پاکستانی قوم ڈھائی سال میں پیپلزپارٹی کی حکومت سے اکتا گئی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے سوال کررہے ہیں کہ یہ حکومت کب جائے گی؟ لیکن یہ صرف موجودہ حکومت کا معاملہ نہیں۔ ہمارے یہاں جو حکومت اقتدار میں آتی ہے وہ ایک سال میں بوڑھی، دوسرے سال میں پرانی اور تیسرے سال میں متعفن ہوجاتی ہے۔ سیاسی حکومتیں اس صورت ِحال کی متحمل نہیں ہوپاتیں اور اقتدار سے محروم ہوجاتی ہیں۔ فوجی آمریتیں البتہ آٹھ دس سال تک اقتدار پر مسلط رہتی ہیں، تاہم ان کا یہ طویل عرصہ تعفن کے ساتھ بسر ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت ِحال کا سبب کیا ہے؟
حکومتوں کی ناکامی کے عوام میں معروف ظاہری اسباب کو دیکھا جائے تو اس کی وجہ حکومتوں کی بدعنوانیاں، امن و امان کی ابتر صورت حال، غربت میں اضافہ، مہنگائی کا طوفان، ملک کی آزادی اور خودمختاری پر سودے بازی اور مختلف ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی ہوتی ہے۔ لیکن تجزیہ کیا جائے تو ہماری حکومتوں کے بہت جلد بوڑھا، پرانا، متعفن اور بالآخر اقتدار سے محروم ہونے کی اصل وجہ پاکستانی سیاست کا اخلاقی بحران اور حکومتوں کی اخلاقی بنیادوں سے محرومی ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ جس طرح ہم غلاظت سے سڑی ہوئی زہریلی غذا کھاتے ہیں تو کچھ دیر بعد ہمیں قے ہوجاتی ہے، ہمارا داخلی نظام اس غذا کو خود ہی اگل دیتا ہے۔ غور کیا جائے تو انتخابات اور جمہوریت وغیرہ کی اصطلاحیں ہمارے سڑی ہوئی ”سیاسی کھیر“ کے لیے سونے اور چاندی کے ورقوں کا کام انجام دیتی ہیں۔ ان ورقوں سے سیاسی کھیر کے باطن پر پردہ پڑجاتا ہے اور لوگ خوشی خوشی سیاسی کھیر کو کھانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں، لیکن کھیر کی ”حقیقت“ اپنا رنگ دکھاتی ہے، نتیجہ یہ کہ ہمارا اجتماعی شعور ایک آدھ سال میں ہی حکومت کو اگلنا شروع کردیتا ہے، اور جمہوری حکومتوں کے حوالے سے ڈھائی تین سال میں یہ کام مکمل ہوجاتا ہے۔
پاکستانی قوم نے اس صورت ِحال کی بڑی قیمت ادا کی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب ایک حکومت ناکام ہوتی ہے تو صرف ایک حکومت ناکام ہوتی ہے۔ تین چار حکومتیں پے درپے ناکام ہوتی ہیں تو ”نظام“ کی ناکامی کا تاثر ابھرتا ہے۔ لیکن جب یکے بعد دیگرے ہر حکومت ناکام ہونے لگے تو پھر ریاست کی ناکامی کا خیال عام ہونے لگتا ہے۔ پاکستان کے دشمن مغربی ذرائع ابلاغ اس صورت ِحال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان ذرائع میں اس رائے کو تواتر کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے۔ بلاشبہ یہ مغربی ذرائع ابلاغ اور ان کی حکومتوں کا پروپیگنڈا ہے، لیکن پاکستانی قوم کو اس پروپیگنڈے میں کچھ نہ کچھ صداقت یا ”واقعیت“ محسوس ہوتی ہے، اور اس کی وجہ ریاست کی ناکامی نہیں، حکومتوں کی ناکامی ہے۔ ان حکومتوں میں فرق ہے تو اتنا کہ کچھ حکومتیں زیادہ ناکام ہیں اور کچھ کم ناکام۔ لیکن ناکام سب ہیں۔
اس سنگین صورت ِحال کے باوجود ہمارا اجتماعی شعور مسئلے کو اس کے صحیح تناظر میں درج یا رجسٹر کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے حکمران بدعنوانی کرتے ہیں اور ہم اسے ایک سیاسی مسئلہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ بدعنوانی اپنی نہاد میں ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ انسان کی اخلاقیات کمزور ہوتی ہے تو وہ بدعنوانی کرتا ہے۔ حکمراں اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں تو اسے انتظامی مسئلہ باور کرایا جاتا ہے، حالانکہ اختیارات کا غلط استعمال اپنی اصل میں ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ انسان مذہب سے دور ہوتا ہے تو وہ اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے۔ فوجی آمر اقتدار پر قبضہ کرتے ہیں تو اسے آئین کی خلاف ورزی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ سیاسی لوٹ مار کا واقعہ ہے، اور لوٹ مار آئینی نہیں اپنی حقیقت میں ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ انسان خدا کو بھول جاتا ہے تو طاقت کے نشے میں بدمست ہوتا ہے۔ امریکہ ہمارے معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو اسے ملک کے اداروں کے سیاسی عزم کی قلت قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ امریکہ ہمارے ہر معاملے میں دخیل ہوگیا ہے تو یہ ہماری دینی حمیت کی کمی کا شاخسانہ ہے، اور یہ چیز بھی ہمارے اخلاقی بحران سے متعلق ہے۔
اصول ہے کہ مسئلہ اخلاقی ہو تو اس کا حل بھی اخلاقی ہوتا ہے، لیکن ہم اخلاقی مسئلے کا سیاسی یا جمہوری حل تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سرطان کے مریض کو نزلے زکام کی دوا پلا رہے ہیں۔ یہ ایک مضحکہ خیز صورت حال ہے، لیکن ہمیں صورت ِحال کی مضحکہ خیزی نظر ہی نہیں آتی، کیونکہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اخلاقی تناظر میں دیکھتے ہی نہیں۔
اس کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 62 اور 63 منتخب نمائندوں کے لیے تقوے کے مخصوص معیارات کا تعین کرتی ہیں، مگر ہماری فوجی اور سیاسی اشرافیہ نے آج تک ان دفعات کو مو ¿ثر نہیں ہونے دیا۔ ہماری فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے: یہ دفعات مو ¿ثر ہو ہی نہیں سکتیں۔ بھلا تقوے کا تعین کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس لیے کہ تقویٰ تو ایک داخلی کیفیت ہے۔ لیکن یہ ملک کے سیاسی نظام کو اخلاقیات کا پابند نہ کرنے کے لیے وضع کی گئی دلیل ہے۔ ورنہ ایمانداری بھی ایک داخلی چیز ہے لیکن دنیا بھر میں ایمانداری کو سیاست کا مرکزی حوالہ بنایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں تو پاکستان کے آئین کی دفعہ 62 اور 63 کو مو ¿ثر بناکر اپنی سیاست کو اخلاقی اصولوں کے تابع کرسکتے ہیں۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم تو یہ بھی بھول چکے ہیںکہ ایک اسلامی معاشرے میں فضیلتیں صرف دو ہیں: تقوے کی فضیلت اور علم کی فضیلت۔ اسلامی معاشرے کی سیاست بھی انہی فضیلتوں کی پابند ہوگی۔ ان فضیلتوں کو معیار بنائے بغیر ہم اپنی سیاست کے اخلاقی بحران کو دور نہیں کرسکتے۔ اس کے بغیر ہم اپنی حکومتوں کو ایک سال میں بوڑھا، دو سال میں پرانا اور تین سال میں متعفن ہونے سے نہیں بچا سکتے۔ لیکن یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر ہم اپنی سیاست کو مشرف بہ اخلاقیات کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟
اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ افراد کی عظیم اکثریت جدید تعلیم کی پروردہ ہے، اور جدید تعلیم کا تناظر زندگی کے سلسلے میں اخلاقی نہیں ہے۔ جدید تعلیم ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے مسائل سیاسی، معاشی اور سماجی ہیں اور ان کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ ہمارا سیاسی مسئلہ سیاسی اندازِ نظر سے حل ہوگا۔ ہمارا معاشی مسئلہ معاشی طرزفکر کا محتاج ہے اور ہمارے سماجی مسائل کو عمرانی نقطہ ¿ نظر سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اعتبار سے اخلاقی تناظر ہمیں زندگی سے غیر متعلق لگتا ہے، اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو ہمیں اخلاقی تناظر بہت پرانا اور ازکارِ رفتہ ضرور محسوس ہوتا ہے۔ ہماری نام نہاد جدید ”علمیت“ ہمیں باور کراتی ہے کہ بھلا اخلاقیات سے بھی کوئی سیاسی، معاشی یا سماجی مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہبی لوگوں کے صرف خیالات و جذبات مذہبی یا اخلاقی ہیں، ان کا ”تناظر“ اخلاقی نہیں ہے۔ یعنی وہ بھی زندگی کے مختلف مسائل بالخصوص سیاسی بحران کو اخلاقی تناظر میں نہیں دیکھتے۔ دیکھتے بھی ہیں تواس پر توجہ مرکوز نہیں کرتے۔ اس کا ذکر کرتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں، اور آگے بڑھتے ہی ان کا تناظر اخلاقی سے سیاسی، معاشی اور سماجی ہوجاتا ہے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاسی زندگی میں اخلاقی تناظر کو اس لیے بھی دخیل نہیں ہونے دیتی کہ اس طرح ہماری سیاست میں اُن لوگوں کا غلبہ ہوجائے گا جو تقوے اور علم سے آراستہ ہوں گے، اور ایسے لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ آسانی کے ساتھ ”بلیک میل“ نہیں کرسکے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پاکستان کا آئین اسلامی کیوں ہے؟ اور آئین میں دفعہ 62 اور 63 کا مفہوم کیا ہے؟
ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ پاکستان کا اصل حکمران طبقہ اسلام کو دبانے اور نظرانداز کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا تو اُس نے اس کی یہ صورت نکالی کہ اسلام کو آرائشی بنادیا جائے۔ یعنی پاکستان اسلامی جمہوریہ کہلائے مگر اس کے ریاستی دائروں میں اسلام کہیں مو ¿ثر نہ ہو۔ اس طرح عوام بھی مطمئن رہیں کہ ان کا ملک اسلامی ہوگیا ہے اور حکمران طبقہ بھی خوش رہے کہ اسلام کہیں مو ¿ثر نہیں ہے۔ پاکستانی سیاست کے اخلاقی تناظر سے محروم ہونے کی ایک وجہ یہ ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ان تمام باتوں کا مفہوم کیا ہے؟
ان تمام باتوں کا مفہوم یہ ہے کہ صرف اخلاقی تناظر ہی پاکستانی سیاست کو اس کے دائمی بحران سے نکال کر صحت عطا کرسکتا ہے۔ اخلاقی تناظر کے ذریعے ہی پاکستان کے ناکام ریاست ہونے کے تاثر کو زائل کرکے ریاست کی مضبوط بنیادوں پر لوگوں کے اعتماد کو بحال کیا جاسکتا ہے۔ اخلاقی تناظر کے ذریعے ہی بدعنوانی اور نااہلی کا علاج ممکن ہے۔ اسی کے ذریعے معاشرے کو اس کے تعصبات سے نکالا جاسکتا ہے۔ اسی کے ذریعے بیرونی دشمنوں کے چیلنجوں کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ اخلاقی تناظر ہی ہمیں ہمارے ماضی سے زندہ رشتے میں منسلک کرکے ہمارے حال کو منقلب کر سکتا ہے اور اسی کے ذریعے ہم مستقبل کی تعمیر کرسکتے ہیں، کیونکہ صرف اخلاقی تناظر ہی بصیرت کا حامل ہوتا ہے۔
nn
حکومتوں کی ناکامی کے عوام میں معروف ظاہری اسباب کو دیکھا جائے تو اس کی وجہ حکومتوں کی بدعنوانیاں، امن و امان کی ابتر صورت حال، غربت میں اضافہ، مہنگائی کا طوفان، ملک کی آزادی اور خودمختاری پر سودے بازی اور مختلف ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی ہوتی ہے۔ لیکن تجزیہ کیا جائے تو ہماری حکومتوں کے بہت جلد بوڑھا، پرانا، متعفن اور بالآخر اقتدار سے محروم ہونے کی اصل وجہ پاکستانی سیاست کا اخلاقی بحران اور حکومتوں کی اخلاقی بنیادوں سے محرومی ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ جس طرح ہم غلاظت سے سڑی ہوئی زہریلی غذا کھاتے ہیں تو کچھ دیر بعد ہمیں قے ہوجاتی ہے، ہمارا داخلی نظام اس غذا کو خود ہی اگل دیتا ہے۔ غور کیا جائے تو انتخابات اور جمہوریت وغیرہ کی اصطلاحیں ہمارے سڑی ہوئی ”سیاسی کھیر“ کے لیے سونے اور چاندی کے ورقوں کا کام انجام دیتی ہیں۔ ان ورقوں سے سیاسی کھیر کے باطن پر پردہ پڑجاتا ہے اور لوگ خوشی خوشی سیاسی کھیر کو کھانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں، لیکن کھیر کی ”حقیقت“ اپنا رنگ دکھاتی ہے، نتیجہ یہ کہ ہمارا اجتماعی شعور ایک آدھ سال میں ہی حکومت کو اگلنا شروع کردیتا ہے، اور جمہوری حکومتوں کے حوالے سے ڈھائی تین سال میں یہ کام مکمل ہوجاتا ہے۔
پاکستانی قوم نے اس صورت ِحال کی بڑی قیمت ادا کی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب ایک حکومت ناکام ہوتی ہے تو صرف ایک حکومت ناکام ہوتی ہے۔ تین چار حکومتیں پے درپے ناکام ہوتی ہیں تو ”نظام“ کی ناکامی کا تاثر ابھرتا ہے۔ لیکن جب یکے بعد دیگرے ہر حکومت ناکام ہونے لگے تو پھر ریاست کی ناکامی کا خیال عام ہونے لگتا ہے۔ پاکستان کے دشمن مغربی ذرائع ابلاغ اس صورت ِحال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان ذرائع میں اس رائے کو تواتر کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے۔ بلاشبہ یہ مغربی ذرائع ابلاغ اور ان کی حکومتوں کا پروپیگنڈا ہے، لیکن پاکستانی قوم کو اس پروپیگنڈے میں کچھ نہ کچھ صداقت یا ”واقعیت“ محسوس ہوتی ہے، اور اس کی وجہ ریاست کی ناکامی نہیں، حکومتوں کی ناکامی ہے۔ ان حکومتوں میں فرق ہے تو اتنا کہ کچھ حکومتیں زیادہ ناکام ہیں اور کچھ کم ناکام۔ لیکن ناکام سب ہیں۔
اس سنگین صورت ِحال کے باوجود ہمارا اجتماعی شعور مسئلے کو اس کے صحیح تناظر میں درج یا رجسٹر کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے حکمران بدعنوانی کرتے ہیں اور ہم اسے ایک سیاسی مسئلہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ بدعنوانی اپنی نہاد میں ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ انسان کی اخلاقیات کمزور ہوتی ہے تو وہ بدعنوانی کرتا ہے۔ حکمراں اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں تو اسے انتظامی مسئلہ باور کرایا جاتا ہے، حالانکہ اختیارات کا غلط استعمال اپنی اصل میں ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ انسان مذہب سے دور ہوتا ہے تو وہ اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے۔ فوجی آمر اقتدار پر قبضہ کرتے ہیں تو اسے آئین کی خلاف ورزی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ سیاسی لوٹ مار کا واقعہ ہے، اور لوٹ مار آئینی نہیں اپنی حقیقت میں ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ انسان خدا کو بھول جاتا ہے تو طاقت کے نشے میں بدمست ہوتا ہے۔ امریکہ ہمارے معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو اسے ملک کے اداروں کے سیاسی عزم کی قلت قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ امریکہ ہمارے ہر معاملے میں دخیل ہوگیا ہے تو یہ ہماری دینی حمیت کی کمی کا شاخسانہ ہے، اور یہ چیز بھی ہمارے اخلاقی بحران سے متعلق ہے۔
اصول ہے کہ مسئلہ اخلاقی ہو تو اس کا حل بھی اخلاقی ہوتا ہے، لیکن ہم اخلاقی مسئلے کا سیاسی یا جمہوری حل تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سرطان کے مریض کو نزلے زکام کی دوا پلا رہے ہیں۔ یہ ایک مضحکہ خیز صورت حال ہے، لیکن ہمیں صورت ِحال کی مضحکہ خیزی نظر ہی نہیں آتی، کیونکہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اخلاقی تناظر میں دیکھتے ہی نہیں۔
اس کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 62 اور 63 منتخب نمائندوں کے لیے تقوے کے مخصوص معیارات کا تعین کرتی ہیں، مگر ہماری فوجی اور سیاسی اشرافیہ نے آج تک ان دفعات کو مو ¿ثر نہیں ہونے دیا۔ ہماری فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے: یہ دفعات مو ¿ثر ہو ہی نہیں سکتیں۔ بھلا تقوے کا تعین کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس لیے کہ تقویٰ تو ایک داخلی کیفیت ہے۔ لیکن یہ ملک کے سیاسی نظام کو اخلاقیات کا پابند نہ کرنے کے لیے وضع کی گئی دلیل ہے۔ ورنہ ایمانداری بھی ایک داخلی چیز ہے لیکن دنیا بھر میں ایمانداری کو سیاست کا مرکزی حوالہ بنایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں تو پاکستان کے آئین کی دفعہ 62 اور 63 کو مو ¿ثر بناکر اپنی سیاست کو اخلاقی اصولوں کے تابع کرسکتے ہیں۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم تو یہ بھی بھول چکے ہیںکہ ایک اسلامی معاشرے میں فضیلتیں صرف دو ہیں: تقوے کی فضیلت اور علم کی فضیلت۔ اسلامی معاشرے کی سیاست بھی انہی فضیلتوں کی پابند ہوگی۔ ان فضیلتوں کو معیار بنائے بغیر ہم اپنی سیاست کے اخلاقی بحران کو دور نہیں کرسکتے۔ اس کے بغیر ہم اپنی حکومتوں کو ایک سال میں بوڑھا، دو سال میں پرانا اور تین سال میں متعفن ہونے سے نہیں بچا سکتے۔ لیکن یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر ہم اپنی سیاست کو مشرف بہ اخلاقیات کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟
اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ افراد کی عظیم اکثریت جدید تعلیم کی پروردہ ہے، اور جدید تعلیم کا تناظر زندگی کے سلسلے میں اخلاقی نہیں ہے۔ جدید تعلیم ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے مسائل سیاسی، معاشی اور سماجی ہیں اور ان کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ ہمارا سیاسی مسئلہ سیاسی اندازِ نظر سے حل ہوگا۔ ہمارا معاشی مسئلہ معاشی طرزفکر کا محتاج ہے اور ہمارے سماجی مسائل کو عمرانی نقطہ ¿ نظر سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اعتبار سے اخلاقی تناظر ہمیں زندگی سے غیر متعلق لگتا ہے، اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو ہمیں اخلاقی تناظر بہت پرانا اور ازکارِ رفتہ ضرور محسوس ہوتا ہے۔ ہماری نام نہاد جدید ”علمیت“ ہمیں باور کراتی ہے کہ بھلا اخلاقیات سے بھی کوئی سیاسی، معاشی یا سماجی مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہبی لوگوں کے صرف خیالات و جذبات مذہبی یا اخلاقی ہیں، ان کا ”تناظر“ اخلاقی نہیں ہے۔ یعنی وہ بھی زندگی کے مختلف مسائل بالخصوص سیاسی بحران کو اخلاقی تناظر میں نہیں دیکھتے۔ دیکھتے بھی ہیں تواس پر توجہ مرکوز نہیں کرتے۔ اس کا ذکر کرتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں، اور آگے بڑھتے ہی ان کا تناظر اخلاقی سے سیاسی، معاشی اور سماجی ہوجاتا ہے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاسی زندگی میں اخلاقی تناظر کو اس لیے بھی دخیل نہیں ہونے دیتی کہ اس طرح ہماری سیاست میں اُن لوگوں کا غلبہ ہوجائے گا جو تقوے اور علم سے آراستہ ہوں گے، اور ایسے لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ آسانی کے ساتھ ”بلیک میل“ نہیں کرسکے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پاکستان کا آئین اسلامی کیوں ہے؟ اور آئین میں دفعہ 62 اور 63 کا مفہوم کیا ہے؟
ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ پاکستان کا اصل حکمران طبقہ اسلام کو دبانے اور نظرانداز کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا تو اُس نے اس کی یہ صورت نکالی کہ اسلام کو آرائشی بنادیا جائے۔ یعنی پاکستان اسلامی جمہوریہ کہلائے مگر اس کے ریاستی دائروں میں اسلام کہیں مو ¿ثر نہ ہو۔ اس طرح عوام بھی مطمئن رہیں کہ ان کا ملک اسلامی ہوگیا ہے اور حکمران طبقہ بھی خوش رہے کہ اسلام کہیں مو ¿ثر نہیں ہے۔ پاکستانی سیاست کے اخلاقی تناظر سے محروم ہونے کی ایک وجہ یہ ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ان تمام باتوں کا مفہوم کیا ہے؟
ان تمام باتوں کا مفہوم یہ ہے کہ صرف اخلاقی تناظر ہی پاکستانی سیاست کو اس کے دائمی بحران سے نکال کر صحت عطا کرسکتا ہے۔ اخلاقی تناظر کے ذریعے ہی پاکستان کے ناکام ریاست ہونے کے تاثر کو زائل کرکے ریاست کی مضبوط بنیادوں پر لوگوں کے اعتماد کو بحال کیا جاسکتا ہے۔ اخلاقی تناظر کے ذریعے ہی بدعنوانی اور نااہلی کا علاج ممکن ہے۔ اسی کے ذریعے معاشرے کو اس کے تعصبات سے نکالا جاسکتا ہے۔ اسی کے ذریعے بیرونی دشمنوں کے چیلنجوں کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ اخلاقی تناظر ہی ہمیں ہمارے ماضی سے زندہ رشتے میں منسلک کرکے ہمارے حال کو منقلب کر سکتا ہے اور اسی کے ذریعے ہم مستقبل کی تعمیر کرسکتے ہیں، کیونکہ صرف اخلاقی تناظر ہی بصیرت کا حامل ہوتا ہے۔
nn
No comments:
Post a Comment