حالات حاضرہ یا ایک قدری پن ہوتا ہے۔یہ واقعات رونما ہوتے ہیں اوربھلا دیے جاتے ہیں۔دوسرے دن کوئی دوسرا واقعہ ان کی جگہ لے لیتا ہے‘لیکن بھلا دیے جانے کی وجہ صرف ہنگامیت نہیں ہے۔واقعات کی کثرت اور ان کا تیز بہاﺅ بھی ہے‘پھرفی زمانہ حافظے اور شعور کی نوعیت ساحل پر پڑی ہوئی ریت کی طرح ہوگئی ہے‘اس پر کوئی نشان پائیدارنہیں ہوتا۔جس طرح سمندر کی لہرین ساحل پر پڑے پڑے ہر نشان کومٹا دیتی ہیں اسی طرح واقعات کا بہاﺅ ہمارے حافظے میں سیلاب بن کر درآتا ہے اور وہاں سے بہت کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو حالات حاضرہ بھی ایک تناظر کے دائرے میں اہم ہوتے ہیں اور ہم ان سے ہنگامی باتوں کے علاوہ بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘اس کی کوئی مثال؟
کراچی میں رحمن ڈکیت کی ہلاکت نے کئی علاقوں میں اسکول اورکالج بند کرادیے۔اس موقع پر ہونے والی فائرنگ سے 6افراد مارے گئے۔ کوئی بتارہا تھا کہ چند خواتین ٹی وی پر آکر رحمن ڈکیت کی ہلاکت کا ماتم کررہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں کہ ان کا توگھر ہی رحمن ڈکیت کی دی ہوئی رقم سے چلتا تھا۔ان تمام اطلاعات نے اخبارات اورٹی وی چینلز کی شہ سرخیاںتخلیق کیں۔کہنے کو یہ واقعہ ہنگامی ہے‘فاسس کرنٹ افیئرکے ذیل میں آتا ہے‘لیکن اس کے بعض مستقل پہلو بھی راز نہیں ہیں۔صرف ان پر پڑے ہوئے پردوں کو اٹھانے کی ضرورت ہے۔
برصغیر کا معاشرہ معاشی اورسماجی عدم توازن میں مبتلا معاشرہ اور یہ عدم توازن ڈاکو کو بھی ہیروبناسکتا ہے۔سلطانہ ڈاکو برصغیر کی معاشرت کا اہم کردار تھا۔اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ امیروں سے لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کرتا تھا۔کرتا یا نہیں کرتا تھا مگر اس کا تاثر یہی تھا اور اس تاثر نے اسے بے شمار لوگوں کی نگاہوں میں ڈاکو نہیں رہنے دیا تھا۔وہ محدود طبقات کی گھٹی ہوئی نفسیات کا ایک مظہر بن گیا تھا۔کتنے ہی انتقامی جذبے اس کے کرداری سانچے کے ذریعے تسکین پاتے تھے۔ایسا ہی ایک کردار انگلینڈ میں بھی رابن ہڈ کے نام سے تخلیق ہوا تھا۔اس کی شہرت بھی یہی تھی کہ وہ امیروں سے چھین کر غریبوں کو دیتا ہے‘برطانیہ میں ویسی معاشی عدم مساوات نہیں تھی جیسی کہ ہمارے یہاں پائی جاتی ہے‘لیکن اس کے باوجود وہاں بھی عدم مساوات نے ہمدرد ڈاکو کا کردارتخلیق کیا۔
برصغیر میں ڈاکو کا کردارردِعمل کی نفسیات کا مظہر ہے۔مطلب یہ کہ کوئی شخص ڈاکو بننا نہیں چاہتا لیکن حالات کا جبرانسان کو ڈاکو بننے پر مجبور کردیتا ہے۔اس نکتے سے اس کے لیے ساری ہمدردی پیدا ہوتی ہے جسے یہ خیال اوربڑھادیتا ہے کہ ڈاکو ایک استحصالی معاشرے کا کردار ہے‘استحصال نے اسے وہ کرنے پر مجبور کردیا جو وہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اس خیال کو فلموں کے مواد نے غیر معمولی تقویت فراہم کی۔عملی زندگی کا نیم ڈاکو پردہ ¿ سیمیں پر واقعتاً ایک ہیرو بن گیا۔اس کی قوت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے‘دلیپ کمار نے جب فلم گنگا جمنا بنائی اور اس میں ڈاکو کا کردار ادا کیا تو سنسر بورڈ نے فلم کی نمائش کی اجازت نہیں دی۔کہا جاتا ہے کہ سنسر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس فلم سے معاشرے میں ڈاکو کے کردار کو غیرمعمولی تقویت حاصل ہوسکتی ہے‘یہ خیال غلط نہیں تھا۔ڈاکو کا کردار فلم اور ٹی وی کے ذریعے دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر کی نفسیات پرچھا گیااورہمارے معاشرے کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔
ہمارے موجودہ معاشرے میں تو یوں بھی ردِ عمل کے نفسیات کے کئی حوالے موجود ہیں۔ان میں سے ایک حوالہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہمارے گروہ ہمارے طبقے اورہمارے لسانی دائرے کا آدمی ہے تو خواہ وہ ڈاکو ہی کیوں نہ ہو ہم اس کی کامیابیوں کاجشن منائیں گے۔ اس کی موت کا ماتم کریں گے اور اسے ایک جھوٹا موٹا عبدالستارایدھی ثابت کرنے کی کوشش کریں گے‘رحمن ڈکیت کے ساتھ یہی ہوا ہے اوریہ ہمارے معاشرے کی ابتراخلاقی حالت کا ایک مظہر ہے اور اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کیسے کیسے عوارض پھیل چکے ہیں‘ لیکن یہ معاملے صرف”حالات حاضرہ“ تک محدود نہیں۔ذرائع ابلاغ حالات حاضرہ کی پیشکش کا آلہ ہیں۔ان کی ذمے داری ہے کہ وہ حالات حاضرہ کو حالات حاضرہ نہ رہنے دیں ان کا پس منظر اورپیش منظر ہی نہیں ان کا”تناظر“ بھی پیش کریں۔ان کے ممکنات اورمضمرات بھی بیان کریں تاکہ معاشرے میں”تناظر“ پیدا ہوسکے۔لوگ حالات کے آرپار دیکھ سکیں اوربہتر رائے تک پہنچ سکیں۔محض واقعات کی رپورٹنگ سے معاشرے میں ایک ایسی سطحیت پیدا ہورہی ہے جو گہری اورمعقول بات کو فضول بنا کر رکھ دے گی۔ کہنے والے کہتے ہیں اوربالکل درست کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں ہرچیز سطح پر بن بھی رہی ہے اورسطح پر بگڑ بھی رہی ہے۔صورت حال اتنی گھمبیر ہے کہ لوگ باتوں کی پتنگوں کو بھی گہرا اورخلفیانہ سمجھتے ہیں۔یہ ذرّوں کو آفتاب قرار دینے کا عمل ہے۔ایسے لوگ آفتاب کیا ستارہ بھی دیکھ لیں تو ان کا کیا حال ہو۔
حالات حاضرہ حالات حاضرہ سے آگے جاتے ہیں مگر وہ خود آگے نہیں جاتے انہیں آگے لے جانا پڑتا ہے۔حالات حاضرہ کو تناظر فراہم کرکے۔nn
No comments:
Post a Comment