میرے لیے مشکل یہ تھی کہ میں پاکستان ،بانی پاکستان،تحریکِ آزادی
اوراس کے نامورقائدین کے بارے میں جب کوئی موادحاصل کرناچاہتا تو دانتوں پسینہ
آجاتا۔یہ فقط میری مشکل نہیں ،ہر اس شخص کی مشکل رہی ہے جو ان موضوعات پرکام
کرناچاہتاہے۔کالم لکھنا ہویامقالہ،کوئی تحقیقی کتاب لکھنا چاہیں یاکتابچہ۔کوئی
بھرپورمبسوط اورقابلِ اعتماد ما
¿خذ ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ خصوصاً اس ملک کے بانی،جناب قائدِ اعظم محمد علی جناح کی شخصیت ،اس حوالے سے نہایت مظلوم ہے۔ کیونکہ ان کے اعلیٰ اوراجلے کردارکوجس قدر داغ دار کیاگیاہے ،اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
قائدِ اعظم کادور وہ تھا جب برصغیرکی تین چوتھائی ہندواکثریت
ان کی کردارکشی پرکمربستہ تھی ، کانگریس کے نہایت طاقتور پریس کے مقابلے میں مسلم
لیگ کی طاقت بہت کم تھی۔پھرہندولیڈروں کی”رام رام“ سے ملفوف میٹھی زبان آوری نے
مسلمانوں کے ایک طبقے کوبھی قائدِ اعظم کے متعلق ہر گری پڑی بات پر ایمان لانے
اوراسے چشم دید گواہ جیسے یقین کے ساتھ مزید مصالحہ لگاکر آگے نقل کرنے کاعادی
بنادیا۔مسلم لیگ سے سیاسی رقابت اس کاایک اہم محرک تھی۔تیسری طرف انگریز سرکار
نہایت چالاکی کے ساتھ ایسے شوشے چھوڑتی رہتی تھی جن سے مسلمانوں کااپنے قائد سے
اعتماد اٹھ جائے۔
تاریخی روایات کے یہ بکھرے ہوئے زہریلے کانٹے بعد میں تصانیف
کی شکل اختیار کرگئے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ بازارجاکر قائدِ اعظم کے بارے میں
کوئی اچھی اورمستند کتاب تلاش کرنے لگیں تو آپ کوعموماً مایوسی ہوگی،یابہت بھاگ
دوڑ کے بعد ہی کوئی معتبر کتاب نظر آئے گی۔ ہاں ایسی کتابیں آپ کودھڑادھڑ ملیں گی
جن میں مسلمانوں کے اس محسن کواستعمار کے ایجنٹ،کافراوربے ایمان کے طورپر متعارف
کرایاگیا ہے۔مثلاًماسٹر نورمحمد قریشی نے اپنی کتاب ”توصاحبِ منزل ہے کہ بھٹکا ہوا
راہی “ میں بھارتی وزیر مسٹرچھاگلہ جیسے پاکستان دشمن سے ایک نہایت ناپاک روایت
کونقل کرتے ہوئے بزعم خود ثابت کیاہے کہ قائدِ اعظم خنزیر کاگوشت بھی بلاتکلف
کھاتے اورکھلاتے تھے۔
چھاگلہ کی روایت کاخلاصہ یہ ہے کہ وہ جناح کے ساتھ بمبئی کے
ایک مشہو رریسٹورنٹ میں گئے۔جناح نے خنزیر کاگوشت منگوایا۔اس دوران ایک باریش معمر
شخص اور اس کادس سالہ بیٹا وہاں آگئے۔لڑکے نے خنزیر کے گوشت کی طرف ہاتھ
بڑھایا۔لڑکے کے ہاتھ بڑھانے پر چھاگلہ نے سوچا کہ اگر اسے روکاگیا تو باریش آدمی
شک میں پڑکرشور مچاسکتاہے جس سے جناح کی شہرت کونقصان ہوگا،اس لیے لڑکے کوحرام
کھانے دیا۔ “
چھاگلہ کی اس جھوٹی روایت کوکچھ دن قبل ایک کالم نگار نے (جو
بڑے فخرسے خود کوروشن خیال اور لبرل کہتے ہیں)اپنے کالم میں بڑے زوروشور سے نقل
بھی کردیا اورمطالبہ کیا کہ پاکستان کو سیکولر مملکت ہونا چاہیے ،یہاں قانون سے
اسلامی دفعات(تحفظِ ناموسِ رسالت ،امتناعِ قادیانیت آرڈی ننس وغیرہ) ختم ہونی
چاہییں،خنزیرکھانے ،شراب پینے اوربدکاری کی اجازت ہونی چاہیے ۔کیونکہ بانی
¿ پاکستان خود سیکولراوربے دین تھے۔
مجھے اس وقت مزیدحیرت ہوئی جب بعض محترم لوگوں نے اس روایت
کوپڑھ کرمزید اضافے کے ساتھ یہکہنابھی شروع کردیاکہ جسے آپ قائدِ اعظم کہتے ہیں
،وہ تودین دارلوگوں بلکہ علماءتک کو خنزیر کو گوشت کھلایا کرتا تھا۔ افسوس صدافسوس
کہ مسلمان اپنے پیغمبرکایہ ارشادبھول گئے:
”آدمی کے جھوٹاہونے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی
بات بیان کردے۔“﴾مشکوٰة﴿
یہ لوگ قائدِ اعظم کے متعلق نہایت رکیک باتیں اس یقین کے ساتھ
نقل کرتے ہیں جیسے انہوںنے بچشم خود سب کچھ دیکھاہو،حالانکہ اکثر تونری ہوائی
باتیں ہیں جن کی کوئی سند نہیں ۔اگر سند ملے گی بھی تو اس کی آخری کڑی میں چھاگلہ
جیسا کوئی بھارتی نیتا،کوئی کفارکا ایجنٹ،کوئی فاسق وفاجر یاکوئی اور متعصب شخص
نکل آئے گا۔قرآن مجید میں ہے:” ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے
کرآئے تواس کی تحقیق کرلیاکرو۔“﴾الحجرات﴿
ہندو،انگریز اورغیرمسلم مو
¿رخین کاطریقہ تاریخ نویسی چاہے کچھ بھی ہو،مگر اس فرمانِ باری
تعالیٰ کے مطابق کم ازکم ایک مسلمان کوکسی بھی شخص کے بارے میں کسی خبر پریقین
کرنے سے قبل تامل اور غور و فکر کی ضرورت ہے،خصوصاً جبکہ اس خبر کااثر ہمارے نصب
العین ،طریقِ حیات اورسماجی ،فکری اور قومی ڈھانچے پر براہِ راست پڑتاہو۔مگرا فسوس
کہ ہمارے بہت سے” قلمی مجاہدوں“نے اس بارے میںقرآن وحدیث کی تعلیم کوبالکل نظر
انداز کردیا۔حدیہ ہے کہ وہ کتب جن کاموضوع تحریکِ پاکستان یا قائدِاعظم کی ذات
نہیں ،ان کے ”اعلیٰ ظرف “مو
¿رخین بھی درمیان میں کہیں نہ کہیں قائدِ اعظم کے کفراوربے دینی
کاپرچارکیے بغیر آگے نہیں بڑھ پاتے۔ مثلاًجناب غلام نبی کی ”تحریکِ کشمیر سے
تحریکِ ختم نبوت“کاقائدِ اعظم کی ذات سے کوئی واسطہ نہیں مگر اس میں بھی کئی صفحات
تک بانی
¿ پاکستان کو کافر ، حریص اوربے ضمیر ثابت کرنے میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی گئی۔پاکستان میں اظہارِ رائے کی کھلی آزادی ہے ،اس لیے آپ یہاں کچھ بھی
کہہ سکتے ہیں ،کچھ بھی لکھ سکتے ہیں ۔ منفی بہت کچھ لکھاگیا مگر مثبت کام کے میدان
میں بہت کچھ کرناباقی ہے۔ قائدِ اعظم کے حالاتِ زندگی کوبھی اس مثبت طرزِ فکر سے
جمع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جو لوگ ان کی تاریخ کوایک ہی رُخ سے دیکھ رہے ہیں ،وہ
یہ دوسرارُخ بھی دیکھیں ،پھر کوئی رائے قائم کریں۔
اللہ کاشکر ہے کہ علامہ عبدالستار عاصم نے یہ عظیم فریضہ انجام
دے دیاہے۔انہوںنے پانچ جلدوں میں ”جہانِ قائد“ کے عنوان سے ایسابہترین ما
¿خذ مہیاکردیاہے جس پر اہلِ پاکستان فخر کرسکتے ہیں۔یہ کام بے حد
محنت اور عرق ریزی سے کیاگیاہے۔گری پڑی ہوائی باتیں نہیں لی گئیں۔حتی الامکان تمام
قابلِ اعتماد دستیاب مآخذسے استفادہ کیاگیاہے۔ جن میں سوانح،رسائل ،اخبارات،
انٹرویوز، سرکاری دستاویز اور بہت کچھ شامل ہے۔اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مواد
مستند اورقابلِ اعتماد ہے۔ علامہ عاصم نے یہ کام اپنی قومی زبان میں انجام
دیاہے۔اس سے قبل پروفیسر زیڈ اے زیدی ”جناح پیپرز“ کے نام سے ایک بہت ضخیم کام
کرچکے ہیں مگر وہ انگریزی زبان میں ہے،تحقیق کے لیے اگرچہ اس کی حیثیت بنیادی ہے۔
مگراس سے استفادہ عام آدمی کے لیے مشکل ہے۔جہانِ قائد نے اس کام کوآسان تر
کردیاہے۔ علامہ عاصم نے مواد میں اپنی ذاتی آراءکودخل نہیں دیا۔جس ماخذ سے جوکچھ
ملا،اسے اسی طرح پیش کردیا ہے۔ البتہ جہاں ناگزیر ضرورت ہوئی ،وہاں ضروری تلخیص
وتسہیل کردی ہے۔اس طرح زبان بہت عام فہم ہوگئی ہے۔اسکول کے طلبہ بھی پڑھ اورسمجھ
سکتے ہیں۔ میری قارئین سے گزارش ہے کہ اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں۔سیاسی
جماعتوں،سرکاری اداروں ،دینی جماعتوں،فلاحی تنظیموں،مدارس دینیہ اوراسکولوں کالجوں
کی لائبریریوں میں یہ کتاب ضرورہونی چاہیے۔
محمداسماعیل ریحان
rehanbhai@gmail.com
No comments:
Post a Comment