Tuesday, December 11, 2018

تعزیت کا سلیقہ




موت سے کس کو رست گاری ہے، تاہم، موت کا ایک دن معین ہے، چناںچہ مرنا کتنا بھی مشکل ہو ہر شخص صرف ایک بار ہی مرتا ہے (بس، آمر وجابر حکم رانوں کو یہ استثنیٰ حاصل ہے کہ وہ نام اور مقام کی تبدیلی کے ساتھ بار بار پیدا ہوتے اور مرتے ہیں اور ہربار برے انجام سے دوچار ہونے کے باوجود ”آواگون“ کا یہ سلسلہ ترک کرنے پر آمادہ نہیں ڈھیٹ کہیں کے) لیکن زندگی میں کچھ ایسے کٹھن مرحلے درپیش آتے ہیں جن سے بیسیوں مرتبہ دوچار ہونا ہوتا ہے، مثلاً تعزیت!

ہم نہ صرف خود تعزیت کے قواعد وضوابط، زبان وبیان اور مسائل سے ناواقف ہیں، بل کہ ہمارے حلقہ احباب میں بھی ایسے کئی حضرات موجود ہیں جو یوں تو گفتار کے غازی ہیں، مگر میدان تعزیت میں قدم رکھتے ہی نرے ”نیازی“ ثابت ہوتے ہیں۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ جب کسی مرحوم کے لواحقین کی دل جوئی کی نیت سے جاتے ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہیں۔ ہمیں ایسے موقع پر پوچھا جانے والا سوال ”کیا ہوا تھا“ اس وقت انتہائی لغو معلوم ہوتا ہے جب مرنے والا زندگی کی ستر، اَسّی بہاریں دیکھ کر دنیا سے رخصت ہوا ہو، بھئی اب یہ نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا؟ مگر صاحب! شاباش ہے مرحومین کے لواحقین کو کہ ایک دن میں درجنوں مرتبہ اس روایتی سوال کا جواب پوری تفصیل کے ساتھ اور تمام تر جزویات بیان کرتے ہوئے اس طرح دیتے ہیں گویا اگر مرحوم کے آخری دن خاص طور پر آخری لمحات کے بارے میں کوئی ایک بات بھی بیان کرنے سے رہ گئی تو مردے کی بخشش نہ ہوپائے گی۔

اب صورت حال یہ ہوتی ہے کہ ”تعزیت کنندہ“ سر جھکائے، چہرے پر مصنوعی افسردگی سجائے اور وقتاً فوقتاً ”چہ چہ“، ”اوہو“، ”اچھا“ کے بے ساختہ سے زیادہ خود ساختہ ردعمل کے ساتھ جانے والے کے اختتام بالخیر کی تفصیل اس دل چسپی کے ساتھ سُن رہا ہے جیسے ان ”گراں قدر“ معلومات کے بغیر اس کا علم ادھورا رہ جائے گا۔ وہ تہہ دل سے خواہش مند ہے کہ جلد ازجلد ”موت کا منظر“ بیان ہوجائے، تاکہ وہ فاتحہ پڑھ کے گھر کی راہ لے، لیکن ادھر، ابھی موت سے ایک روز پہلی والی رات کا بیان ہی چل رہا ہے۔
دوسری طرف اس تعزیت کنندہ سے کچھ فاصلے پر بیٹھے دیگر اصحاب یہ سوچ کر بے حال ہورہے ہیں کہ انھیں ”کیا ہوا تھا“ کے جواب میں یہ تمام تفصیل دوبارہ سننی پڑے گی۔

مرنے والوں کے لواحقین کا معاملہ یہ ہے کہ انھیں کم از کم سوئم تک فرصت ہی فرصت ہوتی ہے، لہٰذا وہ کریں تو کیا کریں؟ اب اگر مرحوم یا مرحومہ کوئی نام ور ہستی ہوں، جنھوں نے کسی شعبے میں کارہائے نمایاں سرانجام دے کر عالم آب وگِل سے عالم جادوانی کی طرف کوچ کیا ہو، تو ان کے بارے میں کہنے سننے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ لیکن جن اصحاب کی زندگی ”بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مرگئے“ کے سوا کچھ نہ ہو، اور جو خواتین مردم شماری کے خانے میں نورنظر اور لخت جگر کے نام بڑھوانے کے علاوہ کسی شعبہ حیات میں کوئی اضافہ نہ کرسکی ہوں، ان کے بارے میں کتنی اور کہاں تک گفت گو ہوسکتی ہے؟ لہٰذا ایسے خواتین وحضرات کے گزرجانے کا احوال جاننے کی خواہش میں آپ کو جو تفاصیل سننا پڑتی ہیں، وہ کچھ یوں ہیں:

صبح کوئی آٹھ بجے کے قریب اٹھے (ہچکیاں)
منہ دھویا ( کیا زندگی میں پہلی بار دھویا؟)
میں نے کہا، ابا ناشتہ دوں؟ (بے وقوف! یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات تھی!)
کہنے لگے، ہاں۔
میں نے سلیم کو بھیج کر انڈا منگوایا، وہ گندا نکلا
کون، سلیم؟
نہیں بہن انڈا، میں نے دوسرا انڈا منگوایا۔ فرائی کیا۔ ساتھ پراٹھا بنایا، چائے بنائی، ٹرے میں ناشتہ سجاکر دیا۔ ماشاءاﷲ پورا انڈا کھالیا اور پراٹھا بچ گیا تو چائے میں ڈبو ڈبو کر کھایا۔
(
تم سر پر سوار نوالے گن رہی تھیں)
پھر کہنے لگے، بہو! ایک کپ چائے اور دے دو۔ میں نے دوسرا کپ دیا، خوب مزے لے لے کر سڑپ سڑپ کر پی۔
کہنے لگے، بہو! تمہارے ہاتھ میں بڑی لذت ہے۔ چھوٹی بہو کے پکائے ہوئے کھانے کے تو چند نوالے کھانا مشکل ہوجاتا ہے۔
(
پتا نہیں وہ تمھیں پانی پر چڑھا رہے تھے یا تم جھوٹ بول رہی ہو)
ناشتے کے بعد ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگے۔ میں کسی نہ کسی کام سے کئی بار ڈرائنگ روم میں گئی۔ مجھے دیکھتے ہی چینل تبدیل کردیتے تھے!
دوپہر کو میں نے کہا، ابا کھانا کھا لیجیے۔
(
تم کھلا کھلا کے ماررہی تھیں)
کہنے لگے، لے آو۔
میں نے کھانا لاکر دیا۔ ویسے تین روٹیاں کھاتے تھے لیکن اس وقت چار کھائیں۔ پھر سوگئے۔ شام کو اٹھے تو بری طرح کھانس رہے تھے۔ میں نے سلیم سے کہا، دادا کو ڈاکٹر کے پاس لے جاو، واپسی میں کوئی نئی فلم لیتے آنا۔
کوئی شام سات بجے سلیم واپس آیا۔ ایک ہاتھ میں فلم تھی، دوسرے میں دادا! فلم میز پر رکھ دی اور دادا کو بستر پر لٹا دیا۔
میں نے کہا، سلیم میں فلم دیکھ رہی ہوں، تم دادا کو دیکھو۔ (پھر ہچکیوں اور آنسووں کے ساتھ)
اے بہن! فلم کا انٹرویل بھی نہیں ہوا تھا کہ ابا کا اینڈ ہوگیا۔ وہ والا گانا چل رہا تھا(سوچتے ہوئے) اے سلیم! کون سا گانا تھا؟
کہاں چلی مری چھمو رانی۔
اے ہاں، یہ گانا شروع ہی ہوا تھا کہ سلیم بھاگا بھاگا میرے پاس آیا اور کہنے لگا، اماں! دادا سانس نہیں لے رہے۔
میں نے کہا بیٹا! بڑھاپے میں یادداشت کم زور ہوجاتی ہے، سانس لینا بھول گئے ہوں گے، تو جگا کے یاد دلادے۔
کچھ دیر بعد پھر آیا، کہنے لگا اماں دادا اٹھائے نہیں اٹھ رہے۔
اب جو میں نے جاکے دیکھا، ارے وہ تو سرے سے اٹھ چکے تھے ے ے ے ے (رونا شروع)۔

اسی طرح لواحقین کی جانب سے بیان کردہ روداد مرحومین کے صبح بستر سے اٹھنے سے لے کر دنیا سے اٹھنے تک، ایک دن کی تمام ضروری اور غیرضروری مصروفیات پر مشتمل ہوتی ہے، جس میں ان کے کھانے پینے، نہانے دھونے، اٹھنے بیٹھنے، کھانسنے کھنکھارنے اور ڈکاریں مارنے تک کا تذکرہ شامل ہوتا ہے، اور بتایا جاتا ہے کہ مرحوم مرنے سے کچھ دیر پہلے تک بھلے چنگے، ہٹے کٹے اور ہشاش بشاش تھے۔ غالباً لواحقین توقع اور خواہش رکھتے ہیں کہ برسات، طوفان اور حکومت کا تختہ الٹنے کی طرح موت کی بھی کچھ علامات اور نشانیاں پہلے سے ظاہر ہوجائیں تاکہ تجہیزوتکفین کی تیاری ”ایڈوانس“ کی جاسکے۔ قبر کی جگہ ملنے میں پیش آنے والی مشکلات کو دیکھتے ہوئے یہ خواہش کچھ بے جا بھی نہیں!
ہمارے یہاں، عموماً، ساٹھ سال کی عمر کے بعد دنیا سے گزرنے والا ہر شخص ”مقام ولایت“ پر فائز نظر آتا ہے، جسے اپنی موت کا علم ہوجاتا ہے اور وہ مختلف طریقوں سے اپنی اس باخبری کا اظہار بھی کردیتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی صاحب اپنی وفات سے کچھ روز یا چند گھنٹے قبل اپنے کسی بھولے بسرے دوست سے ملاقات کرلےں، بدنما بیوی کی خوش نما الفاظ میں تعریف کردےں، ایک دو مرحومین کا تذکرہ لے کر بیٹھ جائےں یا بیگم سے ڈرتے ڈرتے اپنے کسی پسندیدہ کھانے کی فرمایش کردےں، تو ان کے اہل خانہ کو اس امر میں کوئی شک وشبہہ نہیں رہتا کہ وہ اپنی موت کے بارے میں پہلے سے جانتے تھے۔

یہی معاملہ ”نور“ کا ہے۔ ہمارے یہاں کسی کے چہرے پر زندگی پر کتنی بھی پھٹکار رہی ہو، مرتے کے ساتھ ہی اس کا چہرہ نورانی ہوجاتا ہے۔ جذبات سے مغلوب لواحقین مردے کا چہرہ دل کی آنکھ سے دیکھ کر اس پر نور ہونے کا انکشاف فرماتے ہیں اور دیگر اہل جنازہ ”خیال خاطر احباب“ کے باعث سر ہلا ہلا کر اس نورانی انکشاف کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہمارا کئی بار ایسی صورت حال سے پالا پڑا جب مردے کا چہرہ دکھاتے ہوئے ہم سے کہا گیا ”دیکھیے کتنا نورہے“ اور ہم، اپنی کم عقلی اور ”پاکستانی آداب جنازہ “ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے، مردے کے چہرے کے بہ جائے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ ایسے میں برہم لواحقین یا تو چہرہ ڈھانپ دیتے ہیں یا ہمیں ہانک دیتے ہیں۔ ایک دفعہ تو غضب ہوگیا۔ ہوا یوں کہ ہمارے ایک عزیز فوت ہوگئے۔ مرحوم بہت نیک خصلت پولیس افسر تھے، اپنی پوری تن خواہ غریبوں کو دے دیتے تھے۔ کہتے تھے، نیکی کا کام میں حلال کمائی ہی سے کروں گا، چناں چہ انھیں میسر حلال کمائی کی طرح ان کی نیکیاں بھی بڑی محدود تھیں۔ اس محدود حلال کمائی کو چھوڑ کر موصوف نے اپنے ”پولیسیانہ“ جلال سے وہ کمال کمائی کی کہ اگر یہ مال ساتھ لے جاسکتے تو اپنی جنت آپ بنالینے پر قادر تھے۔

بہ ہرحال ہم اپنے ان عزیز کی میت کا آخری دیدار کررہے تھے کہ اچانک کسی نے عین ہمارے کان پر منہ رکھ کر ہچکیوں بھری آواز میں ”کتنا نور ہے“ کہا تو ہم ایک ساتھ چونک اور اچھل پڑے۔ اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں مرحوم کے چہرے کا دیدار کیا تو وہاں نور تو کجا کسی موہوم سی کرن کا بھی نام ونشان نہ تھا۔ بے اختیار نور کی تلاش میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ یکایک ہماری نظر مرحوم کی تیسری، آخری کم عمر ترین بیوہ پر جاٹکی اور ہم ان کے رخ روشن پر پھیلے نور سے روشنی کشید کرنے لگے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ ہمارے ایک بہی خواہ نے ”کیا کررہے ہو“ کہہ کر ہمیں ہمارے کمینے پن کا احساس دلادیا ورنہ مرحوم کے مرد لواحقین اگر ہماری یہ ”تعزیتی نظربازی“ دیکھ لیتے تو وہاں سے ایک کے بہ جائے دو جنازے اٹھ رہے ہوتے۔

ایک تو رموز تعزیت سے ناواقفیت کی وجہ سے جنازوں میں ہمارے لیے اظہارِغم دوبھر ہوتا ہے، دوسرے عجب اتفاق ہے کہ ہم نے اب تک جن جنازوں میں شرکت کی ہے، ان میں سے زیادہ تر ایسے اصحاب کے تھے جن کے کردار واعمال سے ہم اتنی اچھی طرح واقف تھے کہ انھیں اچھا کہنا ہمارے لیے زہرہلاہل کو قند کہنے کے مترادف تھا۔ اور اگر ہم طوعاً وکرہاً ایسا کرنا چاہتے بھی تو کوئی قابل تعریف پہلو ڈھونڈ نکالنا ہمارے لیے ممکن نہ تھا۔

ایک بار اس کوشش میں ہماری خاصی درگت بن چکی ہے۔ ہوا یہ کہ ہمارے ایک محلے دار چل بسے۔ یوں تو مرنے والوں کو برا کہنا کوئی اچھی بات نہیں، لیکن یہ مرحوم ان مرنے والوں میں شامل تھے جن کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہوئے لگتا ہے ”جیسے کوئی گناہ کیے جارہا ہوں میں
بہ ہرحال، میت کے گھر کے باہر بچھی دری پر دوسروں کی طرح ہم بھی غم زدہ منہ بناکر بیٹھ گئے۔ ایسے مواقع پر مردوں کے مثبت اوصاف کا تذکرہ ہوتا ہے۔ مگر وہاں تو مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ شاید ہماری طرح دیگر حضرات بھی اس فکر میں غلطاں تھے کہ مرحوم کے اوصاف میں سے ایسا کہاں سے لائیں کہ ”اچھا“ کہیں جسے! بالآخر بڑی سوچ بچار کے بعد ہم مرحوم کی شخصیت کا ایک قابل ذکر ”فوری بعد از موت“ پہلو تلاش کرنے میں کام یاب ہوگئے اور گویا ہوئے:
کبھی کسی کو بلاوجہ تنگ نہیں کیا، ہمیشہ پہلے کوئی وجہ تراشتے تھے، پھر تنگ کرتے تھے۔ “ ہمارا یہ ”کلمہ توصیف“ سن کر مرحوم کے صاحب زادے کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ آسماں کو یوں تکنے لگے جیسے وہاں محو سفر اپنے ”اباجی“ کو دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہے ہوں ”دیکھیں اباجی! آپ کی ایک خوبی دریافت ہوئی ہے۔

لیکن یہ تاثر زیادہ دیر قایم نہیں رہا، چند ساعتوں بعد جب ہمارے کلمہ توصیف کے معنیٰ ان کی سمجھ میں آئے تو وہ چونک اٹھے اور ”ابے کیا بک رہا ہے“ کہہ کر ہماری جانب لپکے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ لوگوں نے انھیں یہ کہہ کر روک دیا کہ لڑائی جھگڑے سے میت کو تکلیف ہوگی، ورنہ وہ تو ہمیں تکلیف دے کر میت بنادینے کے موڈ میں نظر آرہے تھے۔

ہمارے دوست دانا ہوشیار پوری کو نہ صرف اظہار تعزیت میں کمال حاصل ہے بل کہ تعزیتی کلمات ادا کرتے ہوئے وہ مردے میں ایسے ایسے اوصاف تلاش کرلیتے ہیں کہ اگر وہ مرحوم زندہ ہوں تو اپنے بارے میں یہ دل خوش کُن انکشافات سن کر شادی مرگ کا شکار ہوجائےں۔ دراصل دانا ہوشیار پوری صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا حکم رانوں، سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری حکام کے ساتھ ہے، جس کی وجہ سے انھیں جھوٹی تعریف پر پوری قدرت حاصل ہوگئی ہے۔ ابھی کچھ روز پہلے کی بات ہے۔ ہمیں دانا صاحب کے ساتھ ایک مرحوم سیاست داں کے تعزیتی جلسے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس سیاست داں کی سیاسی و نجی زندگی سے کوئی تعریفی پہلو ڈھونڈ نکالنا ہمارے ان بعض ثقہ کالم نگاروں کے لیے بھی ممکن نہیں تھا جو ذاتی تعلقات یا مفادات کی بنیاد پر فرعون کے لیے بھی کہہ سکتے ہیں:
وہ سیاست میں شرافت کے قائل ہیں۔ اپنے سیاسی مخالفین کو مشکلات کا شکار نہیں کرنا چاہتے۔ اس لیے انھیں پیدا ہوتے ہی ماردیتے ہیں۔ “ لیکن دانا صاحب نے اپنی تقریر میں اس سیاست داں کی زندگی سے توصیف کے وہ وہ پہلو نکال کر پیش کردیے کہ ہم ان کی نکتہ سنجی پر عش عش کراٹھے۔

فرمانے لگے، ”ارے صاحب! مرحوم میں کیا رواداری تھی، اپنے لیے سب کچھ روا سمجھتے تھے۔ وضع دار اتنے کہ اپنے سیاسی کیریر کے آغاز میں پارٹی کے مشکل وقت میں اسے چھوڑدینے کی جو روش اپنائی تو عمر بھر نبھائی۔ پرانے دوستوں کو کبھی نہیں بھولتے تھے، جو پارٹی بھی چھوڑی، اس میں دوبارہ دوتین بار ضرور شامل ہوئے۔ یوں تو وہ پورے پاکستان پر سوسو جان سے فدا تھے مگر اسلام آباد کے تو عاشق صادق تھے۔ کہتے تھے، ’میاں! ہم فقیروں کو حکم رانی سے کیا غرض؟ ہم تو ہر حکومت میں صرف اس لیے شامل ہوتے ہیں کہ اسلام آباد میں رہنا نصیب ہوجائے۔

سیاسی وفاداری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، کبھی کسی حکم راں جماعت سے بے وفائی نہیں کی۔ فن کے بے حد قدر داں تھے۔ خاص طور پر فلمی صنعت کے تو دل دادہ تھے۔ فلمی اداکاروں کے لیے ان کے دروازے ہر وقت، اور اداکاراوں کے گھر میں داخل ہونے تک کھلے رہتے تھے۔ خواتین کا بہت احترام کرتے تھے۔ ان کے آدمی جب بھی کسی نوخیز ماڈل گرل یا ہیروئن کو اغوا کرکے لاتے۔ اس کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ بیواوں اور مطلقہ خواتین سے خاص ہم دردی تھی۔ ایسی خواتین کی شادی کے لیے فکر مند رہتے۔ کسی اور پر اعتبار نہیں تھا، اس لیے ایسی خواتین کو خود ہی اپنالیتے تھے۔ بیوہ سے شادی کو بہت بڑی نیکی تصور کرتے تھے، چناں چہ کئی خواتین کو بیوہ کرواکے اپنے عقد میں لے آئے۔ ان کے بعض قریبی دوستوں کا تو یہ کہنا ہے کہ مرحوم نے مرنے کے بعد چار بیوائیں ضرور چھوڑیں، مگر اپنی زندگی میں اپنے ارد گرد کوئی بیوہ نہیں چھوڑی، کیوں کہ نیکی چھپاکر کرنے کے قائل تھے اس لیے ایسی تمام شادیاں سات پردوں میں چھپا کر رکھیں۔

اپنے ادوار وزارت میں پوری دیانت داری کا مظاہرہ کیا اور کمیشن اور کک بیکس کی رقوم ایمان داری کے ساتھ سیکریٹریوں میں تقسیم کرتے رہے۔
دانا ہوشیار پوری صاحب کی یہ ”مدح سرائی“ سن کر ہم نہ صرف ان کے ممدوح کے اوصاف حمیدہ پر ایمان لے آئے بل کہ ہمیں تعزیت کا سلیقہ بھی آگیا ہے۔
 محمد عثمان جامعی

No comments:

Post a Comment