سٹی بینک کے سابق افسران پر مشتمل ایک بااثر گروپ نے گزشتہ گیارہ سال سے پاکستان کی معیشت اور عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ ان کا ایجنڈا مقامی صنعت، تجارت اور زراعت کو ناکام بنا کر پاکستان کو مغربی ممالک کے لیے ایک منافع بخش منڈی بنانا اورپاکستانیوں کو مغرب کی غلامی پر مجبور کرناہے ۔اس گروہ کومیر جعفر اور میر صادق کی طرح کے وطن فروشوں کی مدد بھی حاصل ہے اوراسٹیٹ بینک سمیت ملک کے متعدد اہم ادارے اب بھی ان کے قبضہ میں ہیں جس کے سبب پالیسیاں انہی کی مرضی سے بنتی اور بگڑتی ہیں۔ اس گروہ کے ایک اہم رکن کو سوئس منی لانڈرگ کیس میں ایک کرپٹ سیاستدان کی معاونت کرنے اورکرپشن کے ثبوت چھپانے جیسی خدمات کے صلہ میں بینک دولت پاکستان کی کنجیاں عطا کر دی گئی ہیںجس کے بعدسے ملکی معیشت کا حال سب کے سامنے ہے۔ اس مافیا کے ایک دوسرے رکن کے لیے قوانین میں تبدیلی کر کے انھیں ایک بینک کا سربراہ لگا دیا گیا ہے جہاں وہ گیارہ سال سے ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس مافیا نے ملکی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے ملکی و غیر ملکی بینکوں سے مل کر ایسی پالیسیاں بنائیں جس سے سارا سرمایہ منافع کی شکل میں بینکوں میں جمع ہو گیا اور کاروبار کے لیے قرضہ کے محتاج تاجر پائی پائی کو ترسنے لگے۔ اس گروہ نے معیشت کا رخ بدلنے اورہر دوسرے شخص کو کنزیومر بینکنگ کے جال میں پھانس کر تمام جمع پونجی سے محروم کرنے کے علاوہ اسلام کے نام پر بھی عوام سے ایک بہت بڑا فراڈ کیا ہے ۔ عوام کا خون نچوڑنے کے بعد انھیں بلا سودی بینکاری کے جال میں پھانساگیا ہے۔ اس پلان پر مکمل عمل درآمد کے لیے کئی جعلساز اداروں کو اسلامی بینکاری کے لائسنس جاری کیے گئے تاکہ سود کی وجہ سے عام بینکوں سے دور رہنے والے مذہبی عناصر کو بھی سرمائے سے محروم کیا جا سکے۔ان نام نہاد اسلامی بینکوں نے وہ کارنامے دکھائے کہ سودی بینکوں کے مالکان کے منہ میں بھی پانی آ گیاجس پر اس مافیا نے نہ صرف انھیں اسلامی بینکاری کی اجازت دے دی بلکہ غیر مسلموں کو بھی اسلامی بینکاری کے اجازت نامے جاری کر ڈالے۔اس وقت پاکستان میں کلی اسلامی بینکوں کی تعداد چھ اور سودی کاروبار کرنے والے بینکوں کی اسلامی شاخوں کی تعداد 528سے زیادہ ہے۔ ان کی شرح نمو 12.5فیصد اور اثاثے 320ارب سے زیادہ ہیں۔حکومت اور ریگولیٹروں کی مکمل مدد کے باوجود ملکی بینکاری میں اسلامی بینکاری کا تناسب چار فیصد سے زیادہ نہیں جس سے ان اداروں پر عوام کے اعتماد کا پتا چلتا ہے۔یہ شرح سوڈان میں 50فیصد سے زیادہ، کویت میں 20فیصد اور ملیشیا میں 10فیصد ہے۔پاکستان میں ایک دہائی گزرنے کے باوجودان اداروں نے ابھی تک ملک کی معاشی ترقی یا متوازی بینکاری نظام کے لیے کچھ نہیں کیا ہے مگر اپنے لیے بہت کچھ کر ڈالا ہے۔یہ عوام کو بلا سود بینکاری اور نفع نقصان میں شراکت کا جھانسہ دے کر سودی بینکاری کرتے ہیں اور اپنا سرمایہ منافع کی خاطر اندرون یا بیرون ملک سودی بینکوں میں رکھواتے ہیں۔اس کے علاوہ بھی مختلف قسم کی جعلسازیاں اور غیر قانونی سرگرمیاںکی جا رہی ہیں جس سے عوامی اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے اور حکومت کا سودی نظام کے خاتمہ کے منصوبہ ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔متعدد اسلامی بینکوں نے اپنے الگ کاروباری اصول بنا رکھے ہیں۔ریگولیٹر کی ملی بھگت، ملک میں اسلامی بینکاروںکی تربیت کا انتظام نہ ہونااور مناسب قانون سازی کے فقدان کی وجہ سے وہ کھل کر کھیل رہے ہیں۔ عام خیال ہے کہ اسلامی بینکوں کی اکثریت لوٹ مار میں سودی بینکوں کو پیچھے چھوڑگئی ہے۔ اس طرح سے سٹی بینک مافیا نہ صرف اپنی جیبیں بھر رہی ہے بلکہ عوام کو اسلام سے متنفر کرنے کا فریضہ بھی بہ خوبی سرانجام دے رہی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی بینکاری نے دنیا کو بے پناہ مصائب سے نوازا ہے اور انسانیت کی فلاح اسلام میں ہی مضمر ہے۔ معاشی ترقی، یکساں مواقع، عزت نفس اور زیادتی کے سدّباب سمیت تمام مسائل کے لیے اسلام کے آفاقی اصول ، اسلامی معاشی قوانین اور اسلامی بینکاری سے بہتر طریقہ وضع کرنا ممکن ہی نہیں مگر ذاتی مفادات کے حصول اور عوام کا استحصال کے لیے اسلام کا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔
طارق خٹک
No comments:
Post a Comment