معاشرہ ٹھیک اپنے ہیروز کی طرح ہوتا ہے۔ جیسے ہیروز ہوتے ہیں معاشرہ ویسا ہی ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ ہے۔ ہیروز چا`ور معزز ہوجاتا تھا، اور وہ کسی کی ہجو یا مذمت کردیتے تھے تو وہ معاشرے میں بدنام اور بے عزت ہوجاتا تھا۔ چنانچہ معاشرے میں شاعر ہونا بڑی بات بن گئی تھی۔ ہر کوئی یا تو شاعر ہونا چاہتا تھا یا شاعر سے اپنی تعریف کرانا چاہتا تھا۔ اس فضا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی دیکھتے مرکزیت حاصل کرلی۔ معاشرے کی تبدیلی کا عمل شروع ہوگیا، بتوں کو پوجنے والا معاشرہ خدا مرکز معاشرہ بن گیا۔ شاعروں کے پجاری شمع رسالت کے پروانے بن گئے۔ بات بات پر لڑنے والے باہم شیر و شکر ہوگئے۔ قبائلی ذہنیت کی جگہ اسلامی ذہنیت نے لے لی۔ دنیا کے طالب آخرت کے دیوانے بن گئے۔ شاعری، سرداری اور دولت تقوے اور علم کے آگے سرنگوں ہوگئے۔ رسالت کے نمونے اور نبوت کے مثالیے یا Ideal نے ہر دوسرے نمونے اور مثالیے پر غلبہ پالیا۔ معاشرہ متغیر ہوگیا، اس کے خیر و شر تبدیل ہوگئے، اس کی سمت یکسر بدل گئی۔
برصغیر کے معاشرے میں تین طبقات سے ہیروز فراہم ہوئے۔ علماءاور صوفیائے کرام کے طبقے سے، شاعروں اور ادیبوں کے طبقے سے، اور سیاست دانوں کے طبقے سے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی ساری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر انہی لوگوں کی مہر لگی ہوئی ہے۔ برصغیر میں جہاد کی تمام تحریکات علما اور صوفیائے کرام کی رہین منت تھیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کی تخلیقی زندگی پر شاعروں اور ادیبوں اور ان طبقات سے فراہم ہونے والے صحافیوں کا گہرا اثر ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی بصیرت کا بلند ترین نقطہ ہیں۔ ان کی بصیرت اور تدبر کے بغیر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست وجود میں آسکتی تھی نہ کروڑوں مسلمانوں کی قلب ِماہیت ہوسکتی تھی۔
افغانستان کے منظرنامے کو دیکھا جائے تو اقبال کے الفاظ میں افغانستان کا دائمی ہیرو ”ملاّ“ ہے۔ ملاّ کی اہمیت یہ ہے کہ اقبال نے کہا ہے:
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو
اس تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان کی سرزمین سے ہر دور میں بڑے بڑے ”ملاّ“ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد سے افغانستان کو سب سے بڑا ملاّ گلبدین حکمت یار کی صورت میں فراہم ہوا۔ امریکہ کے خلاف جہاد سے ملا عمر برآمد ہوئے۔ اقبال نے بڑی قوت اور شوکت سے کہا ہے
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تُو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی
دیکھا جائے تو اقبال کے اس مثالیے یا Ideal کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سامنے آنا چاہیے تھا۔ مگر اقبال کا یہ Ideal ملا عمر کی صورت میں افغانستان میں طلوع ہوا اور ہمیشہ کے لیے تاریخ پر اثرانداز ہو گیا۔
افغانستان میں امریکہ اور ناٹو کی شکست اتنی بڑی خبر ہے کہ اسامہ کی کامیابی حد درجہ مبالغہ آمیز محسوس ہوتی ہے اور ناپختہ ذہنوں کو اس میں بھی امریکہ کا ہاتھ نظر آتا ہے۔
پاکستان علمائ، شاعروں، ادیبوں اور مدبر سیاست دانوں کا ورثہ تھا۔ اس کی تخلیق بے مثال تھی۔ پاکستان کا دوسرا نام امکان تھا۔ پاکستان کو اپنے آغاز کے ساتھ ہی اپنا ہیرو فراہم ہوگیا تھا۔ اس ہیرو کا نام سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ تھا۔ مولاناؒ کی شخصیت میں عالم، ادیب اور مدبر سیاست دان جمع ہوگئے تھے۔ ان کے پاس عالم کا علم اور تقویٰ تھا۔ ادیب کی زبان اور اسلوب تھا۔ مدبر سیاست دان کی نظر اور عملیت تھی۔ ہیرو کی ایک پہچان یہ ہے کہ اس کی فکر اور شخصیت معاشرے کو بدلتی ہے، Transform کرتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کی ایک عظمت یہ ہے کہ انہیں کسی خانقاہ یا مکتبہ فکر کے متاثروں کا حلقہ فراہم نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے متاثرین خود پیدا کیے۔ انہوں نے جدید تعلیمی اداروں میں ایسے اسلام پسند نوجوانوں کا دریا رواں کیا جس نے جدید تعلیمی اداروں کی تاریخ کا رخ بدل دیا۔ آج عالم اسلام میں جہاد کا جتنا غلغلہ ہے وہ سب مولانا کی دین ہے۔ سودی معیشت کے خلاف پاکستان میں جو مزاحمت ہے اس میں مولانا مودودیؒ کا بڑا حصہ ہے۔ پاکستانی معاشرے میں پردے کا جو رجحان ہے اس کا بڑا حصہ مولانا کی فکر کا حاصل ہے۔ پاکستان کے اسلامی آئین کی تشکیل میں مولان کا کردار بنیادی ہے۔ علمی دنیا میں مغرب کی جو تنقید ہے اس پر مولانا کی فکر کا گہرا اثر ہے۔ 1970ءتک مولانا کا سیاسی وزن بھی بہت تھا۔ جن لوگوں کو اس وزن کا اندازہ کرنا ہو انہیں 1970ءکے انتخابات میں جماعت اسلامی کو ملنے والے ووٹوں کا شمار کرنا چاہیے۔ لیکن افسوس مولانا کی فکر اور شخصیت کا پیدا کردہ تغیر آگے نہ بڑھ سکا اور پاکستانی معاشرہ اس طرح نہ بدل سکا جس طرح وہ مولانا کی فکر، شخصیت اور پارٹی کے زیراثر بدل سکتا تھا۔
اس کی وجہ ہے۔اس وجہ کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو اسے مارشل لا کے تسلسل کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ جنرل ایوب خان نے 1958ءمیں جب پہلا مارشل لا نافذ کیا تو انہوں نے صرف سیاست کی باگ ڈور ہی فوج کے ہاتھ میں نہیں دی، انہوں نے معاشرے کے فطری اور اپنے ورثے کے مطابق ارتقا کو بھی سبوتاژ کردیا۔ انہوں نے پاکستان کے تہذیبی، تاریخی، اخلاقی، علمی اور سیاسی طرزوں یا Patterns کو ادھیڑ ڈالا اور ان تمام چیزوں کے خلا کو صرف ایک چیز سے پُر کرنے کی کوشش کی: طاقت سے۔ ڈنڈے کی طاقت سے۔
جنرل ایوب کے مارشل لا کے ساتھ ہی پاکستانی معاشرے میں طاقت نے مرکزیت حاصل کرنا شروع کردی جسے جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا نے مزید تقویت فراہم کی۔ بلکہ جنرل ضیاءکے دور سے طاقت کے ساتھ دولت بھی آکھڑی ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان چیزوں نے اقدار کی حیثیت حاصل کرلی اور معاشرہ کسی اعلان کے بغیر انہیں بت کی طرح پوجنے لگا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن.... پاکستانی معاشرے کا بڑا حصہ طاقت اور دولت کے مثالیوں یا Ideals کے زیراثر ہے۔
مولانا مودودیؒ کے بعد پاکستانی معاشرے نے اپنا ایک اور چھوٹا سا ہیرو پیدا کیا۔ دنیا اس ہیرو کو ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے جانتی ہے۔ بدقسمتی سے بھٹو صاحب نہ عالم تھے، نہ شاعر و ادیب تھے۔ وہ مدبر بھی نہیں تھے۔ وہ صرف سیاست دان تھے۔ لیکن انہوں نے ایک حد تک اپنے متاثرین خود پیدا کیے۔ معاشرے کے لیے ان کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ ان کی وجہ سے معاشرے میں ایک نظریاتی کشمکش برپا تھی۔ یہ کشمکش آگے بڑھتی تو مولانا مودودیؒ کی برپا کی ہوئی فکر اور ان کے پیدا کردہ عمل کو بڑا فائدہ ہوتا، مگر جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا نے نظریاتی کشمکش تو کیا اس کے خیال کو بھی دفن کردیا اور پاکستانی معاشرہ تیزی کے ساتھ طاقت اور دولت کی اقدار، غیر نظریاتی سیاست، صوبائیت اور لسانیت کی عصبیتوں کی طرف دوڑنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی معاشرے میں ہیروز کا بحران سنگین ہوگیا اور کم از کم پاکستانی سیاست ہیرو کی ضد یا Anti Hero کی نذر ہوگئی۔ جنرل پرویزمشرف پاکستانی سیاست میں Anti Hero کی سب سے بڑی مثال ہیں اور آصف زرداری جنرل پرویز کا تسلسل ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں نظریاتی کشمکش کے خاتمے کے بعد تین نئے ہیرو ابھرے:(1) بدعنوان، متعصب مگر کامیاب سیاست دان(2) اداکار(3) کھلاڑی
اس صورت ِحال کا مفہوم عیاں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب معاشرے کی اکثریت کو اگر عظمت درکار ہے تو بدعنوان اور متعصب سیاست دان، اداکار اور کھلاڑی کی۔ اسے کمال درکار ہے تو انہی لوگوں کی سطح کا۔ اسے شہرت درکار ہے تو سیاست دان، اداکار اور کھلاڑی کی۔ یہاں تک کہ اسے دولت کی بھی حاجت ہے تو انہی لوگوں کی دولت کی۔
اس صورت حال پر ایک اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ اداکار اور کھلاڑی تو 1940، 1950 اور 1960 کی دہائی میں بھی اہم تھے اور معاشرہ انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتا تھا۔ بلاشبہ اداکار اور کھلاڑی 1940 اور 1950کی دہائیوں میں بھی اہم تھے مگر اُس وقت لوگ حقیقی زندگی اور فلمی زندگی اور ان کے ہیروز کے فرق سے واقف تھے۔ مگر اب اداکار اور کھلاڑی حقیقی زندگی کے بھی ہیرو بن گئے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ فلم اور کھیل اُس وقت زندگی کا ایک پہلو تھے، مگر اب پوری زندگی بن گئے ہیں۔ چنانچہ ان کے ہیروز بھی ہماری پوری زندگی پر حاوی ہوگئے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو بدعنوان اور متعصب سیاست دانوں، اداکاروں اور کھلاڑیوں میں ایک قدر مشترک ہے: تفریح یا Entertainment۔ تینوں Entertainer ہیں۔ سیاست دان سطحی، اتھلے اور سفلی خیالات کے Entertainer ہیں۔ اداکار سطحی، اتھلے اور سفلی جذبات کے Entertainer ہیں اور کھلاڑی سطحی جسمانی کمال کی خواہشوں کے Entertainer۔
مذہب، تہذیب اور تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک مکمل طور پر غیر مذہبی، غیر اخلاقی، غیر تہذیبی اور غیر تاریخی صورت حال ہے، اور طاقت و دولت کی اقدار اپنے ہیروز کی قوت اور کشش کے ذریعے پورے معاشرے کو ہلاک کیے دے رہی ہیں۔ معاشرے کے ہیروز تبدیل نہ ہوئے تو نئے معاشرے کے نئے ہیروز معاشرے کے اس حصے کو بھی بدل دیں گے جو ابھی تک حقیقی ہیروز کے زیراثر ہے۔ فراق کا شعر ہے
اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں
شکریہ: جسارت
No comments:
Post a Comment