Wednesday, March 15, 2017

معاشرےکی ترقی

نوجوان نے سوال کیا، حضرت: ہمارے ملک کے حالات کی خرابی کی وجہ کیا ہے؟ کوئی ایک ایسی چیز جس کو ہم فراموش کر رہے ہوں.
دانشور بولا؛ بیٹا! میں تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں. اس واقعہ میں تمھارے ایسے ہر سوال کا جواب ہے.
" خلیفہً دوم حضرت عمر (رضی الله تعالی عنه)کا دور ہے. مصر کے حاکم یعنی گورنر کے بیٹے نے ایک شخص کو بلاوجہ کوڑے لگا دیے، وہ شخص مدینہ میں آیا اور خلیفہ کے سامنے پیش ہوا.
تمہیں معلوم ہے خلیفہ کا دربار کیسا تھا؟  مسجد نبوی )صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم( کاکچا صحن ہے اور وہ اسی صحن میں بیٹھے ہوے لوگوں کی شکایات سن رہے ہیںاور فیصلے بھی سنا رہے ہیں .
وہ شخص جو مصر سے آیا تھا اس کی شکایت سنی اور فوراً قاصد کو بھیج کر حاکممصر کو بیٹے سمیت طلب کر لیا. جب وہ لوگ مدینہ پہنچے تو خلیفہ نے بلا لیا اور ان کے سامنے اس شخص کو کہا کہ اپنی شکایات بیان کرے. اس نے من وعن اپنی مشکل بیان کر دی. حضرت عمر (رضی الله تعالی عنه)اٹھے اور ایک درّہ (کوڑا) اس شخص کے ہاتھ میں دیا اور کہا کہ یہ لو اور جتنے کوڑے تمہیں لگاے ہیں تم بھی حاکم (گورنر) کے بیٹے کو لگاؤ. یہ سننا تھاکہحاکممصرکہنے لگے کہ: اے عمر! اس طرح کرو  گے تو لوگوں کے دلوں سے عمال کا رعب اور دبدبہ ختم ہو جائے گا اور وہ ہماری بات نہیں سنیں گے.
پتا ہے خلیفہ نے کیا کیا. انہوں نے بیٹے کو کوڑے لگواے اور اسی شخص کو کہا کہ حاکممصرکو بھی دو کوڑے لگاؤ اور فرمایا:" اے عاص کے بیٹے! تمہیں کس نے اختیار دیا ہے کہ لوگوں کو غلام بناؤ، جبکہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد جنا ہے."
بیٹا! جانتے ہو حاکم مصر کون ہیں ؟
صحابی رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)،عظیم جرنیل، سپہ سالار  اور فاتح مصرحضرت عمر و  بن العاص (رضی الله تعالی عنه).
لیکن خلیفہ کی نظر میں غلطی جو بھی کرے گا اس کی سزا تو مل کر ہی رہے گی. اسی واقعہ میں تمھارے ہر سوال کا جواب ہے.    
نوجوان نے استفہامیہ انداز میں دیکھا تو دانشور بولا" بیٹا یاد رکھو، معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس میں عدل و انصاف نہ ہو. چاہے آپ کے اقتصادی اعشاریے روزانہ اوپر جا رہے ہوں، آپ کی تجارت ملین سے بڑھکر بلین اور ٹریلین میں ہو جائے، آپ کے ملک میں سڑکوں اور پلوں کے جال بچھ جائیں    لیکن اگر معاشرے میں عدل و انصاف نہیں ہو گا تو یہ سب کسی کام کا نہیں ہے".
لوگ جب دیکھتے ہیں کہ اسی معاشرے میں کچھ لوگ جن کے پاس پیسہ ہے، طاقت ہے اور سفارش ہے وہ ہر کام کر سکتے ہیں جو کہ نا صرف معاشرے کی نظر میں انتہائی شرمناک اور غلط ہے بلکہ قانون بھی اس کی اجازت نہیں دیتا ہے.لیکنان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے بلکہ قانون ان کے آگے ہاتھباندھکر کھڑا ہو جاتا ہے . اور آپ کے وزرا اور سیکرٹریز غیر ملکی مجرموں کی ضمانتیں خود لیکر ان کو ملک سے نکال دیں تو اس معاشرے سے آپ دہشت گردی ختم کر سکتے ہیں نا ہی چوری، ڈاکہ زنی اور سٹریٹ کرائمز پر قابو پا سکتے ہیں.
ان سب کو ختم کرنا ہے اور معاشرے کو ترقی کی سیڑھی پر گامزن دیکھنا ہے تو یاد رکھو لوگوں کا اعتماد جیتنا ہو گا اور اعتماد جیتنے کی صرف ایک ہی شرط ہے، اعتماد کا تالا کھولنے کی صرف ایک ہی چابی ہے. وہ چابی تلاش کرنی ہے تو اس وقت کو دیکھو جب وقت کا حکمران بھی عوام کے سامنے کھڑا ہو کر اپنی چادر کا حساب دے رہا ہوتا ہے.
جب آدھی دنیا پر حکمرانی کرنے والا عدالت میں پیش ہو تو عام لوگوں کی طرح اس کے ساتھ بھی ویسا ہی برتاؤ کیا جائے جیسا کہ کوئی عام آدمی عدالت میں پیش ہو رہا ہو  اور اس کے لئے کوئی اسپیشل پروٹوکول، کوئی اسپیشل سیکورٹی اور کوئی اسپیشل عدالت اور جج نا ہو.
قاضئی وقت ایک مسلمان فرمانروا اوررعایا کے غیر مسلم شخص کے درمیان فیصلہ غیر مسلم کے حق میں سناۓ اور فرمانروا کے الفاظ ہوں " الحمدلللہ جب تک ایسے عادل قاضی موجود ہیں معاشرے سے خیر اور بھلائی ختم نہیں ہو سکتی"
دانشور نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوے کہا کہ "بیٹا "لوگ غربت میں بھی جینا سیکھ لیتے ہیں اور بھوک بھی برداشت کر لیتے ہیں لیکن جب لوگوں کو نظر آ رہا ہو کہ ایک پیسے والا شخص لوگوں کو قتل کر کے بھی آزاد گھومتا ہے، حکمرانی اور طاقت کے نشے میں بدمست لوگ جب اور جس کی چاہیں عزت پامال کر دیں، وقت کے حکمران اپنی قوم اور عوام کے مقابلے میں اپنے غیر ملکی آقاؤں کے ملازموں کو بھی فوقیت دینے لگیں تو آپ بھول جاؤ کہ معاشرے میں کبھی امن ہو سکتا ہے، معاشرے سے کبھی دہشت گردی اور جرائم ختم ہو سکتے ہیں.
بیٹا؛ جس دن آپ کے حکمران اور مقتدر طبقہ اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لئے قانونی موشگافیوں کا سہارا لینا چھوڑ دیں گے، جس دن آپ کی عدالتیں بااثر لوگوں کو استثنیٰ دینا ختم کر دیں گی اور جس دن آپ کی پولیس اور قانون طاقت اور پیسے والوں کے سامنے ہاتھ باندھکر کھڑا ہونا چھوڑ دیں گے تو اسی دن تم خود دیکھ لو گے کہ یہ بد امنی، بےسکونی، بم دھماکے اپنا وجود خود کھو دیں گے.      
دانشور نے اپنی بات ختم کرتے ہوے لمبا سانس لیا اور بولا لیکن "بیٹا؛ یہ سب کرنے کے لئے معاشروں کو بہت قربانیاں دینا پڑتی ہیں. ان کو ذاتی اور اجتماعی انقلابات کی بھٹیوں سے گزر نا پڑتا ہے پھر کہیں جا کر یہ منزل حاصل ہوتی ہے. اس چیز کو ہمیشہ ذھن میں رکھنا کہ وقتی اور جذباتی رجحان سے جو تبدیلی آتی ہے وہ ہوتی بھی وقتی ہی ہے، معاشرے کے سدھار کے لئے اگر مستقل تبدیلی چاہیے تو عدل و انصاف کو اپنے معاشرے میں مستقل اور ٹھوس بنیادوں پر رائج کر دو پھر دیکھنا کہ یہ تمہاری  قوم, ملک اور لوگدوسروں کا راستہ نہیں دیکھیں گے بلکہ چراغ بن کر لوگوں کو راستہ دکھانے والے بن جائیں گے. لیکن اس منزل پر پہنچنے کے لئے بہت کٹھن سفر کرنا پڑتا ہے .



No comments:

Post a Comment