آجکل جہاں الیکٹرانک
میڈیامیںپاکستان کو سیکولر ملک ثابت کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے اشتہارات کی
بھرمار نظر آ رہی ہے وہیں پر وزیراعظم صاحب بھی خود کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے
ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں. اشتہارات میں قائد اعظم محمدعلی جناح کی ایک تقریر
کا اقتباس باربار دہرا کر ایک طرف پاکستانی قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی
ہے تو دوسری طرف بانئ پاکستان کے ان سینکڑوں بیانات اور تقریروں کو یکسر نظر انداز
کیا جا رہا ہے، جن میں بار بار پاکستان کو ایک سکولر نہیں بلکہ ایک خالصتاً اسلامی
ریاست بنانے کی بات کی گئی ہے.
موجودہ حکومت خصوصاً وزیراعظم صاحب کو پتا نہیں کسی نے مشورہ دیا ہے
یا خود سے ان کو غلط فہمی ہو گئی ہے کہ اپنے آپ کو ایک سیکولر شخص ثابت کر کے شاید
وہ زندگی بھر کے لئے وزارت اعظمیٰ کی کرسی پر براجمان رہ سکتے ہیں. لیکن پاکستان
کی تاریخ کا سرسری سا مطالعہ بھی اگر ان کی نظر سے گزرا ہوتا تو ان کو معلوم ہو
جاتا کہ قیام پاکستان سے لیکر ابتک جتنے بھی حکمران آۓ
ہیں چاہے وہ فوجی ڈکٹیٹر ہوں یا نام نہاد جمہوریت پسند، سب اپنا اپنا بیانیہ لیکر
آۓ اور جاتے ہوۓ
اپنے اسی بیانیے کی گٹھڑی بنا کر سر پر رکھی اور چلتے بنے لیکن جاتے جاتے ملک کو
لاینحلمسائل میں الجھا کر چلے گئے. یہ سب اننت نئےبیانیوں اورملککو اپنے ڈھنگ پر
چلانے کی کوششوں کا نتیجہ ہی ہے کہہمارا ملک ابھیتکمسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا
ہے.
محترم وزیراعظم صاحب اگر
آپ نے آئین پاکستان، جس کے تحت آپ نے اور آپ کے حاشیہ برداروں نے حلف اٹھایا ہے کا
مطالعہ کیا ہے تو آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ اسی آئین کے ابتدایئہ میں قرارداد مقاصد
لکھی ہوئی ہے اور پاکستان کے پہلے آئین سے لیکر آج تک ہر آئین کا حصّہ رہی ہے. یہ
قرارداد مقاصد ہی کافی ہے پاکستان کا بیانیہ واضح کرنے کے لئے. لیکن پاکستان کی
بدقسمتی ہے کہ جو بھی حکمران آتا ہے وہ سب سے پہلے آئین اور قانون کو لپیٹ کر وہاں
رکھ دیتا ہے جہاں اس کی نظر بھی نہ پڑے اور جب یہی لوگ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو
ان کو خدا بھی بہت یاد اتا ہے اور آئین کے سب سے بڑے محافظ بھی یہی ہوتے ہیں. ہمارے
موجودہ وزیراعظم بھی ان ہی حکمرانو ں میں سے ہیں کہ جب اقتدار سے باہر ہوں یا کوئی
مشکل پیش آۓ
تو ان کو سب سے پہلے خدا ہی یاد آتا ہے. اسلام اور قرآن ہی ان کا بیانیہ بن جاتا ہے. یہاں تک کہ ایسے
موقعوں پر جلاوطنی بھی خدا کے گھر گزار کراس کو خوش کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں
لیکن جیسے ہی اقتدار کی مسند پر بیٹھے ان کے رویوں اور لہجوں کے ساتھ ساتھ ان کے
بیانئے بھی بدل جاتے ہیں. ایسے ہی لوگوں کے بارے میں الله تعالیٰ قرآن مجید کی
سورة یونس میں فرماتا ہے
" اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارتا
ہے،لیتے بھی، بیٹھے بھی، کھڑے بھی. اور جب ہم اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو وہ
ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے کبھی ہمیں پکارا ہی نہیں تھا. ان حد سے گزرنے والوں
کے اعمال کو ان کے لئے اسی طرح خوش نما بنا دیا گیا ہے.
(١٠:١٢)."
تو جناب وزیراعظم صاحب
اگر الله تعالیٰ نے اپ کو اقتدار کی منزلوں تک تیسری بار پہنچایا ہے تو خدارا اس
ملک جو کہ خالصتاً الله اور اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے کے آئین اور قانون کو
اپنے سیکولر نظریات سے تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں. ورنہ قدرت جب انتقام لینے پر
آتی ہے تو وہ ہر اس چیز کو روند دیتی ہے جو کہ اس کے بناے ہوے قانون کے مقابلے میں
آتا ہے، چاہے وہ ہامان، قارون اور فرعون ہوں یا موجودہ دنیا کے کئی دہائیوں تک
حکمرن رہنے والے حسنی مبارک، صالح عبدللہ اور رضا شاہ ہوں یا پھر اس ملک میں
بنیادی جمہوریتوں کا نظام لانے والے یا لوگوں کو روٹی، کپڑا اور مکان دینے کے
دعویدار ہوں اور ملک کو سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دینے والے نام نہاد ٹائیگر
ہوں. تو محترم وزیر اعظم صاحب اگر آپ بھی اپنے بیانئے کو الله تعالیٰ کے بیانئے پر
فوقیت دینے کی کوشش کریں گے تو یاد رکھیں کہ یہ ملک اور قوم تو انشاللہ باقی رہیں
گے لیکن آپ اور آپ کا بیانیہ اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکے گا. اگر تو آپ اپنا نام
تاریخ میں خصوصاً اس قوم کے دلوں میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو قرآن مجید کو اپنا
بیانیہ بنا لیں تو آپ خود دیکھیں گے کہ ایک طرف اس ملک میں ترقی و خوشحالی کے
دروازے کھلتے چلے جائیں گے اور دوسری طرف آپ اس قوم کے ہی نہیں بلکہ پوری مسلم
دنیا کے قائد کے طور پر زندہ رہیں گے.
الله تعالیٰ نے اپنا
بیانیہ واضح طور پر اس آیت میں فرما دیا ہے"یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم زمین میں
اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے،معروف کا حکم دن گے اور منکر سے منع کریں گے
اور تمام معاملات کا انجام کار الله ہی کے ہاتھ میں ہے. (٢٢:٤١)".
الله تعالیٰکے بیان کئے
ہوئے اس فرمان کو دیکھئے اور اپنے دل سے پوچھئے کہ جو بیانیہ آپ اور آپ کی حکومت نافذ کرنا چاہتے ہیں
وہ اس فرمان سے کتنا میل کھاتا ہے.کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ سابقہ حکمران
جنہوں نے یہی کرنے کی کوشش کی ان کی طرح آپ بھی " داستاں تک نہ ہو گی
داستانوں میں " کے مصداق تاریخ کے اوراق میں ایک گم گشتہ باب بن جائیں.
No comments:
Post a Comment