چھوٹی بڑی جنگلی مکھی کا شہد
ہمارے محترم بزرگ سید ذاکر علی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایسا علم عطا کیا تھا کہ وہ زمین پر دائرے کی صورت میں چکر لگانے کے بعد یہ بتادیا کرتے تھے کہ اس زمین کے نیچے پانی میٹھا ہے یا کڑوا۔ماضی میں ہمارے حکمرانوں نے ذاکر صاحب کے اس علم سے بہت فائدہ اٹھایا۔سندھ کے ایک سابق فوجی گورنر سے ان کی دوستی تھی، وہ اندرون سندھ میں ذاکر صاحب کے اس علم سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ذاکر صاحب ہمارے عہد کی تاریخ تھے، تحریک کا اثاثہ تھے۔ان کے بات کرنے کا انداز اتنا دلنشین اور خوبصورت تھا کہ سامنے والا مبہوت ہوکر ان کی گفتگو سنتا تھا۔ داستان کہنے اور قصہ گوئی کے انداز میں بات کرنے کا فن ان کو آتا تھا۔شہد پر ان کی معلومات سند کا درجہ رکھتی تھی۔پاکستان کے علاوہ دوسرے کئی ممالک کی یونیورسٹیوں میں شہد پر لیکچر دینے کے لیے ان کو مدعو کیا جاتا تھے۔شہد پر دنیا کی ہر زبان میں کتاب ان کے پاس موجود تھی۔مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے ان معلومات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کیا یا نہیں۔ان کی بہت سی یادداشتیں باقاعدہ ریکارڈ ہوئی ہیں۔وہ شہد کھایا نہیں کرتے تھے بلکہ پیالی سے پیا کرتے تھے۔ انھوں نے شہد پر بہت سے تجربات کیے اور اس کے حیرت انگیز نتائج حاصل ہوئے، جن میں سے کچھ کا ذکر درج ذیل ہے:
٭....ذاکر صاحب کے پاس ایک ایسا مریض آیا جس کی ٹانگ میں اتنا گہرا زخم تھا کہ ڈاکٹر اسے لاعلاج قرار دے کر کاٹنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ذاکر صاحب نے زخمی ٹانگ میں شہد بھر کر پٹی باندھی۔ایک دن چھوڑ کر اس کی پٹی بدلتے۔ کچھ دنوں میں ٹانگ کا زخم بھر گیا اور وہ دوڑنے بھاگنے لگا۔
٭....ذاکر صاحب کی ایک عزیزہ امید سے تھیں۔ذاکر صاحب نے ان کو معمول سے ہٹ کر شہد کھلانا شروع کیا، جس سے ماں کی صحت بھی اچھی ہوگئی اور نومولود صحت مند اور خوبصورت پیدا ہوا۔بچہ ذرا بڑا ہوا تو وہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں غیر معمولی ذہین تھا۔بچپنے میں فلسفیوں کی طرح باتیں کرتا تھا۔ماں باپ اور اسکول کے ٹیچروں کے پاس اس کے سوالوں کے جواب نہیں ہوتے تھے۔
٭....ایک مرتبہ جنوری کے موسم میں ذاکر صاحب سوات میں تھے، برف باری ہورہی تھی، شدید سردی تھی۔ایسے موسم میں ذاکر صاحب نے میزبان سے ٹھنڈا پانی مانگا۔میزبان پریشان کہ کراچی سے آئے ہوئے یہ منحنی سے آدمی اس موسم میں ٹھنڈا پانی پئیں گے! ذاکر صاحب کے اصرار پر کمرے سے باہر رکھے ہوئے مٹکے سے ٹھنڈا پانی لیا گیا۔ذاکر صاحب نے لیمو اور شہد ملا کر وہ پانی پی لیا۔ذاکر صاحب کو نہ جاڑا لگا، نہ گلا خراب ہوا۔
٭....ایک مرتبہ جنوری کے موسم میں ذاکر صاحب سوات میں تھے، برف باری ہورہی تھی، شدید سردی تھی۔ایسے موسم میں ذاکر صاحب نے میزبان سے ٹھنڈا پانی مانگا۔میزبان پریشان کہ کراچی سے آئے ہوئے یہ منحنی سے آدمی اس موسم میں ٹھنڈا پانی پئیں گے! ذاکر صاحب کے اصرار پر کمرے سے باہر رکھے ہوئے مٹکے سے ٹھنڈا پانی لیا گیا۔ذاکر صاحب نے لیمو اور شہد ملا کر وہ پانی پی لیا۔ذاکر صاحب کو نہ جاڑا لگا، نہ گلا خراب ہوا۔
٭....وہ شہد کے حصول کے لیے مختلف علاقوں میں جایا کرتے تھے۔ایک دفعہ ایسا شہد لائے جس میں مٹھاس کے ساتھ کچھ کڑواہٹ بھی تھی۔میرے والدِ ماجد نے پوچھا کہ یہ شہد کہاں کا ہے؟ ذاکر صاحب نے فرمایا: جس علاقے میں ملیریا میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیاں ہوتی ہیں، مکھی اس بوٹی سے رس لائی ہے۔میرے والد نے ان سے سارا شہد لے لیا اور اس کی بخار اور ملیریا کی دوا بنائی، جس کے حیرت انگیز نتائج نکلے۔
اللہ تعالیٰ نے مومن کو انعام کے طور پر شہد عطا کیا۔جنت میں ملنے والی اشیاءکا ذکرکرتے ہوئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”کہ وہاں خالص شہد کی نہریں ہوں گی اور ان لوگوں کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں گے۔“
قرآن مجید میں جنت میں رکھی ہوئی چیزوںکا مختلف مقامات پر تذکرہ کیا گیا ہے، ان میں زیادہ تر پھل، موتی، مونگے، قیمتی دھاتیں اور زیورات ہیں، مگر ان کے ساتھ وہاں پر بہنے والی نہروں میں چار چیزوں کا ذکر ہے۔دودھ ایسا لذیذ کہ پینے والے پسند کریں۔وہ شراب جو خوش ذائقہ ہے، شفاف پانی اور خالص شہد۔
اللہ تعالیٰ سورہ نحل میں فرماتا ہے:
”تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر وحی بھیجی کہ وہ پہاڑوں، درختوں کی بلندیوں پر اپنا گھر بنائے۔ پھر وہ ہر قسم کے پھلوں سے رزق حاصل کرے اور اپنے رب کے متعین کردہ راستے پر چلے۔ ان کے پیٹوں سے مختلف رنگ کی رطوبتیں نکلتی ہیں جن میں لوگوں کے لیے شفا رکھی گئی ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نشانیاں ہیں تاکہ لوگ ان پر غور و فکر کرکے اس سے فائدہ اٹھائیں۔“
اس آیتِ مبارکہ میں تین اہم نکات ہیں: شہد کی مکھی کے ٹھکانے بلندیوں پر ہوں گے۔ وہ پھلوں سے اپنا رزق حاصل کرے گی اور اس کے منہ اور پیٹ سے متعدد اقسام کے جوہر خارج ہوں گے۔
شہد کی مکھی اپنا گھر اونچی جگہوں اور پہاڑوں پر بناتی ہے۔ ایک چھوٹا سا کیڑا کس قدر منظم زندگی گزارتا ہے! نبی ¿ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مارنے سے منع فرمایا۔ شہد کی مکھیوں میں ان کی ملکہ کارندوں کے بنائے ہوئے گھر میں انڈے دیتی ہے۔ یہ گھر موم کے بنے ہوتے ہیں جو چھ پہلو والے خانوں (Hexagonal) پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ خانے بغیر کسی پرکار کے، جیومیٹری کے حساب سے بالکل صحیح بنے ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی زاویہ یا سائیڈ چھوٹی، بڑی نہیں ہوتی۔ یہ موم مکھیوں کے غدود سے نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پیٹ سے ایک خاص قسم کا گوند بھی نکلتا ہے جس سے یہ اپنا چھتا درخت کی چھال یا چھت کی سطح سے چپکاتی ہیں اور اسی سے چھتے کے سوراخ بند کرتی ہیں۔ انڈے بعد میں لاروا(Larva) اور پھر پیوپ (Pupa) بن جاتے ہیں۔ نومولود بچوں کے کھانے کے لیے شہد ان ہی خانوں میں جمع کیا جاتا ہے۔ رائل جیلی (Royal Jelly) ایک طاقتور ٹانک ہے۔ ایک چھتے میں ہزاروں کی تعداد میں مکھیاں ہوتی ہیں۔
شہد کی مکھیاں سمجھ بوجھ، سلیقہ شعاری، صنعت سازی اور مکان سازی میں سب جانوروں میں ممتاز ہیں۔ غصہ کی حالت میں جتھہ کا جتھہ ہی حملہ کردیتا ہے۔
شہد بنانے کے لیے کارندہ مکھیاں پھول، پھول جاتی ہیں اور ان کا رس چوس کر پیٹ میں جمع کرلیتی ہیں۔ پھر یہ چھتّے میں پہنچ کر اس پیٹ کی رطوبت کے ساتھ جو مختلف رنگ کی ہوتی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے عوام الناس کے لیے (شفا الناس) شفا رکھی ہے، ایک ایک خانے میں اگل دیتی ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہر کارندے کا لایا ہوا رس چھتے میں پہنچ کر ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اگر کارندہ مکھی کسی زہریلے پھول کا رس لائی ہے یا وہ کسی گندی جگہ بیٹھی ہے تو سپاہی مکھی بطور سزا جلاد مکھی سے اس کی سونڈ ہی کٹوا دیتی ہے۔ اسی طرح نکمی مکھی کو سپاہی مکھی مار کر نیچے پھینک دیتی ہے اور یہ اپنے چھتے میں گندگی نہیںکرتی۔ ملکہ اس کو باہر پھینک دینے کا حکم صادر کردیتی ہے۔ شہد جمع کرنے کے لیے ان کو بے شمار پھولوں تک جانا پڑتا ہے۔ ان کی مصروفیات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سارے دن میں شہد کی ایک مکھی اپنے چھتے میں اپنے وزن سے پانچ سو گنا زیادہ رس لاکر جمع کرتی ہے۔ ایک چمچے کے برابر شہد حاصل کرنے کے لیے مکھی کو دو ہزار پھولوں پر جانا پڑتا ہے، اور ایک پونڈ شہد کے حصول کے لیے چھتے اور پھولوں کے درمیان کم از کم 37 ہزار پھیرے کرنے پڑتے ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایک پونڈ شہد پیدا کرنے کے لیے چار پونڈ پھولوں کے رس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر چھتے سے پھولوں تک جانے کے لیے ایک مکھی کی اڑان یا آنے جانے کا فاصلہ تین میل رکھا جائے تو ایک پونڈ شہد کے لیے ایک مکھی کو تمام دنیا کا چار پانچ بار چکر لگانے کے برابر سفر کرنا ہوگا۔ بعض سائنس دانوں کی رائے کے مطابق مکھیاں زیادہ تر اپنے چھتے سے دو میل کے اندر اندر شہد جمع کرنے کے لیے جاتی ہیں۔
یہ مکھیاں خطِ استوا کی حدت سے لے کر برفانی میدانوں کی برودت تک میں زندہ رہ سکتی ہیں، مگر ان کے چھتے کا اندرونی درجہ حرارت 93F کے قریب رہتا ہے۔ اگر آس پاس کا موسم 12.5F تک بھی گرم ہوجائے تو چھتّا متاثر نہیں ہوتا۔ ٹھنڈک میں زیادتی کی وجہ سے ذخیرے پر گزر اوقات اور خوشگوار موسم کا انتظار کرتی ہیں۔
ایک چھتّا سال میں تقریباً 500کلو گرام ماءالحیات حاصل کرکے اس سے شہد تیار کرتا ہے۔ چھتّوں میں شہد کے علاوہ موم اور پولن کے دانے بھی ذخیرہ کیے جاتے ہیں۔ پھولوں کی پتیوں کے درمیان ان کے تولیدی اعضاءہوتے ہیں۔ مکھی جب اس کو چوسنے کے لیے کسی پھول پر بیٹھتی ہے تو نر پھولوں کے تولیدی دانے اس کے جسم پر لگ جاتے ہیں جن کو Pollen کہتے ہیں۔ پولن کے دانے لگی مکھی جب دوسرے پھول پر بیٹھتی ہے تو اس کے نسوانی حصے ان دانوں کو اپنی جانب کھینچ کر باروری حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح مکھی کی اڑان زراعت کے لیے ایک نہایت مفید خدمت سرانجام دیتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والی 90 اقسام کی زرعی پیداوار کی ترویج اور باروری صرف شہد کی مکھی کی مرہونِ منت ہے۔ پولن کے جو دانے بچ جاتے ہیں ان کو چھتے میں لے جاکر کارکنوں کی خوراک میں لحمی اجزاءکے طور پر شامل کردیا جاتا ہے۔
شہد کی مکھیاں بڑی محنت اور جتن سے شہد تیار کرتی ہیں۔ وہ اپنی جس ملکہ کے ماتحت کام کرتی ہیں، وہ شاہی شہد یعنی ”رائل جیلی“کہلاتا ہے۔ یوں تو اس میں بڑے خواص اور بڑی خوبیاں ہوتی ہیں لیکن یہ خاص طور پر اعصاب کے لیے بہترین ٹانک ثابت ہوتا ہے۔
مشرق میں آغازِِ تہذیب ہی سے قدرت کی اس عظیم نعمت کی اہمیت اور قدر و منزلت کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔ ہندوؤں کے ہاں شادی کے موقع پر دولہا کو دلہن کے گھر پہنچنے پر دہی اور شہد ملاکر دیا جاتا ہے اور اس سے وہ اشلوک پڑھوایا جاتا ہے جس میں شہد کی تعریف کی گئی ہے۔
مشرقی مذاہب میں شہد کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے، اس لیے اسے بڑے احترام اور عقیدت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے جسم کو گندگی سے صاف کرکے توانائی اور طاقت عطا کرنے والا عطیہ ¿ الٰہی سمجھا جاتا ہے۔ ہندو یوگی ہزاروں سال سے اسے اس یقین کے ساتھ کھاتے آرہے ہیں کہ یہ ان کے جسم کو آلائشوں سے پاک کرکے طاقت سے بھر دے گا، ان کی آنکھیں روشن اور دماغ قوی ہوجائے گا۔
حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اہلِِ مغرب شہد کو موضوعِ تحقیق بنا کر اس کے اوصاف اور خوبیوں سے اب آگاہی حاصل کررہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ اسے صرف ایک مٹھاس ہی سمجھتے تھے۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ خود یورپ کی بعض قدیم تہذیبوں میں بھی شہد کا بڑا مقام تھا۔
شہد کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ عرصہ ¿ دراز تک یہ خراب نہیں ہوتا اور اس میں ڈالی ہوئی چیز خراب ہونے سے محفوظ رہتی ہے۔ قدیم دور سے اطباءاس کو دوائیں بنانے میں استعمال کرتے ہیں۔
دنیا میں عجیب و غریب مہماتی شوق ہیں جن میں سے ایک شوق یہ بھی ہے کہ سمندرکی تہہ میں ایسے جہازوں کو تلاش کیا جاتا ہے جو کسی حادثے میں زیر سمندر چلے گئے تھے۔ بحرالکاہل میں کئی ہزار سال پرانا جہاز ملا جس پر شہد لدا ہوا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جب شہد کا لیبارٹری ٹیسٹ کیا گیا تو وہ قابلِ استعمال تھا۔
شہد نہ صرف ایک مقوی غذا ہے بلکہ یہ مفید اور شافی دوا بھی ہے۔ بنی نوع انسان کو اس کی افادیت کا دورِ قدیم سے علم تھا۔ قدیم مصر کے تصویری خطوط تک میں شہد کے فوائد کا ذکر ملتا ہے۔ تاریخ میں قدیم یونانی دیوتاؤں کی جس غذا کا ذکر ہے وہ بھی شہد ہی سے تیار کی جاتی تھی۔
قدیم زمانے کا مشہور طبیب بقراط 107 سال تک زندہ رہا، اس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ شہد کھاتا تھا۔ قدیم یونان کے فلسفی اور معالج شہد کو عمر بڑھانے والا مانتے تھے۔ رومن مو ¿رخ پلوٹارک نے قدیم برطانیہ کے لوگوں کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ایک سو بیس برس کی عمر میں بوڑھے ہوا کرتے تھے اور اس کی بڑی وجہ شہد کا بھرپور استعمال تھا۔ جالینوس بھی شہد کو اکثر امراض کی بہترین دوا لکھتے ہیں۔
قدیم رگ وید میں اس کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ انجیل میں بھی 21 مرتبہ اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ دنیا کی قدیم رزمیہ نظموں اور لوک کہانیوں کے سورماؤں کو جنگ میں زخم لگتے تھے تو جادوگر انھیں مندمل کرنے کے لیے سیکڑوں سال پرانا شہد استعمال کراتے تھے۔ غرض ہندوؤں کی قدیم طبی و مذہبی کتاب سے لے کر قرآن مجید تک، شہد کی افادیت مسلمہ رہی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم چائے، کافی اور دوسرے مشروبات پر بے دردی سے سرمایہ خرچ کررہے ہیں لیکن شہد جو قوت و صحت کا خزانہ ہے، ہماری بے اعتنائی کا شکار ہے۔ ہم مختلف امراض و شکایات کے ازالے کے لیے معالجین کے پاس بھاگے بھاگے پھرتے ہیں اور ہزاروں روپے خرچ کرڈالتے ہیں، لیکن انتہائی کم قیمت اور مو ¿ثر ترین دوا شہد سے استفادہ نہیں کرتے جو ہماری بہت ساری بیماریوں کا شافی علاج ہے۔
قدیم مصر کے حکماءشہد سے واقف تھے۔ لاشوں کے محفوظ کرنے کے عمل میں شہد استعمال کیا جاتا تھا۔ شاہی دسترخوان پر شہد ہمیشہ موجود رہتا تھا، اور جب بادشاہ مرتے تھے تو اُن کی ضروریاتِ زندگی مقابر میں ان کے ساتھ دفن کی جاتی تھیں۔ کھدائی کے دوران ہر مقبرے سے شہد کی کپیاں برآمد ہوئی ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ آٹھ ہزار سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ شہد انسانی استعمال کے قابل پایا گیا۔ اس میں اگر کوئی تبدیلی واقع ہوئی تو صرف اتنی کہ اس کا رنگ سیاہی مائل ہوگیا تھا۔ لوگوں نے اسے کھایا اور ذائقہ ٹھیک ٹھاک تھا۔
ویدوں نے اپنے نسخوں میں شہد کو سوزاک، امراضِ بطن، امراضِ اعصاب، امراضِ العین، ہیضہ اور دوسری متعدد بیماریوں میں بڑے وثوق سے استعمال کیا ہے۔
بوعلی سینا اور قانون کی شرح لکھنے والوں نے شہد کی ماہیت کے بارے میں کہا ہے کہ:
”یہ ایک قسم کی شبنم خفی ہے جو پھولوں اور نباتات پر گرتی ہے۔ اس کو ایک منیش دار مکھی چوس کر اپنے چھتے میں کھانے کے واسطے جمع کرلیتی ہے۔“
یہ وہ ابتدائی دور تھا جب لوگوں کو پھلوں، پھولوں اور حیوانات کے بارے میں ثقہ معلومات میسر نہ تھیں۔
شہد، شہد کی مکھیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ شہد کے چھتے میں تین طرح کی مکھیاں پائی جاتی ہیں، جن میں سے ایک قسم ملکہ، دوسری کارکن، اور تیسری قسم نکھٹو کہلاتی ہے۔ ایک چھتے میں ان کی مجموعی تعداد ایک ہزار سے لے کر دس ہزار تک ہوتی ہے۔ مادہ صرف ملکہ ہوتی ہے، اس کا کام صرف انڈے دینا ہوتا ہے۔ نکھٹو نر کہلاتے ہیں، یہ بہت کم عمر پاتے ہیں اور ملکہ کے انڈے دینے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ البتہ کارکن ابتدا میں کسی ایک انڈے کو ملکہ کے طور پر منتخب کرلیتے ہیں اور اس کی نگہداشت اور پرورش پر غیر معمولی توجہ دیتے ہیں۔ یہ جنسی اعتبار سے مخنث ہوتے ہیں، چھتّا بنانا اور شہد جمع کرنا ان ہی کا کام ہوتا ہے۔
شہد کی عموماً دو اقسام ہوتی ہیں۔ ایک تو ہلکا زردی مائل سفید، شفاف، پتلا، نہایت میٹھا.... اور اس کے مزے میں تیزی مطلق نہیں ہوتی۔ یہ اعلیٰ درجے کا شہد سمجھا جاتا ہے اور عموماً غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسرا بادامی رنگ کا اور قدرے گاڑھا ہوتا ہے۔ اس کے مزے میں ہلکی سی تیزی ہوتی ہے۔ یہ اکثر دواؤں میں ڈالا جاتا ہے۔ لیکن شہد کی خوشبو اور ذائقے کا انحصار مکھی کے مختلف قسم کے پھولوں سے رس چوسنے پر ہوتا ہے۔ سال میں شہد کی دو فصلیں ہوتی ہیں.... ایک موسم بہار یعنی مارچ، اپریل، مئی میں، اور دوسری موسم خزاں یعنی اکتوبر اور نومبر میں۔ اطباءکے نزدیک وہ شہد جو چھتے سے ٹپک کر ازخود گررہا ہو، سب سے عمدہ ہے۔
شہد میں17 فیصد پانی اور 75 فیصد شکریں جنھیں لیویولوس (پھلوں والی شکر) اور ڈیکسٹروس (انگوری شکر) کہتے ہیں، پائی جاتی ہیں۔ یہ شکریں نہ صرف شہد میں مٹھاس پیدا کرتی ہیں بلکہ یہ عام گنے کی شکر کی نسبت زیادہ زود ہضم اور طاقت و توانائی بخش ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ شہد میں لوہا، تانبا، کیلشیم، فاسفورس، پوٹاشیم، سوڈیم، مینگنیز، گندھک، پروٹین اور حیاتین وغیرہ موجود ہوتے ہیں۔
شہد بہت سی بیماریوں میں فائدہ دیتا ہے۔ قرآن حکیم میں بھی اس کو شفا کہا گیا ہے۔ یہ ایک زود ہضم و مقوی ٹانک ہے اور ہر عمر اور ہر موسم میں یکساں مفید ہے۔ یہ معدے کی اصلاح کرتا ہے، بھوک بڑھاتا ہے، قبض کشا ہے، مصفی خون ہے، گہری نیند لاتا ہے، مقوی اعضاءرئیسہ اور مقوی باہ ہے۔ رنگ نکھارتا ہے، عمر بڑھاتا ہے، دماغ و نظر کو تیز کرتا ہے، حافظہ تیز کرتا ہے، دل اور پھیپھڑوں کے لیے مفید ہے۔ گلے و سینے کی جلن اور جوڑوں کے درد کے لیے فائدہ مند ہے۔ زکام میں مفید ہے۔ چہرے کا حسن بڑھاتا ہے اور چربی اور موٹاپا کم کرتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید ہے۔ سوجن اور جلے ہوئے پر اسے لگانے سے آرام آتا ہے۔
شہد جراثیم کو مارتا ہے۔ زخموں، پھوڑوں اور پھنسیوں کو ٹھیک کرتا ہے۔ چونکہ یہ دورانِِ خون میں مکمل طور پر جذب ہوجاتا ہے، اس لیے محنت و تھکاوٹ کے اثرات دور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ موسم گرما میں ٹھنڈے پانی میں، اور موسم سرما میں نیم گرم پانی کے آدھے گلاس میں بڑا چمچہ شہد کا خوب حل کرکے پینے سے توانائی آجاتی ہے اور تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے۔ گرم دودھ میں شہد کا ایک چمچہ ڈال کر پینے سے ہچکی آنا بند ہوجاتی ہے۔ نہار منہ شہد چاٹنا انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے۔
غرض شہد ایک بیش بہا نعمت ہے۔ یہ بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور کمزور بیماروں کے لیے یکساں طور پر اعلیٰ قسم کی حیات بخش غذا اور دوا ہے۔ الحاصل شہد قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے۔
No comments:
Post a Comment