Wednesday, December 1, 2010

قومی امتحان: پی ایچ ڈی میں کمی کا رجحان

1857 ءکی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے برصغیر کے مسلمانوں پر شدید مظالم ڈھائے اور انہیں ہر شعبہ کے ساتھ تعلیم کے شعبہ میں بھی بے بہرہ رکھا خود مسلمان بھی انگریزی اور مغربی علوم سیکھنے سے گریزاں رہے۔ جبکہ ہندوﺅں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں کے ساتھ مل کر انگریزی کی تعلیم حاصل کی اور ہر شعبہ میں چھاگئے۔ اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے سرسید احمد خان نے اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی جسے بعد میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا درجہ ملا۔ سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو انگریزی تعلیم سے روشناس کرایا اور علی گڑھ کے طلباءنے پاکستان کی تحریک کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ علم ایسا بیش بہا خزانہ ہے جسے نہ تو چور چرا سکتا ہے اور نہ ہی وہ استعمال کرنے سے کم ہوتا ہے۔ حضور اکرم کا ارشاد گرامی ہے کہ مہد سے لے کر لحد تک علم کی تلاش میں لگے رہو ۔ عربی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں اس کے لیے چین جانا پڑے۔ یہ حقیقت ہے کہ علم ہی ایک ایسی قوت ہے جو دنیا کی تمام قوتوں سے بڑھ کر ہے اس کو زوال نہیں۔
بدقسمتی سے ہمیں جو تعلیم انگریزوں سے وارثت میںملی ہے وہ درحقیقت ایک ایسانظام تعلیم تھا جس میں اچھے کلرک اور دفتری امور کے فرائض انجام دینے والے ان اشخاص کی ضرورت تھی جو صاحب بہادر کی منشاءکے مطابق کام کریں لیکن اعلیٰ سول افسران ”معزز جج صاحبان“ سائنسدان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد مسلمانوںمیں پیدا نہ ہوسکیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اس کمی کو پورا کرنے کی بہت حد تک کوشش کی۔ قیام پاکستان 1947 ءکے بعد وہی پرانے ناقص نظام تعلیم کی ترویج ہوتی رہی 1972 ءکے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی تو نظام تعلیم کی طرف توجہ دی گئی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان ممتاز ایٹمی سائنسدان کو جب پاکستان بلایا تو اعلیٰ سائنسی و تحقیقی ادارے قائم ہوئے لیکن اعلیٰ تعلیم کے منصوبے سرخ فیتہ کا شکار ہوگئے۔
دنیا میں سب سے کثیر سرمایہ تعلیم کے شعبہ پر خرچ کیاجاتا ہے جو قوم تعلیم میں سب سے آگے ہوتی ہے وہ کامیاب ہوتی ہے۔ اسرائیل دنیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے لیکن تعلیم میں سب سے آگے ہے۔ اسرائیل کا ہر دوسرا شہری Ph.D ہے اور اس سے کم تعلیم والے شخض کو وہ تعلیم یافتہ نہیں مانتے۔ پڑوسی ملک ہندوستان میں 8500 یونیورسٹیاں ہیں اور ان کا تعلیمی گراف پاکستان سے اچھا ہے اور ہر سال بڑی تعداد میں پی ایچ ڈی کرکے افراد نکلتے ہیں۔ امریکا میں 7500 سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں اور ان کا تعلیمی نظام شاندار ہے اور سائنسی تعلیم میں سب سے آگے ہیں۔ چین ہمارا پڑوسی ملک ہے اور اس نے ہم سے بعد میں آزادی حاصل کی ہے اور وہاں 6500 سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں اور ہر سال پی ایچ ڈی مختلف شعبوں میں طالب علموں کی کثیر تعداد کو دی جاتی ہے اور آج وہ امریکا کی ٹکر کا ہوگیا ہے۔ بنگلہ دیش 1971 ءمیں آزاد ہوا اس کا Literacy Rate (یعنی تعلیمی نظام) ہم سے کافی بہتر ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پی ایچ ڈی افراد کی ہر شعبہ میں کمی ہے باوجود پی ایچ ڈی افراد کتنے نکلتے ہیں اور اگر آپ معلوم کرلیں تو بہت دکھ ہوگا ہر مسئلے کو سول بیورو کریسی الجھادیتی ہے اس ضمن میں ڈاکٹر عطاءالرحمن صاحب نے کافی کام کیا ہے اور پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب وہ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھے انہوں نے یونیورسٹی گرانٹس کے ذریعے پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں ڈاکٹریٹ کرنے والے افراد کے لیے کافی فنڈ مہیا کیے اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو مکمل طور پر خودمختاری دلوائی۔
پاکستان میں صحیح معنوں میں معاشی انقلاب آسکتا ہے جب یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی ایک کثیر تعداد موجود ہو مگر عملاً ایسا نہیں دکھائی دیتا۔کراچی یونیورسٹی کی ایک معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ بمشکل 17 یا 18 افراد کسی سال میں پی ایچ ڈی کرکے نکلتے ہیں۔ ڈاکٹر عطاءالرحمن صاحب نے پی ایچ ڈی کرنے والے افرد کے وظیفے میں خاصا اضافہ کیا۔ تعلیم کی لحاظ سے پورے پاکستان میں پنجاب میں تعلیم معیاری ہے اور وہاں اساتذہ اپنے فرائض بحسن و خوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ نے تعلیم کو تجارت بنا رکھا ہے اور اپنے فرائض کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ طلباءکو شام کو اپنے پرائیویٹ ٹیوشن سینٹر میں بلا کر بھاری فیسیں وصول کررہے ہیں اور سرکاری تنخواہ الاﺅنسوں کے علاوہ لاکھوں روپے ماہانہ ان ٹیوسن سینٹر سے کمارہے ہیں جبکہ سرکاری ملازمین کے قواعد و ضوابط اور قوانین 1964 ءکے تحت سرکاری ملازم نہ تو پرائیویٹ نوکری کرسکتا ہے اور نہ ہی پرائیویٹ ٹیوشن سینٹر چلاسکتاہے۔ تعلیمی ماحول کو بہتر بنایا جائے تاکہ مستقبل کے معمار ملک و قوم کے لیے باعث فخر بن سکیں اور دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرسکیں ‘ ورنہ اندھیرا ہمارا مقدر ہوگا۔
محمد توصیف الحق صدیقی

No comments:

Post a Comment