Monday, January 16, 2017

پولیس مقابلے اور اصلاحات

موجودہ پولیس نظام انگریز وں نے ہندوستانیوں کو قابو کرنے کے لیے بنایا تھا یہ پولیس نظام بہت با اختیار تھا۔ ایس ایچ او ،ڈی ایس پی اور ایس ایس پی کا حکم ہی حرفِ آخر ہوتالیکن اس با اختیار شعبے کو قابو میں رکھنے کے لیے حتیاطی تدابیر بھی اختیار کی گئیں تا کہ کوئی حکم عدولی کی جرات نہ کرسکے جس کے لیے ڈپٹی کمشنر کے ماتحت ایک مہتمم دفتر کی آسامی رکھی گئی جو پولیس کو قابو کرنے کا زریعہ ہوتا ۔جس کا کام پولیس کارکردگی کو بہتر بنانے کی پالیسیاں مرتب کرنا ہوتا ۔کون سا پولیس آفیسر تاجِ برطانیہ کا وفا دار ہے اِس کا فیصلہ مہتمم کرتا اور ترقی کی ڈپٹی کمشنر کوسفارش کر تایہی نہیں تھانہ انچارج کی تعیناتی کی سفارش یا خراب کارکردگی پرتنزلی کا فیصلہ بھی مہتمم کرتے ہوئے رپورٹ ڈی سی کے گوش گزار کرتا جس پر ڈی سی کے دستخط ہونے سے تعیناتی یا تنزلی ہوتی۔ یوں تاجِ برطانیہ کا وفادار نظام بخیروخوبی چلتا رہا لوگ یا تو غلامانہ زندگی بسر کرنے پر اکتفا کرتے وگرنہ دُرگت بنانے کے لیے پولیس آموجود ہوتی ۔
پاکستان بننے کے بعد بھی کافی عرصہ اسی نظام سے استفادہ کیا گیاکبھی کوئی تبدیلی کی ضرورت محسوس بھی ہوئی تو وجہ عوام کو مزید اطاعت گزار بنانے کی سوچ تھی سیاسی لوگ مرضی کا ایس ایچ او لگوا نے اور پھر ڈی ایس پی یا ایس پی سے راہ و رسم بڑھانے کی کوشش کرتے اعلٰی حکام سے مرضی کی تعیناتیاں کرانے کی سفارشیں کرائی جاتیں ۔تحفے تحائف کے تبادلے ہوتے۔جو جتنا پولیس والوں سے قریب ہوتا اُس کی اُتنی ہی سیاست کامیاب ہوتی ۔الیکشن میں کامیابی کے علاوہ مخالفین کی سرکوبی میں پولیس کی اعانت حد درجہ کارگر ثابت ہوتی ایوب خاں دور سے لیکر یہ سلسلہ جاری ہے ۔
پولیس کو لاکھ خرابیوں کا زمہ دار ٹھہرائیں مگر سچ یہ ہے اِسے عوامی نفرت کی علامت بنانے میں مروجہ سیاست کا اہم کردار ہے اگر اِس شعبے میں سیاسی مداخلت نہ ہو تو بہتری کے اب بھی آثار ہیں ہمارا نظامِ عدل تو بے گناہ قرار دینے میں اتنی تاخیر کر دیتا ہے کہ بندہ یا تو زندگی کی ڈور چھوڑ چکا ہوتا ہے یا پھانسی کا پھندہ گلے میں ڈال کر دنیا کے دکھوں سے آزادی حاصل کر لیتا ہے پھر بھی عدلیہ نے کئی ایسے فیصلے کیے ہیں جن کی بنا پر عوام میں اچھی ساکھ رکھتی ہے لوگ اعتبار کرتے ہیں انصاف کی امیدرکھتے ہیں مگر انصاف کی بروقت فراہمی کے لیے پولیس کا قبلہ درست کرنا لازم ہے جس نے شواہد عدالت کے سامنے رکھنے ہوتے ہیں جنھیں مدِنظر رکھ کر عدالتیں فیصلہ کرتی ہیں اگر شواہد ہی ٹھیک نہ ہونگے تو انصاف کی امید خاک ہوگی۔
پرویز مشرف دور میں پولیس نظام میں بہتری لانے کی اچھی کاوشیں ہوئیں اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم کے لیے بلدیاتی قیادت کو محاسبہ کرنے کا اختیار بھی دیا گیا جس سے بہتری کے آثار پیدا ہوئے کیونکہ جُرم کی سرزدگی کی رپورٹ کا فوری اندراج ہوتا ایف آئی ار کی مصدقہ نقل کا حصول آسان بنایا گیا مگر اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے مثال کے طور پر تھانہ میں نانویں گریڈ کا محرر ہوتا ہے جس کا کام اندراج مقدمہ ہوتا ہے مگر اوقاتِ کا رکا تعین نہیں۔ جس پر کام کا اِس قدر بوجھ ہوتا ہے کہ کھانے کا وقت بھی بمشکل نکال پاتا ہے اُسے گھر کاکھانا بمشکل نصیب ہوتا ہے وگرنہ شب و روز تھانہ کی نظر ہوجاتے ہیں جب کوئی کھانے کا وقت ہونے کی بابت بات کرتا ہے تو تھانہ کے قریب جو بھی دال روٹی میسر ہوتی ہے منگوا کر ایک ہی پیالے نما برتن میں سب شکم سیری کرتے ہیں ساتھ ٹیلی فون بھی سُنتے جاتے ہیں اور کام بھی ہوتا رہتا ہے لیکن جب بھی اصلاحات ہوتی ہیں محرر نظر انداز ہی رہتے ہیں ۔اب ڈیسک انچارج لائے گئے ہیں جو درخواستیں کمپیوٹر کرتے ہیں اور پاسپورٹ و شناختی کارڈ گمشدگی رپورٹ کا آن لائن اجرا کا آغاز ہوا ہے کیا اتنا کافی ہے ہر گز نہیں ۔ بہتری لانے کے لیے مزید کام ہو سکتاہے۔
چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن میں پولیس کے کئی جوان لقمہءاجمل بن گئے جس کی بڑی وجہ فرسودہ ہتھیار تھے مگر جو احکامات کی نظر ہوگئے اُن کا زمہ دار کون ہے کیا کسی کو پتہ نہیں تھا کہ جس سے معرکہ درپیش ہے اُس کے پاس جدید ہتھیار ہیں؟اگر معلوم تھا تو مناسب بندوبست کیوں نہ کیا گیا؟ظاہر ہے وسائل کی کمی۔ملک بھر میں کو ئی واردات ہو یا دہشت گردی کا واقعہ۔ پولیس سب سے آگے ہوتی ہے اکثر جوان پولیس مقابلوں کی بھینٹ چڑھتے رہتے ہیں پھر بھی پولیس نفرت کی علامت کیوں ہے؟ صاف وجہ سیاسی مداخلت۔جس نے پولیس کو چڑ چڑا بنا دیا ہے حاکمانِ وقت کی ایما پر عام آدمی کی پٹائی نفرت میں اضافے کا باعث بنتی جا رہی ہے اگر میرٹ کو ترجیح دی جائے تو پولیس کی عوام دوست ہوسکتی ہے عام آدمی کا اُسے تعاون حاصل ہو سکتا ہے اب تو لوگ گواہی دینے سے بھی ڈرتے ہیں مبادا کسی اور کیس میں دھر لیے جائیں ۔
جرائم پیشہ لوگ جدید ہتھیاروں سے مسلح ہوتے ہیں اسی لیے پولیس پر اکثر حاوی ہو جاتے ہیں حالانکہ وہ بھی اسی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں کسی اور سیارے کی مخلوق نہیں ہوتے اگر پولیس کو بھی مناسب وسائل دیے جائیں تو اچھے نتائج مل سکتے ہیںاور وہ مجرموں کے لیے خوف کی علامت بن سکتی ہے۔ لوگ خود کو محفوظ کریں گے تو پو لیس کی ساکھ بھی بہتر ہوگی ۔چندروز پیشتر بنیادی مرکزِ صحت بھیلووال میں ڈکیتی کی روح فرسا واردات ہوئی جس میں لوٹ مار کے ساتھ تین لیڈی ہیلتھ ورکرز سے اجتماعی زیادتی کی گئی ۔واقعہ کی جس نے بھی خبر سنی غم و غصے سے بھر گیا پولیس نے محنت سے ڈکیت پکڑ لیے اور تفتیش شروع کی تو معلوم ہو ا یہ اکیلے نہیں باقاعدہ گینگ ہے جنھوں نے گجرات میں دریائے چناب کے قریب موضع کوٹ غلام میںباقاعدہ اڈا بنا رکھا ہے پولیس نے اڈے کا محاصرہ کیا تو گرفتار ڈکیتوں کے ساتھیوں نے دیدہ دلیری سے فائرنگ کرکے ساتھیوں کو پولیس سے چھڑانے کی کوشش کی مگر پولیس کے پاس اچھے ہتھیار ہونے سے ڈاکوﺅﺅں کو کامیابی نہ ملی مالِ مسروقہ برآمد کرنے کے لیے لے جائے گے ڈاکو فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہوگے یہ مجرموں کی نفسیات ہے کہ پولیس کو دباﺅ میں رکھو اگر ممکن نہیں تو کوئی ثبوت نہ رہنے دو۔
یہ سوچ سوچ کر دل ہول اُٹھتا ہے کہ دہشت کی علامت گرفتار ڈاکو اگر چُھڑا لیے جاتے تو شرفاءکا یقینناََ جینا حرام کر دیتے۔ لوگ بہو بیٹیوں کو ملازمت پر بھیجنے سے گریز کرتے تو لوگ علاج معالجے سے محروم رہتے۔ نرسیں اور ہیلتھ ورکرزتو مزہب۔مسلک،زات پات اور امیر و غریب میں تفریق کیے بغیر سب کو بس مریض جان کر مشفقانہ رویے سے پیش آتی ہیں اُن سے جواب میں احترام کی بجائے ظلم و زیادتی روا رکھنے والے کسی طور انسان کہلوانے کے حقدار نہیں ۔لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مارے گے ڈاکوجب کہیں واردات کرتے تو پہلے کھانا پکواتے آرام سے تناول کرنے کے بعد تلاشی لے کر مال متاع اکٹھا کرتے اور خواتیں کو جنسی ہوس کانشانہ بنا کر چلتے بنتے ۔لوگ خوف اور رسوائی کے ڈر سے پولیس کے پاس بھی نہ جاتے۔
سہیل ظفر چٹھہ کے ڈی پی او بن کر آنے سے یہ تبدیلی آئی ہے کہ لوگوں کاپولیس پراعتمادبحال ہونے لگاہے کیونکہ انصاف ہونے لگا ہے فریادیوں کی داد رسی بھی ۔ انھوں نے اچھے اور ایماندار پولیس آفیسر تھانوں میں لگائے ہیں مگر ایسے غیر جانبدار ۔منصف مزاج اور دلیر آفیسر کو کب تک حاکمانِ وقت برداشت کریں گے؟ جو جی حضوری کی بجائے فرائضِ منصبی کو اولیت دیتے ہیں ؟پولیس کو زاتی اغراض کے لیے استعمال کرنے کی بجائے اصلاحات سے کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دینا ہوگی جو پولیس ناسور ختم کرنے اور شرفاءکو عزت دینے کے اصول پر عمل پیرا ہوتب ہی پولیس کا امیج بہتر ہو گا اور معاشرہ میں امن کا خواب تعبیر پائے گا اگرپولیس کو وسائل کی بجائے محض ٹاسک ہی دیے جاتے رہے تو انتشار فزوں تر ہوتا رہے گااور وطنِ عزیز میں مجرم دندناتے اور شرفا چھپتے رہیں گے۔۔

  تحریر حمید اللہ بھٹی 

No comments:

Post a Comment