مغربی دنیا کے رہنماﺅںکی انسانیت سوزی ایسی ہے کہ اس کے آگے چنگیزخان کی خونریزیاں معمولی نظر آنے لگتی ہیں۔ امریکا کی سابق وزیر خارجہ میڈیلین البرائیٹ سے بی بی سی ورلڈ کے صحافی نے پوچھا: عراق کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی پابندیوں سے 10 لاکھ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں 5 لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہتی ہیں؟ میڈیلین البرائیٹ نے ایک لمحے توقف کیا اور پھر پوری ڈھٹائی کے ساتھ کہا:''It is acceptable and worth it'' یعنی غذا اور دواﺅں کی قلت سے ہلاک ہونے والے 10 لاکھ لوگوں کی ہلاکت ہمارے لیے قابلِ قبول اور معنی خیز ہے۔ بلاشبہ چنگیزخان نے بھی لاکھوں افراد کو ہلاک کیا‘ مگر چنگیز خان خود کو جمہوری اور انسانی حقوق کا عَلم بردار نہیں کہتا تھا۔ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی اخلاقی اور قانونی آڑ میں قوموں کو تہس نہس نہیں کرتا تھا۔ اس کے ماتھے پر ”روشن خیال“ نہیں لکھا ہوا تھا۔ اس کے پاس ”عقل پرستی“ کی سند نہیں تھی۔ چنگیزخان کی انسانیت سوزی کے ریکارڈ میں کہیں نہیں لکھا کہ اس نے غذا اور دواﺅں کی قلت پیدا کرکے پانچ لاکھ بچوں کو مارڈالا۔ لیکن یہ مسئلہ محض میڈیلین البرائیٹ تک محدود نہیں۔
برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے عراق جنگ کے حوالے سے قائم کیے گئے چلکوٹ کمیشن کے سامنے حاضری کے موقع پر فرمایا ہے کہ اگرچہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں تھے مگر اس کے باوجود انہیں عراق پر حملے کا افسوس نہیں۔ انہوں نے کہاکہ صدام حسین ایک بلا تھا جسے ہٹانا ضروری تھا۔ انہوں نے کہاکہ صدام حسین کے بغیر دنیا زیادہ محفوظ ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر انہیں عراق پر حملے کا فیصلہ دوبارہ کرنا پڑے تو وہ یہ فیصلہ کریں گے۔
خلیج کی پہلی جنگ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے اقوام متحدہ کی ”منظوری“ کے ساتھ لڑی تھی‘ لیکن عراق کے خلاف دوسری جارحیت کے سلسلے میں امریکا کو اپنی لے پالک اقوام متحدہ کی حمایت بھی حاصل نہیں ہوسکی۔ اقوام متحدہ آخری وقت تک کہتی رہی کہ عراق میں کام کرنے والے اقوام متحدہ کے اسلحہ انسپکٹروں کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے وقت ملنا چاہیے مگر امریکا کے صدر جارج بش اور برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیئر نے کہاکہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں اور اس کے خلاف اقدام کے حوالے سے مزید تاخیر نہیں کی جاسکتی۔ مگر امریکا اور برطانیہ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیارکیا اُن کا علامتی نشان تلاش کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ لیکن اب ٹونی بلیئر فرما رہے ہیں کہ اصل مسئلہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں تھے‘ صدام حسین تھا۔ اگر ایسا تھا تو امریکا اور برطانیہ کو جارحیت کے وقت اس کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اُس وقت اصل اور پہلی وآخری چیز عراق کے مبینہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے۔ تاریخ نے جارج بش اور ٹونی بلیئرکے جھوٹ کو ان کے چہروں پر چسپاں کردیا‘ مگر ٹونی بلیئر اپنے جھوٹ کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنے جھوٹ کو تبدیل کررہے ہیں۔ تاریخ میں اپنے جھوٹ کو یوں سرعام تبدیل کرنے کی بھی شاید ہی کوئی مثال ہو۔ لیکن مسئلہ محض جھوٹ کو تبدیل کرنے کا نہیں ہے۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر مغربی دنیا کے رہنماﺅں کے اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے کہ وہ کسی بھی ملک کے ناپسندیدہ حکمران کو طاقت کے ذریعے ہٹانے کا حق رکھتے ہیں تو خود مغربی دنیا کے حکمرانوں پر بھی اس اصول کا اطلاق ہوگا۔ گزشتہ ایک صدی کی تاریخ کو دیکھا جائے تو مغرب کے حکمرانوں سے زیادہ خطرناک مخلوق کا تصور بھی مشکل ہے۔ دنیا کی پہلی جنگ ِعظیم کسی صدام حسین کی نہیں مغربی رہنماﺅں کی ایجاد تھی۔ دنیا کی دوسری عالمی جنگ بھی مغربی رہنماﺅں ہی نے تخلیق کی تھی۔ ان جنگوں میں مجموعی طور پر پانچ کروڑ سے زائد لوگ ہلاک اور دس کروڑ سے زائد لوگ زخمی ہوئے تھے۔ پھر ہیروشیما اور ناگاساکی میں دو ایٹم بم بھی صدام حسین نے استعمال نہیں کیے تھے۔ اس صورت ِحال کو دیکھا جائے تو مغربی دنیا کا ہر حکمران وراثت کے اعتبار سے بھی پاگل ہے اور امکان کے اعتبار سے بھی خطرناک ہے‘ چنانچہ دنیا کی کوئی بھی طاقت ہر وقت کسی بھی مغربی ملک پر حملے کا حق رکھتی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں اصل سوال صدام حسین کا ہے ہی نہیں۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جارحیت سے عراق میں چھ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے ہیں‘ اور یہ بات صدام حسین کے کسی متاثر نے نہیں امریکا کی جان ہوپکنز یونیورسٹی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عراق کے یہ چھ لاکھ افراد بھی دنیا کے لیے خطرہ تھے؟ آخر ان لوگوں کا خونِ ناحق کس کی گردن پر ہے؟ کیا یہ لوگ بھی صدام حسین کی طرح ” بلا“ تھے؟
مغربی دنیا کو ایسے سوالات اور ان کے جوابات سے دلچسپی نہیں۔ اس کے پاس طاقت ہے اور اُس کی طاقت اس کے ہر جرم کا پردہ بن گئی ہے۔ لیکن تاریخ کا دھارا بدل رہا ہے۔ اقتصادی طاقت مغربی اقوام کے ہاتھ سے نکل کر مشرقی اقوام کے ہاتھ میں جاچکی۔ عسکری اور بالآخر تہذیبی قوت کا مرکز بھی آج نہیں تو پچاس سال کے بعد تبدیل ہوسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس عمل کے بعد جب مغربی دنیا کے جرائم کی فہرست کھلے گی تو اہل مغرب کیا کریں گے؟ کیا ہٹلرکبھی جرمنی کا ہیرو نہیں تھا؟ اور آج جرمنی کے لوگ اس بات پر شرمندہ نہیں ہیں کہ ہٹلر کا تعلق جرمنی سے تھا؟ کیا روس میں لینن اور اسٹالن آسمان سے زمین پر نہیں آگئے؟ تاریخ کا انتقام سخت ہوتا ہے اور مغربی دنیا کے رہنماﺅں کے جرائم تو ویسے بھی ایسے ہیں کہ چنگیز خان مغربی رہنماﺅں کے اسکولوں کا عام سا طالب علم محسوس ہوتا ہے۔
No comments:
Post a Comment