انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ جو چیز اس کے پاس نہیں ہوتی اسے وہ بہت اہم محسوس ہوتی ہے اور وہ اس کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے۔ مثلاً انسان کے پاس دولت نہ ہو تو اسے لگتا ہے کہ دنیا کی اصل چیز دولت ہے اور اس کے ذریعہ دنیا کا ہر کام کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ جسمانی طور پر کمزور ہوتے ہیں انہیں صحتمند بلکہ تنومند لوگوں پر رشک آتا ہے۔ کہنے والوں نے قائداعظم کے بارے میں کہا ہے کہ وہ تنومند افراد سے متاثر ہوتے تھے۔ کوئی آدمی بدصورت ہوتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ بدصورتی دنیا کا مسئلہ نمبر ایک ہے اور خوبصورتی ہی زندگی ہے۔ نذیر ناجی نے اپنے ایک حالیہ کالم میں ایسی ہی صورتحال کا مظاہرہ کیا ہے۔
انہوں نے 25 فروری 2010 ءکے روز شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ کہنے کو پاکستان اور بھارت کے معاشروں میں کوئی فرق نہیں لیکن بھارت میں جمہوریت ہے اور پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے اور اس امتیاز نے دونوں معاشروں میں بڑا فرق پیدا کردیا ہے۔ نذیر ناجی نے بھارت اور پاکستان کے معاشرے میں پانچ فرق گنوائے ہیں۔
-1 بھارت میں بس اور ریل میں چڑھتے ہوئے لوگ قطار بناتے ہیں۔
-2 اشیائے ضرورت کے نرخ اور تاجروں کا منافع ایک حد میں رہتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ دو دکانوں پر شے کی قیمتیں میں دسیوں‘ سینکڑوں یا ہزاروں کا فرق ہو۔
-3 طاقت کے باوجود بھارت کی فوج کبھی اقتدار پر قبضہ نہیں کرتی۔
-4 بیوروکریسی پالیسیاں بناتے ہوئے اور ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے قومی مفادات کو ترجیح دیتی ہے۔
-5 رشوت بھارت میں بھی ہے مگر کوئی شخص ملکی مفاد فروخت کرکے رشوت نہیں لیتا۔ بھارت میں رشوت کے نرخ بھی پاکستان کے مقابلے میں کم ہیں۔
نذیر ناجی کے ان فرمودات کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جیسے جمہوریت کوئی اخلاقی نظام ہے اور اس نظام نے بھارت کے معاشرے کو دیگر جمہوری معاشروں کی طرح جوہری طور پر تبدیل کردیا ہے اور اسے دنیا کے غیرجمہوری معاشروں سے ممتاز و ممیز کردیا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ ایک غلط اور سطحی تجزیہ ہے اور اسے جمہوریت ے محرومی کے احساس نے جنم دیا ہے۔ اس تجزیہ کو غلط ثابت کرنے کی لیے تاریخ سے دو مثالیں دے دینا کافی ہے۔ سوویت یونین کا معاشرہ جمہوری نہیں غیرجمہوری بلکہ جمہوریت پسندوں کی اصطلاح میں فاشسٹ تھا مگر وہاں بھی لوگ بسوں اور ریل گاڑیوں میں سوار ہونے کے لیے قطار بناتے تھے۔ سوویت یونین میں یہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھا کہ دو دکانوں کے نرخوں میں ایک روپے کیا ایک پیسے کا بھی فرق ہوگا۔ سوویت یونین کی فوج ایک سپر پاور کی فوج تھی مگر اس نے کبھی اقتدار پر قبضہ نہ کیا۔سوویت یونین کی بیورو کریسی 70 سال تک ملک کے مفاد میں پالیسیاں بناتی رہی۔ جہاں تک رشوت کا تعلق ہے تو سوویت یونین میں اس کا وجود ہی نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ”خوبیاں“ فاشسٹ معاشرے میں بھی پائی جاتی ہیں تو پھر جمہوریت کی ضرورت ہی کیا ہے۔ تاریخی اعتبار سے سعودی عرب اس کی دوسری مثال ہے جہاں بادشاہت ہے مگر معاشرہ انتہائی منظم ہے۔ اتنا منظم کہ سعودی عرب کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں سب سے کم جرائم ہوتے ہیں۔ سعودی عرب کی مثال کو دیکھا جائے تو بادشاہت بھی جمہوریت کے جیسی بلکہ اس سے بہتر نظر آتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نذیر ناجی نے جمہوریت کے ساتھ وہ خوبی اور فوقیت وابستہ کی ہے وہ خوبی اور فوقیت جمہوریت میں موجود نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پھر یہ خوبیاں کہاں آتی ہیں۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اصل مسئلہ جمہوریت اور بادشاہت کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ نصب العین کا ہے۔ ہر معاشرے کا کوئی نہ کوئی نصب العین ہوتا ہے جس کا حصول معاشرے کے لیے ہر چیز سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں حکمرانوں اور حکومتوں کی تبدیلی کی ساتھ یہ نصب العین بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ جنرل ایوب سیکولر تھے اور وہ معاشرے کو سیکولر بنانا چاہتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ”اسلامی سوشلزم“ ایجاد کر ڈالا۔ حالانکہ وہ خود نہ اسلامی تھ اور نہ سوشلسٹ تھے۔ اسلام اور سوشلزم ویسے بھی ایک دوسرے کی ضد تھے جنرل ضیاءالحق نے اسلام کا نعرہ لگادیا مگر عملاً وہ نوآبادیاتی دور کے ریاستی نظام سے کام چلاتے رہے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کا کوئی نصب العین ہی نہیں تھا۔ وہ ”ادھر“ تھے نہ ”اُدھر“ تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے ”روشن خیالی“ ایجادکی مگر اس کا تعلق امریکا کے دباﺅ سے زیادہ تھا۔ یعنی ان کی روشن خیالی جعلی تھی اور اس کی کوئی فکری بنیاد نہیں تھی۔ ان مثالوں کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے 62 برسوں میں پے درپے نصب العین بدلا ہے یا ہم نصب العین کے خلا سے دوچار ہوئے ہیں۔ ان حالات میں معاشرہ چوں چوں کا مربہ نہیں بنے گا تو کیا بنے گا۔ وثوق سے کہاجاسکتا ہے کہ بھارت میں اتنی بار نصب العین تبدیل ہوئے ہوتے تو بھارت کا وجود ہی باقی نہ رہتا۔
نصب العین کے سوا ایک اور چیز ہوتی ہے جو معاشرے کو منظم اور متحرک بناتی ہے۔ اس چیز کو معاشرے کے ”اجتماعی تصورذات“ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ بھارت صرف 62 سال سے جمہوری ہے۔ لیکن یہ بات بھارت کے شہری پانچ ہزار سال سے سن رہے ہیں کہ بھارت ایک عظیم ملک ہے۔ بھارت کی تہذیب شاندار ہے۔ اس کی ثقافتی میراث غیرمعمولی ہے۔ پاکستان کے لوگوں کے پاس اس سے بڑا تصور ذات ہے۔ اسے عرف عام میں اسلام اور اسلامی تاریخ کہا جاتا ہے لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے اس تصور ذات کو کبھی قوت کے ساتھ عوام تک جانے ہی نہیں دیا۔ نصب العین کی تبدیلی بھی ہمارے تصور ذات پر اثر انداز ہوتی اور اس سلسلے میں ابہام پیدا کرتی رہی ہے۔ اس کے باوجود پاکستانی معاشرے میں جو بے شمار خوبیاں نظر آتی ہیں وہ حیرت انگیز ہیں اور انہیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ہمارا مسئلہ صرف اچھی قیادت کی عدم موجودگی ہے۔
No comments:
Post a Comment