Tuesday, November 30, 2010

مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب داری اور اس کے محرکات

  • بلاشبہ مغربی ذرائع ابلاغ آزاد اور معروضی ہیں مگر اسلام اورمسلمانوں کے سلسلے میں نہیں۔ اسلام اورمسلمانوں کے حوالے سے وہ اپنی حکومتوں کے قیدی اوراپنی تاریخ کے زندانی ہیں۔

یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ بی بی سی ورلڈ کے بصری افتتاحیے میں عیسائیوں کی صلیب ‘یہودیوں کا ڈیوڈ اسٹار اورکئی دوسرے مذاہب کی مذہبی علامتیں استعمال ہوئی تھیں۔ بعض مسلمانوں نے یہ بات نوٹ کی کہ اس بصری مواد میں اسلام کا ہلال نہیں ہے۔ انہوں نے بی بی سی کے ذمے داروں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی اورسوال اٹھایا کہ بی بی سی ورلڈ کے بصری افتتاحیے میں اسلام کی مذہبی علامت کیوں موجود نہیں۔؟ بی بی سی ورلڈ کے ذمہ داروں نے پہلے تو اس سوال کا جواب دینے کی زحمت ہی نہیں کی لیکن جب سوال پراصرار کیاگیا تو انہوں نے صاف کہاکہ ہم اپنے بصری افتتاحیے میں اسلام کے بلاک کو استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے بعض ناظرین اس سے ناراض Offend ہوتے ہیں۔
یہ 11 ستمبرسے پہلے کا واقعہ تھا اور 11 ستمبرکے بعد اس حوالے سے صورتحال بہترہونے کے بجائے مزید خراب ہوئی ہے۔ برطانیہ کے ممتاز صحافی رابرٹ فسک نے پشاور میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس سلسلے میں ایک مثال دی ہے اور کہاہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کا بیشتر حصہ اسرائیل اورفلسطینیوں کے معاملات کو رپورٹ کرتے ہوئے غیرجانبدار اور معروضی نہیں رہ پاتا۔ رابرٹ فسک کے بقول فلسطین ایک مقبوضہ علاقہ یا Occupied Territory ہے لیکن مغربی ذرائع ابلاغ کی عظیم اکثریت اسے متنازعہ علاقہ یعنی Disputed territory کہتی ہے۔ اسرائیل نے فلسطین کی سرزمین پر جو دیواربنائی ہے وہ محاصرے کی علامت ہے مگر مغربی ذرائع اسے حصاریا Fence کہتے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل مقبوضہ عرب علاقوں میں جوآبادیاں‘ یاColonies تخلیق کررہاہے انہیں عارضی آبادیاں یا Settlements قراردیاجاتاہے۔
رابرٹ فسک نے مغرب میں مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے تعصب کا ذکرکرتے ہوئے بتایاکہ وہ ڈبلن میں ایک مذاکرے میں شریک تھے کہ مذاکرے میں شامل ایک مغربی باشندے نے اعلان کیا کہ مسلمان مغرب کے لیے خطرہ ہیں۔رابرٹ فسک نے اس شخص کو یاددلایا کہ اس وقت مسلمانوں کی افواج مغربی ملکوں پر قابض نہیں ہیں بلکہ مغربی ملکوں کی افواج عراق‘ کویت ‘قطر‘ سعودی عرب‘ افغانستان‘ کرغستان اور بوسنیا سمیت کئی مسلم ملکوں پرقابض ہیں۔ رابرٹ فسک نے اعتراف کیاکہ ایک وقت تھا کہ وہ خود بھی مسلمانوں کے سلسلے میں غیرجانبدارنہیں تھے۔ 
مغربی دنیا کی تاریخ کا مطالعہ بتاتاہے کہ یورپی اقوام نے گزشتہ چارسوسال کے دوران آپس میں 2600 سے زائد جنگیں لڑی ہیں۔ ان میں دوعالمی جنگیں بھی شامل ہیں جن میں سات کروڑ سے زائد افراد ہلاک اور 14 کروڑ سے زائد زخمی ہوئے۔ دوعالمی جنگوں سے ہونے والے مادی نقصان کا اندازہ بھی دشوارہے۔ مگریورپ کی اقوام اس وقت ان جنگوں اور ان کی تاریخ ونفسیات کو پھلانگ کر کھڑی ہیں۔ اس کا ثبوت 28 ارکان پرمشتمل یورپی اتحاد ہے جو ایک تہذیب اور ایک تاریخ کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ایک کرنسی اور ایک مستقبل کی جانب بڑھ رہاہے کمال کی بات یہ ہے کہ جولوگ 2600 جنگوں کو بھول سکتے ہیں وہ لوگ مسلمانوں کے سلسلے میں ایک صلیبی جنگ کو فراموش کرنے پرتیارنہیں۔ جولوگ 2600 جنگوں کی تاریخ اور نفسیات کو پھلانگ سکتے ہیں ان سے صرف ایک جنگ اور اس کی نفسیات نہیں پھلانگی جارہی لیکن یہ اس سلسلے کا واحد پہلو نہیں ہے۔
اس سلسلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یورپ اور مسلمانوں کے درمیان صلیبی جنگیں ہوئی تھیں تو یورپ کٹرعیسائی تھا۔ یورپ عیسائی رہتا تو مسلمانوں کے سلسلے میں اس کا رویہ قابل فہم ہوتا۔ لیکن یورپ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیکولر ہوتا چلاگیا اور آج یورپ کا حال یہ ہے کہ دی اکنامسٹ کے ایک سروے کے مطابق مغربی یورپ کا تقریباً 70 فیصد کسی خدا اور کسی مذہب کا قائل نہیں جبکہ مشرقی یورپ کا تقریباً 80 فیصد کسی خدا اور کسی مذہب پر ایمان نہیں رکھتا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ یورپ کا مذہب مرگیا مگر اس کا مذہبی تعصب نہیں مرا۔ زیربحث موضوع کا ایک زاویہ یہ ہے لیکن اس معاملے کی ایک جہت اور بھی ہے۔
مغربی دنیا اور اس کے ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے سلسلے میں غیرمعروضی رویہ اختیارکرکے اس ظلم پر پردہ ڈال دیتے ہیں جو مغربی اقوام نے گزشتہ دوسوسال میں مسلم دنیا پر کیاہے۔ مغربی دنیا اور اس کے ذرائع ابلاغ اگر معروضی یا Objective ہوجائیں تو انہیں گزشتہ دوسوسال کی تاریخ اور اس کے حقائق کو تسلیم کرنا یا Own کرنا پڑے گا۔ اور اگر مغربی اقوام ایسا کریں گی تو وہ خود کو درندہ اور وحشی ثابت کرنے کے سوا کچھ کرہی نہیں سکیں گی۔ اس مسئلے کا حل اہل مغرب نے یہ نکالاہے کہ نہ ہم بدلیں گے نہ اپنے جرائم کے اعتراف پرمجبورہوں گے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ مغرب کی اس روش میں حیرانی کی کیا بات ہے۔ خود مسلم دنیا میں بھی مغرب کے بارے میں جھوٹ بولاجاتاہے۔ اور یہ بات ایک حدتک درست ہے لیکن اس سلسلے میں مسلم دنیا اور مغرب کے درمیان ایک بہت بڑا فرق ہے۔ مسلمان لاعلمی یا کم علمی کی وجہ سے مغرب کے خلاف جھوٹ بولتے ہیں مگر مغرب کامل علم کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف دروغ گوئی کرتاہے۔ 

No comments:

Post a Comment