عین عنفوان شباب میں مغرب سے اعلیٰ تعلیم پانے کے باوجود اقبال اپنی پوری زندگی اسلام کے شیدائی رہے اور اپنی شاعری میں جابجا قرآن پاک کے حوالہ جات دے کر نہ صر ف امتِ مسلمہ کو اس کی عظمت ِرفتہ کا احساس دلانے کی کوشش کی، بلکہ اسلامیانِ ہند کو روشنی کی ایک ایسی کرن دکھائی کہ وہ انگریز کا طوقِ غلامی اتار پھینکنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اقبال اسلام کے سچے پرستار اور حُبِّ رسول سے سرشار تھے، چنانچہ ان کا کلام ہمیں قرآن و حدیث سے پوری طرح معمور نظر آتا ہے۔ فلسفے کی گہرائیوں پر عبور حاصل کرنے کے باوجود اقبال مذہب سے انتہائی متاثر تھے۔ قرآنِ عظیم سے ان کو خصوصی شغف تھا۔ وہ بچپن سے بلند آواز سے تلاوتِ قرآن کے عادی تھے اور تلاوت کے دوران آیات کے موضوعات کی مناسبت سے ان پر رقت و خوشی طاری ہوجاتی تھی۔ وہ عمل کی بنیاد ایمان اور نیت کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے تھے، ظواہر ان کے نزدیک معتبر نہ تھے۔ ان کی نظر افعال کے بجائے انسان کے ایقان و اعتقاد پر ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بیک وقت حکیم الامت اور شاعر مشرق کہلائے۔
اقبال کو قرآن پاک سے عشق تھا، چنانچہ ان کا تقریباً ہر شعر قرآن پاک کی کسی نہ کسی آیت سے منسوب ہے
اسے صبحِ ازل انکار کی جرا ¿ت ہوئی کیوں کر
مجھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا
اس شعر میں اقبال نے مندرجہ ذیل آیات کی طرف اشارہ کیا ہے:
”اور جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں لیس دار گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں، چنانچہ جب میں اسے بنا لوں اور اس میں روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سرنگوں ہوجاﺅ۔ سو سارے کے سارے فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے اس سے انکارکیا کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل ہو“۔
صبحِ ازل جو حسن ہوا دلستان عشق
آواز کن ہوئی تپش آموز جان عشق
مندرجہ بالا شعر میں اس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے: ”وہ (اللہ تعالیٰ) جب کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو کہہ دیتا ہے کہ ہوجا،اور وہ ہوجاتی ہے“۔
قرآن پاک کی ایک اور آیت ”ہم نے یہ امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی، چنانچہ ان سب نے اس سے انکار کیا کہ اسے اٹھائیں، اور وہ اس سے خوفزدہ ہوئے اور انسان نے اسے اپنے ذمے لے لیا، بیشک وہ بڑا ظالم ہے بڑا جاہل ہے“ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ
میرے بگڑے ہوئے کاموں کو بنایا تُو نے
بار جو مجھ سے نہ اٹھا، وہ اٹھایا تُو نے
اسی آیت سے اقبال کا مندرجہ ذیل شعر بھی منسوب ہے
سختیاں کرتا ہوں دل پر، غیر سے غافل ہوں میں
ہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں، جاہل ہوں میں
عظمت ِآدم سے متعلق قرآنی آیت”اور ہم نے بنی آدم کو عزت دی ہے اور ہم نے انہیں خشکی اور دریامیں سوار کیا اور ہم نے ان کو خوبصورت چیزیں عطا کیں اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر بڑی فضیلت دی ہے“ کے حوالے سے اقبال کہتے ہیں
جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیوں کر ہوا
ایک اور شعر میں علامہ اقبال دو مختلف آیات یعنی ”ہم نے آپ کو کوثرعطاکی“ اور ”اس کی آمیزش تسنیم سے ہوگی وہ چشمہ جس سے مقرب بندے پئیں گے“ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں
آتی ہے ندا فراز کوہ سے گاتی ہوئی
کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی
تخلیقِ آدم کے حوالے سے قرآن پاک کی اس آیت ”اور ہم نے کہا اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں جہاں سے چاہو خوب کھاﺅ لیکن اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ تم گنہگاروں میں سے ہوجاﺅ گے، پھر شیطان نے دونوں کو بہکایا اور اس درخت کے باعث جنت سے نکلوایا“ کا احاطہ مندرجہ ذیل شعر میں کیا ہے
شجرہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمراس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو
اقبال نے قرآن پاک میں موجود پیغمبروں کے ذکر کو بھی جابجا موضوع سخن بنایا ہے۔ مثلاً اس آیت ”ہم نے حکم دیا اے آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا، حق میں، اور لوگوں نے ان کے ساتھ برائی کرنا چاہی تھی لیکن ہم نے ان لوگوں کو ناکام کردیا“ میں نمرود کی طرف سے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈالے جانے کے حوالے سے اقبال کا یہ شعر زبان زد عام ہے
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
مندرجہ ذیل شعر میں اقبال نے حضرت عیسیٰ ؑ کے حوالے سے قرآن پاک کی ان آیات ”اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو مارڈالا جو مسیح اور اللہ کے پیغمبر تھے حالانکہ وہ آپ کو مار سکے نہ سولی چڑھا پائے بلکہ ان پر شبہ ڈال دیا گیا، اور یہ لوگ آپ کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں، وہ آپ کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں ، وہ لاعلم ہیں، ہاں بس گمان کی پیروی ہے اور یقینی بات ہے کہ انہوں نے آپ کو مار نہیں ڈالا بلکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا“ کا احاطہ کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں
کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا
کیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے
حضرت موسیٰؑ کے حوالے سے اس آیت ”اور تم اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دے لو، وہ بلا کسی عیب کے روشن ہوکر نکلے گا” کو موضوعِ سخن بناتے ہوئے اقبال کہتے ہیں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
حضرت موسیٰؑ کا ذکر کرتے ہوئے اقبال نے اس آیت ”اور جب موسیٰ ہمارے وقت پر آگئے اور ان سے ان کا پروردگار ہم کلام ہوا، موسیٰ بولے: اے میرے پروردگار! مجھے اپنا جلوہ دکھا کہ میں تمجھے ایک نظر دیکھ لوں، اللہ نے فرمایا تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے“ کے حوالے سے مندرجہ ذیل اشعار کہے ہیں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلہ کیوں کر ہوا؟
کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا
چھپایا نورِ ازل زیر آستیں میں نے
اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی
نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کے بارے قرآنی آیت ”پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی جانب“ کے حوالے سے اقبال کا کہنا ہے
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفےٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے افلاک
معراج النبی کے حوالے سے ہی اس آیت ”اور انہوں نے اس فرشتے (جبرائیل) کو ایک باراور بھی دیکھا ہے سدرہ المنتہیٰ کے قریب“ کا احاطہ کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں
تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا
طائر سدرہ آشنا ہوں میں
الغرض اقبال کو قرآن و حدیث سے اس قدر عشق تھا کہ آخری ایام میں جب بیماری انتہا کو پہنچی ہوئی تھی تو کسی خوش الحان قاری کی زبانی تلاوت سن کر ان پر رقت و لرزش طاری ہوجاتی تھی
No comments:
Post a Comment