Wednesday, December 1, 2010

ٹی وی کے مزے

 لوگ  ٹی وی  سے بی بی سی اور سی این این کے معیارکی توقع کرتے ہیں۔ بلاشبہ ہمارے یہاں آزاد ٹی وی کی عمر پانچ سال ہے مگر صحافت کی عمر توپاکستان کی عمر کے برابرہے سوال یہ ہے کہ یہ عمر ٹی وی پروگراموں میں کیوں نہیں جھلکتی۔ ظاہرہے جو لوگ صحاف میں بھی نووارد ہیں اور ٹی وی پر بھی ابھی ابھی ”ظاہر“ ہوئے ہیں ان سے زبان وبیان کا اور اس سے بھی آگے بڑھ کر فکری سطح کاشکوہ کرنا واقعتاً قرین امکان نہیں‘ لیکن کیا اب ان لوگوں کے نام لئے جائیںجو تیس‘ چالیس‘ اور پچاس سال سے صحافت میں ہیں مگر ٹی وی پروگراموں میں انہیں دیکھ کر یہ خیال نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کی ذمہ داری کا بوجھ کون اٹھائے گا۔؟ ہمیں بی بی سی اور سی این این نہیں تو پی ٹی وی کی ”تکنیکی“ سطح ہی پیدا کرکے دکھادینی چاہئے۔
اس سلسلے میں ہمیں اس سوال پر بھی غورکرنا چاہئے کہ جب پاکستان میں ریڈیو شروع ہوا تو ہم نے مواد کی سطح پر آل انڈیا ریڈیو کے چائے کے پروگرام پیش کیے۔ جب پی ٹی وی شروع ہوا تو ہم نے زبان وبیان اور سوال وجواب کی بلندسطح پیدا کی۔ اس وقت کوئی کہتا کہ صاحب ہم تو ابتداءکرنے والے ہیں ہم سے بہت بلند معیارکی توقع نہ کی جائے تو اس کی بات میں وزن ہوتا مگر اس وقت تو کسی نے ”رعایتیں“ طلب نہ کیں اور اب جبکہ ہم براڈکاسٹنگ کے 60 سال بسرکیے کھڑے ہیں تو ہمیں خیال آرہاہے کہ لوگ ہمارا موازنہ بی بی سی اور سی این این سے کررہے ہیں۔ مگر لوگ ان کا موازنہ بی بی سی اور سی این این سے کہاں کررہے ہیں۔ لوگ ان کا مقابلہ پی ٹی وی سے کررہے ہیں۔یہ آزاد ٹیلی ویژن کے ہر اس پروگرام کی تنقید ہے جس کا موازنہ پی ٹی وی کے اسی طرز کے کسی بھی پروگرام سے کیاجائے۔
ذرائع ابلاغ کا کردار معاشرے میں کیا اہم نہیں رہا۔ لیکن جب تک معاشرے میں تربیت کے بنیادی ادارے کاکام کررہے تھے اور موثر کام کررہے تھے اس وقت ذرائع ابلاغ کی کمزوریاں اورمنفیت آسانی کے ساتھ نظرانداز کی جاسکتی تھی لیکن اب اسکول کیا خاندان کا ادارہ تک اضمحلال کا شکار ہوگیاہے۔ چنانچہ تربیت رائے سازی ‘ اقدارکی منتقلی ‘ معلومات کی فراہمی غرضیکہ سارے ہی اہم کام ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹی وی انجام دے رہاہے ۔ چنانچہ اب ادارے کی زبان و بیان اور Blank Screen کا تجزیہ بھی معاشرے کے لئے ضروری ہوگیاہے۔ یہ اس ادارے کی خوش قسمتی ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں کام کررہاہے۔ جہاں ملک کے ٹوٹ جانے کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیاجاتا۔ ہمارے یہاں اس کے سلسلے میں علمی اور اخلاقی تجزیہ کیا صارف کی موثر نفسیات تک نہیں پائی جاتی۔ چنانچہ ہمارے یہاں ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹی وی کے مزے ہی مزے ہیں۔

No comments:

Post a Comment