھت سے لٹکتا ہوا دیدہ زیب فانوس اس کے عین نیچے انتہائی خوبصورت پختہ سفید ماربل والی قبر دیکھ کر تجسس ہوا تختی پہ نظر پڑی۔ کاش! قائد اعظم سے ہم کلام ہوسکتا.... اچانک تہہ خانے میں سرسراتی ہوئی یخ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا، ہو کا عالم، پراسراریت، سنسنی خیز لمحات، دیوار پہ قائداعظم کی شبیہہ ابھری ہلتے ہوئے ہوٹ، جھپکتی ہوئی پلکیں، سایہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا چاروں طرف سناٹا۔ چند لمحے کے لیے خوف طاری رہا چہرہ پہ پسینہ کی بوندیں حواس درست کرتے ہوئے سوال کیا؟
اکبر : میرے لیے انتہائی قابل احترام قائد اعظم محمد علی جناح!.... ایک شہنشاہ کا سلام قبول کیجئے۔
قائد اعظم: وعلیکم السلام!
اکبر : دیدہ زیب شاندار عمارت دیکھ کر ذوق ملاقات بھڑک اٹھا۔ آپ سے چند سوالات کرنا چاہتا ہوں۔
قائد : بصد شوق!
اکبر : بانی پاکستان ہیں آپ؟
قائد : بدقسمتی سے۔
اکبر : کیا آپ سکون کی نیند سورہے ہیں؟
قائد : نہیں گزشتہ 70 سال سے بے سکونی کی کیفیت میں کروٹیں بدل رہا ہوں۔
اکبر : کیوں؟
قائد : بائیں کروٹ مڑتا ہوں تو مرد و زن کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں چند لمحے بعد ناقابل دید منظر، نفرت کے تیر و حقارت کے نشترنے میرے جگر کو چھلنی کردیا دائیں کروٹ مڑتے ہی اخلاقیات کاجنازہ نکلتے دیکھا تو رہا سہا سکون بھی غارت ہوگیا۔
اکبر : مجھے آپ کی کیفیت کا اندازہ ہے۔
قائد: ملک اور قوم کی حالت دیکھ کر تڑپ رہا ہوں۔ جسم میں جھرجھری سی ہورہی ہے۔
اکبر : کیا اسی دن کے لیے پاکستان بنایا تھا؟
قائد : ہاں مسلمانوں کے لیے آزادی اسلامی مملکت پاکستان۔
اکبر : جب ملک کا نام تجویز کیا جارہا تھا۔ غالباً لفظ پاک کو بڑی اہمیت دی گئی ہوگ۔
قائد : ہنڈریڈ پرسنٹ کریکیٹ۔
اکبر : آپ نے محسوس کیا جسے پاک سرزمین کہتے ہیں برسوں سے گند میں لپٹی ہوئی ہے۔ بساند و سڑاند کا احساس ہورہا ہے ملک کے ہر شعبہ زندگی سے رشوت، بددیانتی اور ہیرا پھیری کی بو آرہی ہے۔
قائد: (سر کو ہلکی جنبش دیتے ہوئے) ایسا کیوں؟
اکبر : عاقبت ناندیش، عیار و مکار سیاستدانوں اور نااہل حکمرانوں نے اسے کھوکھلا کردیا۔
قائد : درست فرمایا آپ نے.... یاد آیا شہنشاہ اکبر اعظم.... مجھے یاد آیا.... 16 دسمبر کی وہ اندھیری رات اللہ جل شانہ کی یاد میں غرق اچانک دو گز زمین کے ٹکڑے میں بھونچال آگیا۔ انجانے سے خوف نے مجھے جھنجھوڑا، خوف سے اٹھ بیٹھا، حالات کا جائزہ لیا۔ میرے گردگرد ہزاروں ایکڑ رقبہ زمین پر تیرتا ہوا ان شہیدوں کا خون نظر آیا، جھکڑ، گرج چمک، طوفانی ہوا، ہچکولے کھاتی ہوئی، لحد میں سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ عورتوں معصوم بچوں کی آہ و بکا، ان کی چیخیں میرے کانوں سے ٹکراتی ہوئی دل میں اترتی جارہی تھیں۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا کہ یہ پاکستان بنانے والوں کا خوب ہے یا پاکستان گنوانے والوں کا؟
اکبر : میں آپ کے جذبات کو سلام کرتا ہوں۔ میرے آباو اجداد نے بھی مغل حکومت کی بنیاد رکھی، انہیں بھی بدترین حالات کا مقابلہ کرنا پڑا۔ آپ کی کاوش، جہد مسلسل، بے پناہ عرق ریزی، لاکھوں شہیدوںکی قربانی آزادی پاکستان کی نذر کردیا۔ مجھے اندازہ ہے کہ اس منزل تک پہنچنے کے لیے لوہے کے چنے چبانے پڑے ہوں گے۔
قائد : میں نے قوم کو ایمان، تنظیم، اتحاد کا درس دیا تھا۔
اکبر : افسوس میرے عزیز قابل احترام قائد اعظم.... آج قوم کو صبر، ضبط اور تحمل کے چنے چبانے پڑ رہے ہیں۔
قائد : یقین کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ قوم نے دین و ایمان کے دامن کو جھٹک دیا ہے خود کو عیاشی، بے راہ روی اور کرپشن کے زہر میں درگور کرلیا ہے۔ شہنشاہ! مجھے حیرت ہورہی ہے ملک کو اس حال تک کس نے پہنچایا؟
اکبر : بداعمالیوں نے آپ حیران ہوں گے ملک سنگین صورتحال سے دوچار ہے بھوک اور فاقہ کی وادی میں مہنگائی کا شیش ناگ پھن پھیلائے آنکھیں دیکھا رہا ہے۔ غربت کے تسلے میں آٹا گوندھنے والے مجبوری و بے بسی کی آنچ پہ روٹی سینک کر کسمپرسی کے دانتوں تلے چبارہے ہیں۔
قائد : (ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے) خاموش ہوجایئے شہنشاہ خاموش ہوجایئے۔
اکبر : جشن منایئے میرے قائد!
قائد : وہ کیوں؟
اکبر : الحمدللہ! آج یوم آزادی پاکستان ہے۔
قائد : شہنشاہ! آپ نے جو ملک کا جو نقشہ کھینچا ہے ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔
اکبر : دل برداشتہ نہ ہوں۔ دعا کریں۔ آسمان سے فرشتہ کا نزول ہو، کرپشن اور رشوت خوروں کو ناک میں ناک میں نکیل ڈالے؟
قائد : یقینا ایسا ہی ہوگا۔
اکبر : تو پھر خوش ہوجایئے۔ ابنشاط کے جھولے میں جھولئے۔ ایٹمی طاقت کے زعم میں ملک پاکستان دنیا میں اعلیٰ مقام پہ کھڑا ہےا ور بڑی طاقتوں کی ٹانگیں لرز رہی ہیں۔
قائد: ایکسیلنٹ! تری کا اچھوتا معیار.... اللہ آپ کو خوش رکھے۔ ملک پاکستان تاقیامت سلام رکھے۔


No comments:
Post a Comment