Thursday, January 13, 2011

بھارتی جمہوریت کے درخت پہ تشدد کے پھل

بھارتی جمہوریت کے درخت پر لگنے والے تشدد کے پھلوں نے بھارت کے دانشوروں کو حیران اور خوف زدہ کردیا ہے۔ا ن کی حیرانی اس بات پر ہے کہ جمہوریت کے درخت پر جمہوریت اور امن کے پھل لگنے کی توقع کی جاتی ہے مگر اس کے باوجود بھارتی جمہوریت کا درخت تشدد کے پھل دے رہا ہے۔ان کی خوف زدگی اس حوالے سے ہے کہ تشدد کا رجحان کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ معاشیات کے شعبے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے بھارت کے ممتاز ماہر معاشیات امرتاسین نے کولکتہ میں ٹیگور کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں پھلتے ہوئے تشدد کے رجحان کے اسباب معلوم کرنے کے لیے گہرے سیاسی تجزیے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے معروف صحافی کلدیپ نیر نے اپنے ایک حالیہ کالم میں امرتا سین کے خیال سے اتفاق کرتے ہوئے بھارت میں تشدد کے منظرنامے پر اظہار خیال کیا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ بھارت کا کوئی شہر تشدد سے پاک نہیں۔ ہمارے ملک میں بچے اور خواتین عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں۔ دیہات اور باالخصوص قبائلی علاقوں میں صورتحال اور بھی مخدوش ہے۔ ان علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے معاشرے کو ایک سمت دھکیل رہے ہیں اور ماﺅنواز تنظیمیں اور مذہبی رہنما معاشرے کو دوسری جانب دھکیلنے میں مصروف ہیں۔ کلدیپ نیر کے بقول بھارتی معاشرے میں صحیح اور غلط اور اخلاقی اور غیر اخلاقی کی تمیز مٹ گئی ہے۔ یہاں تک کہ معاشرے میں صحیح خیال کے مطابق عمل کرنے کی ”خواہش“ انتہائی کم ہوگئی ہے اور صحیح کے مطابق عمل کرنے کی ”کوشش“ خواہش سے زیادہ کمزوری کی حالت میں ہے۔ کلدیپ نیر کے مطابق پارلیمنٹ کو معاشرے کی خرابیوں اور ان کے ازالے پر گفتگو کا فورم ہونا چاہیے تھا مگر اس کے برعکس پارلیمنٹ سیاست دانوں کی انسانیت اور ان کے غلیظ ہتھکنڈوں کا اکھاڑا بن گیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ بھارت کے اس منظر نامے کا پاکستان سے کیا تعلق ہے؟
انسان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ جو چیز اس کے پاس نہیں ہوتی وہ اسے زندگی میں سب سے اہم محسوس ہوتی ہے۔ جس انسان کے پاس دولت نہیں ہوتی اسے لگتا ہے کہ دولت ہی سب سے اہم چیز ہے۔ جس آدمی کے پاس خوبصورتی نہیں ہوتی اسے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے اہم شے خوبصورتی ہے۔
پاکستانی قوم کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس جمہوریت کی کمی ہے چنانچہ اسے لگتا ہے کہ اجتماعی اور قومی زندگی کی سب سے اہم ضرورت جمہوریت ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ ہماری معیشت کمزور ہے تو اس کی وجہ جمہوریت کی کمی ہے۔ معاشرے میں عدم برداشت نظر آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کا سبب جمہوری کلچر کی کمزوری ہے۔ ملک میں بار بار مارشل لا لگ جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ جمہوریت کو ملک میں جڑ نہیں پکڑنے دی گئی۔ سیاسی جماعتیں بری کارکردگی پیش کرتی ہیں تو اعلان ہوتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں جمہوری روایات نہیں پائی جاتیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر جمہوریت ہی ہر مرض کا علاج ہے تو بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا سبب کیا ہے؟
بھارت کی تاریخ ہمارے سامنے ہے وہاں جمہوریت 63 سال سے پھل پھول رہی ہے۔ بھارت میں تواتر کے ساتھ انتخابات ہوتے ہیں۔ بھارت میں کبھی مارشل لا نہیں لگا۔ بھارت کی سیاست پر فوج کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک میں آئین کی بالادستی ہے۔ بھارت کی سیاسی جماعتوں میں داخلی انتخابات کا نظام رائج ہے اور بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں جمہوری ہیں۔ مگر اس کے باوجود بھارت تشدد سے اٹ گیا ہے اور بھارتی معاشرے کی اخلاقیات جاں کنی میں گرفتار نظر آرہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا سبب کیا ہے؟
کلدیپ نیر نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی معاشرے میں یہ خیال عام ہوگیا ہے کہ اصل چیز طاقت ہے یا پیسہ یا پھر سفارش۔ جس کے پاس ان میں سے کوئی ایک چیز ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے اور جس کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہیں وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ کلدیپ نیر نے افسوس کے ساتھ لکھا ہے کہ بھارتی جمہوریت کے تین ستون یعنی مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ عوام کے اعتماد سے محروم ہوچکے ہیں اور ان سے کسی کو کوئی امید نہیں۔ کلدیپ نیر نے ملال کے ساتھ کہا ہے کہ جب تک ہم آزاد نہیں ہوئے تھے ہمارے سامنے آزادی کے حصول کا ہدف تھا مگر اب ہمارے سامنے کوئی ہدف نہیں۔ تو کیا بھارت کے حوالے سے کلدیپ نیر کا یہ تجزیہ مکمل ہے؟
اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ کلدیپ نیر کا تجزیہ اپنی نہاد میں غلط بحث پیداکررہا ہے۔کلدیپ نیر کے تجزیہ کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ زندگی کو جمہوری اصولوں سے چلایا جاسکتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کو جمہوری اصولوں سے نہیں صرف اخلاقی اصولوں سے چلایا اور خوبصورت بنایا جاسکتا ہے۔ زندگی کو اخلاقی اصولوں سے "Govern" کرنے کی کوشش پیٹرول سے چلنے والی گاڑی کو پانی سے چلانے کی کوشش کے مترادف ہے اور یہ کام نہ کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ زندگی کو جمہوری عینک سے دیکھنے کا زاویہ ¿ نگاہ ہی غلط ہے۔ جمہوریت محض ایک ڈھانچہ ہے اور بس۔ یہ ڈھانچہ ”طرز فکر“ بن سکتا ہے مگر اس کے لیے صدیوں کا سفر درکار ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی جمہوریت اخلاقیات کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔ لیکن اخلاقیات کے حوالے سے بھارت کی کچھ محدوددرست ہیں۔
یادش بخیر گاندھی جی سے ایک بار پوچھا گیا تھا کہ آپ ”رام راج“ کی بات کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اس سوال کے جواب میں گاندھی جی نے کہا تھا کہ رام راج اسلام کے دو خلفاءابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ کا ادوار جیسا ہوگا۔ یہ جواب دے کر گاندھی جی نے تسلیم کیا کہ ہندو ازم کا سارا تجربہ ماقبل تاریخ ہے اور وہ تاریخ کے صفحات سے اپنے مثالیے یا Ideal کی کوئی مثال نہیں دے سکتے۔ چنانچہ انہیں مجبوراً رام راج کے سلسلے میں اسلام کی تاریخ سے مثال دینی پڑی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہندو ازم کے اخلاقی Ideals موجود تو ہیں مگر وہ برسرکار یا Functional نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو ذہن اخلاقی تناظر سے محروم ہے۔ چنانچہ جیسے جیسے ہندوستان کی صنعتی ترقی کا عمل آگے بڑھے گا اور اس کا سیاسی ڈھانچہ کمزور پڑے گا ویسے ویسے ہندوستان کے اخلاقی مسائل کی سنگینی بڑھتی چلی جائے گی اور اندیشہ یہ ہے کہ بھارت کا معاشرہ ان مسائل کا بوجھ برداشت نہیں کرسکے گا۔
زیر بحث مسئلے کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ بھارت نے جو کچھ بویا تھا وہی کاٹ رہا ہے۔ کلدیپ نیر کو شکایت ہے کہ بھارت کا معاشرہ طاقت کو پوج رہاہے لیکن جدید بھارت کے بانیوں نے خود طاقت کو اہلِ بھارت کا Ideal بنایا۔ یہ پنڈت جواہر لعل نہرو تھے جنہوں نے بھارت میں چھوٹی صنعتوں کے بجائے بڑی صنعتوں کی بنیاد رکھی اور بڑی صنعتوں کی بنیاد رکھنے کا مقصد بھارت کو بڑی فوجی طاقت بنا کر ابھارنا تھا۔ یہ پنڈت نہرو کی بیٹی اندراگاندھی تھیں جنہوں نے 1974 ءمیں ایٹمی دھماکہ کرکے بھارت کی طاقت کی سیاست کو علاقائی اور عالمی تناظر عطا کیا۔ آخریہ کیا بات ہے کہ بھارت کے تعلقات اپنے کسی پڑوسی کے ساتھ اچھے نہیں۔ پاکستان اور چین کے ساتھ بھارت جنگیں لڑچکا ہے۔ سری لنکا اور مالدیپ میں فوجی مداخلت کرچکا ہے۔ نیپال اس کی مداخلت اور بالادستی سے عاجز ہے۔ برما کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ بنگلہ دیش کے ساتھ بھارت کے تعلقات صرف عوامی لیگ کے دور میں اچھے ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال اس کے سوا کیا بتاتی ہے کہ بھارت ابتدا ہی سے طاقت کی دلدل میں گہرائی تک دھنساہوا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارتی جمہوریت کے درخت پر تشدد کے پھلوں کا لگنا ناقابلِ فہم نہیں رہتا۔
بھارت میں ذات پات کا نظام بھی اپنی اصل میں طاقت مرتکز یا Power Centric ہے۔ بھارت نے اس نظام کی خارجی اصلاح کی مگر اس نظام کی ”فلسفیانہ اساس“ کو کبھی تبدیل کرنا تو دور کی بات اسے چیلنج بھی نہیں کیا۔ اس سے شوردوں اور دلتوں کے لیے ہی نہیں کروڑوں مسلمانوں کے لیے بھی زندگی اجیرن ہوگئی۔ بھارت کی ایک درجن سے زائد ریاستوں میں برپانکسل باڑی تحریک اس نظام کے خلاف ردعمل کی ایک صورت ہے۔
جہاں تک دولت پوجا کا تعلق ہے تو گاندھی جی کا تصور حیات یہ تھا کہ ہمیں سادگی اور قناعت کی زندگی اختیار کرنی چاہیے لیکن بھارت اپنے روحانی باپ کے اس Ideal کو بھی پس پشت ڈال چکا ہے اور اس نے معاشی اور سماجی زندگی کے حوالے سے مغربی معاشروں کو اپنے لیے معراج سمجھ لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کی وجہ سے گھر گھر میں دولت پوجا ہورہی ہے تو عام افراد کا کیا قصور ہے؟ ریاست نے جو Ideal معاشرے کے سامنے رکھا ہے معاشرہ اس کے پیچھے دوڑاہا ہے۔ ایسی سفارش تو وہ بجائے خود کچھ نہیں۔ اس کی حیثیت طاقت اور دولت کے ایک ناگزیر نتیجے کی ہے۔ لیکن اس سلسلے کا حرف آخر یہ ہے کہ مغربی دنیا معاشیات کی جنت اور اخلاقیات کا جہنم ہے اور جو معاشرہ اس کی نقل کرے گا وہ معاشی جنت اور اخلاقی جہنم بن کر رہے گا۔ بھارت ہو یا چین اس سلسلے میں کسی کے لیے استثنیٰ نہیں۔ 

No comments:

Post a Comment