گلوبلائزیشن کے دورمیں میڈیاکا کردار انتہائی اہم نازک اورحساس نوعیت اختیارکرچکاہے۔ کسی زمانے میں اسے ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا تھا ۔غالباً یہ وہ دورتھا جب اطلاعات کی فراہمی کا واحد ذریعہ پرنٹ میڈیاتھا مگرانفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترویج وفروغ کمپیوٹرکلچرکی مقبولیت‘ الیکٹرانک میڈیاکے پھیلاﺅکے باعث ٹی وی اورایف ایم ریڈیوچینلزحکومت کی پالیسی سازی سے لے کر عوام کی رائے کی تشکیل اور انتخابات کے موسم میں امیدواروں کی تقدیربنانے ‘سنوارنے اوربگاڑنے میں مرکزی اورکلیدی کردار کے حامل پروفیشنل اداروں کی حیثیت اختیارکرگئے ہیں۔ امریکا میں توڈیموکریٹ اور ری پبلکن پارٹیوں کے لئے الیکشن کی جیت اورہارکا انحصارہی الیکٹرانک میڈیا کے موڈپرہوتاہے بلکہ اگریہ کہہ دیاجائے کہ امریکا میں انتخابی مہم کی کامیابی اورناکامی کا فیصلہ ہی الیکٹرانک میڈیاکرتاہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ پرنٹ کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیاکے طاقتورکردارکا اندازہ حال ہی میں سپرطاقت کے مقتدرصدربش کی اس ہزیمت اور خفت سے بخوبی لگایاجاسکتاہے جوالیکٹرانک میڈیا نے بغداد میں ان کو جوتے کے الوداعی بوسے کی ”کلپس“ کے ذریعے دنیا کو بارباریاددلائی۔ اس وقت الیکٹرانک میڈیارائے عامہ کے اظہارکا نہایت طاقتورمیڈیاکی صورت اختیارکرگیا ہے اوروزیر اطلاعات ونشریات محترمہ شیری رحمان نے حال ہی میں الیکٹرانک میڈیا یعنی نجی ٹی وی چینلزکی نمائندہ تنظیم پاکستان براڈکاسٹرزایسوسی ایشن (پی بی اے) کے وفدسے ملاقات کے دوران میڈیا چینلزکی دنیاکو بجا طورپر ایک صنعت کا درجہ قراردیتے ہوئے اس کی ترقی اور فروغ کے لئے حکومت کی جانب سے ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی اب یہ بات دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ آزادی اظہارپیپلزپارٹی کے منشور اساسی نکتہ ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ واحد جماعت ہے جس کے بانی قائد شہیدذوالفقارعلی بھٹو نے عوام کسانوں‘ ہاریوں‘ اقلیتوں‘ خواتین غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں کے محروم اور مظلوم عوام کو بولنے اور اپنے حقوق کے اظہارکے لئے زبان دی۔ جمہوری حکومت کا مطلب ہی جمہور یعنی عوام کی آزادی اوران کی ترقی اورخوشحالی کے لئے کھلے ماحول کی فراہمی ہے جبکہ اس کے برعکس آمریت یا آمرانہ حکومت کا مطلب ہی تمام حقوق بشمول آزادی اظہارکو سلب کرناہے۔ آمرجب برسراقتدارآتاہے تو وہ سب سے پہلے ٹی وی اسٹیشن یعنی الیکٹرانک چینلزپر قبضہ کرتاہے۔ پریس پر سنسرشپ عائدکرتاہے میڈیاکی آزادی سلب کرنا اور اس کا گلہ گھونٹنے کا نام آمریت ہے جبکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو آمرانہ گھٹن اورغلبے سے نجات دلانے کا نام جمہوریت ہے جمہوری حکومت میڈیاکو اپنے کان آنکھ اورہاتھ تصورکرتی ہے۔ وہ اس سے نہ صرف عوام کی رائے کا اندازہ لگاتی ہے بلکہ اپنی تمام پالیسیوںکی کامیابی کے لئے مثبت تشہیرکا ذریعہ تصورکرتی ہے۔ جمہوریت اور میڈیاکا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ وزیراطلاعات شیری رحمان نے بجاطورپر الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ اورخوشگوار تعلقات کے قیام پر فخر اور مسرت کا اظہارکیا۔ انہوں نے وفدکے ارکان کو یاددلایا کہ ماضی کے آمرنے 3 نومبر 2007ءکے منی مارشل لاءمیں جہاں عوام کے حقوق دوبارہ غصب کرلئے تھے وہاں اس نے الیکٹرانک میڈیا کا گلہ گھونٹنے کے لئے ملکی تاریخ میں پہلی بارکالے قوانین نافذ کئے جن کے تحت کسی بھی الیکٹرانک میڈیا ہاﺅس اورکیبلز آپریٹرزکی تنصیبات کو اپنے قبضے میں لینے کے ساتھ ساتھ ان کے مالکان کو گرفتارکرکے قید اورجرمانے کی سزائیں دینے کا اعلان کیامگرموجودہ جمہوری حکومت نے آتے ہی ان تمام کالے قوانین کوبیک جنبش قلم منسوخ کردیا اور بانی قائد شہید بابا اور ان کی بیٹی شہید بے نظیربھٹو کی آزادی اظہار اورجمہوری اقدارکے فروغ کے مشن کے تحت الیکٹرانک میڈیاکو ملک کی ترقی خوشحالی اورجمہوری اداروں کے استحکام کے لئے بھرپور آواز بلند کرنے کی مکمل آزادی دے دی۔ اس ضمن میں وزیراطلاعات محترمہ شیری رحمان کے اس دعویٰ میں مکمل سچائی پائی جاتی ہے کہ9 ماہ کے جمہوری دورحکومت میں 60 سے زائد نجی ٹی وی چینلزمکمل آزادی کے ساتھ اپناکام کررہے ہیں اورحکومت نے کسی ایک چینل کوبھی بندنہیں کیا۔ چندماہ قبل کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل کی نشریات میں معمولی سا خلل واقع ہوا جوکیبل آپریٹرزکی جانب سے فنی شرارت کا نتیجہ تھا جس کا حکومت نے فوری طورپر نوٹس لیا۔ میڈیا کی آزادی کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ نجی ٹی وی چینلز اپنے فورمزمذاکروں اورمباحثوں میں اپوزیشن ارکان کا نکتہ نظرمکمل کھل کر بیان کررہے ہیں۔ معزول چیف جسٹس کے دورے اور ان کی تقاریر براہ راست دکھائی جارہی ہیں۔ وزیراطلاعات اس امرپرخوشی کا اظہارکرنے میں حق بجانب ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا کی سوچ ‘ اپروچ انتہائی مثبت اور حب الوطنی پرمبنی ہے اورحکومت اورالیکٹرانک میڈیا ہاﺅسزکے درمیان انتہائی دوستانہ اورخوشگوار تعلقات قائم ہیں اورجمہوری اداروں کے استحکام کے لئے حکومت اور الیکٹرانک میڈیا میں ورکنگ ریلیشن شپ مثالی اورقابل فخرہے۔
انہوں نے الیکٹرانک میڈیا کے ذمہ دارانہ کردارکوکھل کر داد دی اور پی بی اے کی جانب سے رضاکارانہ طورپر اپنے لئے خود ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کے اقدام کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا یہ اعلان واقعی جمہوری اقدارکی پاسداری کا عکاس ہے کہ حکومت الیکٹرانک میڈیا پرکوئی ضابطہ اخلاق زبردستی مسلط کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی بلکہ وہ اس ضمن میں سہولت کارکا کرداراداکرنے کو اپنے لئے اعزاز اور فخرکی بات تصورکرے گی۔ انہوں نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ تمام ارکان کو مکمل سیکورٹی اورتحفظ فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی جسے پی بی اے کے وفد نے بجاطورپر سراہا۔
مرتضیٰ محسن
No comments:
Post a Comment