حجاب کا فیصلہ اور پنجاب حکومت کی شرمساری ایسالگاکہ
پنجاب کے حکمرانوں کومرکر اللہ کو نہیں بلکہ میڈیا کو جواب دینا ہےتحریر :حاجی انصاربیگ
قادری حکمرانو! میڈیا سے نہیں اللہ سے ڈرو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان خواتین
کے لیے پردے کا واضح حکم دیا ہے ۔ باپ بھائی اور شوہر پراپنی خواتےن کو حجاب میں رکھنے
اور آئنی شق میں ریاست پر یہ ذمہ داری عائدکی گئی ہے کہ وہ اتحاد اور اسلامی اخلاقی
معیار کی پابندی کی فروغ دیں۔ گزشتہ دنوں شام کے وقت جب ٹی وی کھولا تو چینلز کو پنجاب
حکومت اور صوبائی وزیر ہائیر ایجوکیشن سید رضا گیلانی کی دھلائی کرتے پایا۔ یوں محسوس
ہوا جیسے وزیر صاحب نے کوئی انتہائی گھناﺅنا
جرم کر دیا ہو۔ ٹی وی اینکرز تو جیسے لاٹھی لے کر ان کے پیچھے ہی پڑ گئے، جبکہ دوسری
طرف پنجاب حکومت کے وزرا اور ترجمان کی حالت ایسی تھی جیسے کوئی چوری کرتا ہوا پکڑا
جائے۔ بات کھلی تو انتہائی تکلیف دہ معاملہ تھاجو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں طالبات
کے لئے حجاب کو فروغ دینے کےلئے ایک تجویز سے متعلق تھا لیکن اس کو میڈیا نے ایسا رنگ
دیا کہ تجویز دینے والے بھی دنگ رہ گئے۔ حجاب کا نام سن کر ہی میڈیا جیسے بدک گیا ہو
اور ایسی صورتحال پیدا کردی گئی کہ پنجاب حکومت کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ حجاب کے متلعق
کوئی تجویز زیر غور نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔ کسی ایک عورتوں
کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات میں شامل ہے۔ فحاشی و عریانیت کو فروغ دینے والوں سے
تو اس بات کی توقع بھی نہ تھی لیکن پنجاب حکومت یا اس کے کسی وزیر بشمول سید رضا گیلانی
میں بھی اتنی جرات نہ تھی کہ میڈیا کو اس من مانی مہم جوئی سے روکے اور یہ وارننگ
دیں کہ حکومت کسی صورت اسلامی احکامات کے ساتھ مذاق برداشت نہیں کرے گی۔ لیکن پنجاب
حکومت کی حالت دیکھ کر ایسا لگا جیسے وہاں کے حکمرانوں کومرکر اللہ کو نہیں بلکہ میڈیا
کو جواب دینا ہے۔ جو حالت پنجاب کے متعلقہ وزیر کی کی گئی اسے دیکھ کر ایک حدیث مبارکہ
ذہن میں آئی جس کے مفہوم کے مطابق ایک ایسا وقت آئے گا جب اسلام کے احکامات پر عمل
کرنا ایسا ہوگا جیسے کسی نے ہاتھ میں انگارہ پکڑ لیا ہو۔اگلے دن کے اخبارات پڑھ کر
اندازہ ہوا کہ اس معاملہ کی شروعات آصفہ بھٹو زرداری کے تنقیدی ٹویٹ سے ہوئی جس میں
آصفہ نے کہا کہ پنجاب حکومت نے طالبات کے لئے حجاب کا فیصلہ تو کر لیا لیکن لڑکوں کا
کیابنے گا؟ دوسرے مذاہب کی لڑکیاں کیا کریں گی؟ اس ٹویٹ کے پیچھے سب چل پڑے۔ حالانکہ
حقیقت میں نہ فیصلہ ہوا نہ کوئی پالیسی بنی لیکن ٹی وی چینلز میں بیٹھے اینکرز کے دل
و دماغ میں جو آیا بولتے رہے۔ کسی نے کہا کہ حجاب کی پابندی لازم قرار دی جا رہی ہے
تو کسی نے کہا کہ حجاب کرنے والی طالبات کو امتحانات میں اضافی نمبر دئےے جائیں۔ حالانکہ
بات کچھ اور ہی نکلی۔ ٹی وی چینلز نے تو کسی کو سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ دیا کہ
تجویز در اصل ہے کیا کیوں کہ ہر کوئی نئی نئی بات کر رہا تھا۔ اخبارات پڑھ کر پتا چلا
کہ تجویز یہ تھی کہ حجاب کرنے والی طالبات کی اگر 65فیصد سے کم حاضری ہو گی تو انہیں
پانچ فیصد اضافی حاضریوں کی سہولت مہیا کی جائے گی۔ یہ بھی تجویز زیر غور تھی کہ کالجز
میں صبح کی اسمبلی کا آغاز کیا جائے جس کا مقصد طلباءطالبات کی کردار سازی پر خصوصی
توجہ دینا ہے۔ لیکن ٹی وی چینلز نے یہ سب کچھ منظوری سے پہلے ہی رد کر دیا۔ حجاب کے
خلاف اس مہم جوئی میں چن چن کر ایسے افراد سے انٹر ویوز لئے گئے جوہمیشہ سے نظریہ اسلام
کے خلاف رہے ہیں، ممبر سندھ اسمبلی مہتاب اکبر راشدی سے ان کی تاثرات لئے گئے تو جواب
میں انہوں نے پنجاب حکومت کی فروغ حجاب سے متعلق تجویز کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے
ہوئے کہا کہ حجاب کا فروغ ملک کےلئے جگ ہنسائی کا باعث بنے گا۔ کسی نیوز اینکر کو یہ
پوچھنے کی توفیق نہ ہوئی کہ یہ مجوزہ پالیسی تو اسلامی احکامات اور آئین پاکستان کی
روح کے عین مطابق ہے اس لئے اس تجویز کی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مخالفت کیسے کی
جا سکتی ہے۔ پاک فضائیہ سے ریٹائرڈ ایک ”دانشور“ تو اتنے غصے میں تھے کہ کہہ دیا کوئی
پنجاب کی بچیوں پر حجاب زبردستی لاگو نہیں کر سکتا اور ایسا کیا گیا تو لاہور ی بیٹیاں
اپنا ردعمل دے دیں گی۔ یہ سب سن کر میں حیران تھا کہ ہم مسلمان ہو کر کس طرح اسلامی
احکامات کا مذاق اڑارہے ہیں۔ بھئی اگر پنجاب حکومت کی تجویز میں کوئی کمی ہے تو بہتری
لانے کی بات کرو لیکن اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں پردہ کی ایسی مخالفت میری
سمجھ سے بالاتر ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان خواتین کےلئے پردہ کا واضع
حکم دیا اور انہیں دور جاہلیت کے زمانہ کی بے پردگی اور بناو
¿ سنگار کر کے گھر سے باہر نکلنے سے منع گرمایا۔ کسی اینکر کو آئین
پاکستان کی شق نمبر 31بھی یاد نہ آئی جس میں حکومت اور تمام متعلقہ اداروں کو پابند
بنایا گیا ہے کہ وہ ”پاکستان کے مسلمانوں کو، انفرادی اور اجتماعی طور پر، اپنی زندگی
اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لئے
اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کےلئے اقدامات کئے جائیں جن کی مدد سے وہ قرآن پاک
اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں“۔ اسی آئینی شق میں ریاست پر یہ ذمہ داری
عائد کی گئی ہے کہ وہ ”اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دیں“۔
No comments:
Post a Comment