Tuesday, March 15, 2011

دنیا پر ”معاشی حیوان“ کے تصور کا غلبہ اور اس کے ہولناک نتائج

جرمن ادیب تھامس مان نے کہا تھا کہ 20 ویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ تھامس مان کا یہ تجزیہ درست تھا۔ بیسویں صدی انقلابات کی صدی تھی۔ روس اور چین میں انقلابات برپا ہوئے اور انقلاب اپنی نہاد میں ایک سیاسی تصور ہے۔ تھامس مان کی بات اس لیے بھی درست تھی کہ 20 ویں صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئیں، اور جنگ اپنی اصل میں ایک سیاسی معاملہ ہے۔ سیاست جہاں ناکام ہوتی ہے وہاں سے جنگ شروع ہوتی ہے، اور جہاں سے سفارت کاری کا آغاز ہوتا ہے وہاں سے جنگ بندی کی ابتدا ہوتی ہے۔ 20 ویں صدی ان معنوں میں بھی سیاسی اصطلاحوں میں کام کررہی تھی کہ اس صدی میں نوآبادیاتی طاقتیں مقبوضہ علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوگئی تھیں اور درجنوں اقوام کو آزادی حاصل ہوئی۔ لیکن زیادہ گہرائی میں تجزیہ کیا جائے تو 20 ویں صدی کی سیاسی اصطلاحوں اور 20 ویں صدی کے سیاسی واقعات کی پشت پر اقتصادی محرکات اور معاشی انسان یا معاشی حیوان کا تصور کام کرتا نظر آتا ہے۔
روس اور چین کے کمیونسٹ انقلابات انسان اور اس کی زندگی کو معاشی اصطلاحوں کے تناظر میں دیکھنے اور بیان کرنے سے عبارت تھے۔ دونوں عالمی جنگیں نوآبادیاتی طاقتوں کے معاشی مفادات کے تصادم کی وجہ سے برپا ہوئیں اور نوآبادیاتی طاقتیں اس لیے مقبوضہ علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوگئیں کہ دو عالمی جنگوں نے انہیں معاشی طور پر دیوالیہ کردیا تھا اور وہ کمزور اقوام کو غلام رکھنے کی معاشی قیمت ادا کرنے کے قابل نہیں رہ گئی تھیں۔ اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ20 ویں صدی میں انسانی تقدیر بلاشبہ سیاسی اصطلاحوں سے لکھی جارہی تھی، مگر ان اصطلاحوں کا خارجی ڈھانچہ صرف سیاسی تھا۔ ان اصطلاحوں کا مفہوم معاشی تھا، اور معاشی مفہوم کی پشت پر معاشی حیوان کا تصور کام کررہا تھا۔ کمیونزم کے فکری رہنما کارل مارکس نے ایک سطح پر انسانی زندگی کو پیداواری رشتوںکے تناظر میں دیکھا اور دکھایا ہے، دوسری سطح پر زندگی کو ملکیت کے تصور کا اسیر رکھا ہے اور کہا ہے کہ ملکیت کے تصور کو بدلے بغیر معاشرے کے معاشی اعتبار سے کمزور طبقات یا پرولتاریوں کو بورژوا طبقے یعنی ملک پر قابض طبقے کے استحصال سے نجات نہیں دلائی جاسکتی۔ مارکس کے یہاں قدرِ زائد یا Surplus value کا تصور بھی اہم ہے، اور یہ تصور بھی معاشی ہے۔ اس تصور کا لب لباب یہ ہے کہ کوئی بھی شے دو چیزوں سے مل کر بنتی ہے، ایک خام مال اور دوسری محنت کش کی محنت۔ مارکس کے مطابق محنت ہی وہ شے ہے جو شے کو کچھ سے کچھ بناکر اس کی قدروقیمت بڑھاتی ہے۔ چنانچہ شے کی بڑھی ہوئی قیمت محنت کش کو ملنی چاہیے مگر اس کو سرمایہ دار ہڑپ کرلیتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مارکس یا کمیونزم کے تمام تصورات معاشی اصطلاحوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہی انسان کے معاشی حیوان ہونے کا تصور ہے۔ لیکن صرف کمیونزم ہی انسان کو معاشی حیوان نہیں کہتا، سرمایہ دارانہ نظام بھی انسان کو ہر سطح پر معاشی حیوان ہی باور کراتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو آسان لفظوں میں اور ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا:
”زیادہ سے زیادہ اشیاءصرف کرو تاکہ زیادہ سے زیادہ اشیاءپیدا کی جاسکیں، تاکہ سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ دولت اور زیادہ سے زیادہ منافع کماسکے۔“
اس منظرنامے میں ”صارف“ بھی ایک معاشی تصور ہے، اشیاءپیدا کرنے والا ”محنت کش“ بھی ایک معاشی تصور ہے، سرمایہ دار بھی معاشی تصور ہے، اور ”دولت و منافع“ بھی معاشی تصورات ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دارانہ معاشرہ تاریخ کے جس تصور پر کھڑے ہوئے ہیں اسے عرف ِعام میں ترقی کا تصور یا Idea of progress کہا جاتا ہے۔ اس تصور کے مطابق ایک وقت تھا کہ انسان غاروں یا پتھروں کے دور میں رہتا تھا۔ ایک عہد کے بعد زراعت کا زمانہ آیا۔ زراعت کے دور کی جگہ صنعتی زمانے نے لے لی۔ اور اب صنعتی نظام کی جگہ مابعد صنعتی انقلاب یا Post industrial Ruvolution لے رہا ہے جس کا سب سے بڑا مظہر اطلاع، اطلاع کا عہد اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی یعنی Age of information, Information اور Information Technologyہے۔ غورکیا جائے تو ان تمام تصورات پر بھی معاشی اصطلاحوں ہی کا سایہ ہے، اس لیے کہ یہ تمام تصورات ”مادیت“ کے تصور میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ معاشی حیوان کے اس تصور نے پوری دنیا بالخصوص مسلم معاشروں میں کیا نتائج پیدا کیے ہیں؟
سرسری نظر سے بھی دیکھا جائے تو ”معاشی حیوان“ کا تصور اسلام کے تصورِ انسان کی ضد، اس کی تکذیب اور اس کی توہین ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام کا تصورِ انسان کیا ہے؟ اسلام کے نزدیک انسان کا شرف اور اس کی عظمت یہ ہے کہ وہ ”عبداللہ“ یعنی اللہ کا بندہ ہے۔ اس کے معنی اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات انسان کے لیے خلق کی ہے لیکن خود انسان کو اپنے لیے بنایا ہے۔ ’اپنے لیے بنایا ہے‘ کا مفہوم قرآن مجید نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ لیکن اسلام میں عبادت کا تصور نماز، روزے تک محدود نہیں۔ اسلام اُس کی پوری زندگی کو عبادت بنادینا چاہتا ہے۔ اس تصور کے دائرے میں انسان کا معاشی جدوجہد کرنا تو کیا سونا بھی عبادت ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کیا خود مسلمان بھی اسلام کے تصورِ انسان سے کتنی دور کھڑے ہوگئے ہیں اور معاشی انسان کے تصور کی پوجا نے انہیں کس خسارے سے دوچار کردیا ہے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو امتِ مسلمہ بالخصوص برصغیر کی ملت ِاسلامیہ کے تصورِ علم کو معاشی حیوان کے تصور نے 19 ویں صدی کے وسط میں ہی متاثر کرنا شروع کردیا تھا۔ برصغیر میں یہ زمانہ انگریزوں کے خلاف جدوجہد ِآزادی کا زمانہ تھا۔ یہ جدوجہد ِآزادی ناکام ہوئی اور برصغیر کی ملت ِاسلامیہ نہ صرف یہ کہ انگریزوں کے بدترین مظالم اور معاشی قتل عام کا شکار ہوئی بلکہ انگریزوں نے انتقاماً مسلمانوں پر ہندوﺅں کو فوقیت دینی شروع کردی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے، تیسرے اور چوتھے درجے کی نوکریاں ہندوﺅں کو ملنے لگیں۔ اس صورت حال میں سرسید احمد خان نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ ملازمتوں کے حصول اور روزگار کی فراہمی کے لیے جدید تعلیم حاصل کریں۔ اگرچہ سرسید مسلمانوں میں جدید علم کے ذریعے ”لیاقت“ بھی پیدا کرنا چاہتے تھے لیکن ”نقالوں“ میں لیاقت مشکل ہی سے پیدا ہوتی ہے، البتہ سرسید کی کوششوں کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ علم اور تعلیم کا تصور معاش سے وابستہ ہوکر رہ گیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن.... ہمارے لیے تعلیم کا مقصد صرف بہتر ملازمت کا حصول ہے۔ اس ضمن میں معاشرے میں خوفناک حد تک اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ والدین اپنے بچوںکو پہلے دن سے یہی سکھاتے ہیںکہ اچھی طرح پڑھو تاکہ بہتر سے بہتر ملازمت اور بہتر سے بہتر معاشی زندگی حاصل کرسکو۔ عزیز، رشتے دار بچوں اور جوانوں کو یہی پٹی پڑھاتے ہیں کہ تعلیم کا مقصد بہتر ملازمت کا حصول ہے۔ اساتذہ اور معاشرے میں رہنمائی کا فریضہ انجام دینے والے بھی بچوں اور نوجوانوں کو یہی درس دیتے ہیں کہ تعلیم کا مقصد معاشی جدوجہد میں کامیابی کا حصول ہے۔ اس صورت حال نے ہماری نہ جانے کتنی نسلوں کو ”شہید ِمعاشیات“ بناکر انہیں ان کے تصورِ علم سے کاٹ دیا ہے۔ لیکن ہمارا تصورِ علم کیا ہے؟
مسلمانوں کے لیے علم کی اہمیت یہ ہے کہ قرآن مجید میں ایمان کے بعد جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے وہ علم ہے۔ قرآن مجید میں 800 سے زائد مقامات پر علم یا اس کے متعلقات کا ذکر ہے۔ اسلامی روایت کا علم ہمیں بتاتا ہے کہ فرشتوں پر انسان کی فضیلت علم کی وجہ سے تھی۔ اسلامی تعلیمات ہمیں آگاہ کرتی ہیں کہ انبیائے کرام کا ورثہ علم ہے۔ لیکن اسلام میں علم کے مقاصد کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلامی روایت علم کے پانچ بڑے مقاصد بیان کرتی ہے:
(1) انسان کو عارف بااللہ بنانا۔
(2) انسان کو شعورِ حیات عطا کرنا اور زندگی گزارنے کا طریقہ سکھانا۔
(3) روح کا فہم عطا کرنا اور انسان کو روح پر متصرف بنانا۔
(4) شعورِ نفس فراہم کرنا اور نفس پر متصرف بنانا۔
(5) مادے کی حقیقت سے آگاہ کرنا اور انسان کو اس پر متصرف بنانا۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام کے تصورِ علم کا، مروج تصور اور مقصدِ علم سے کوئی تعلق نہیں، اور ہم اس حوالے سے اپنی پوری فکر، تہذیب اور تاریخ کی نفی کیے کھڑے ہیں.... صرف جدید تعلیم کے دائرے میں نہیں مذہبی تعلیم کے دائرے میں بھی۔ اس لیے کہ مذہبی تعلیم کا تصور بھی بڑی حد تک روزگار کے ساتھ مخصوص ہوکر رہ گیا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ علم کی بنیاد پر روزگار فراہم ہونے اور علم کو روزگار کے لیے مخصوص کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ معاشی حیوان کے تصور نے مسلمانوں کو حقیقی علم کے تصور سے اتنا دور کردیا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس حوالے سے باقی دنیا کا حال کیا ہوگا؟
اسلامی تہذیب اور اسلامی معاشرے میں انسانوں کو انسانوں پر صرف دو اعتبار سے فضیلت حاصل ہے: تقوےٰ کے اعتبار سے اور علم کے اعتبار سے۔ لیکن یہ اب ایک ”اصولی بات“ ہے۔ ”عملی صورت حال“ یہ ہے کہ معاشی حیوان کے تصور نے دولت کو معاشرے کی واحد فضیلت بنادیا ہے۔ چنانچہ اب شریفوں کو احمق سمجھا جاتا ہے اور صاحب ِعلم کا تصور ہمارے ذہن میں یہ ہے کہ معاشرے کو اس کی ضرورت نہیں۔ ایک زمانہ تھاکہ لوگ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے رشتے کرتے تھے تو لڑکے کی شرافت دیکھتے تھے، علم دیکھتے تھے، خاندان دیکھتے تھے اور اس کے بعد معاش دیکھتے تھے۔ لیکن اب اکثر رشتوں کا فیصلہ صرف معاش کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ معاش شرافت، علم، نجابت ہر چیز کا متبادل اور نعم البدل بن گئی ہے۔ بلاشبہ یہ مقامی نہیں بین الاقوامی صورت ِحال ہے اور اس میں انسان کی تحقیر اور تذلیل کے سوا کچھ نہیں ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ معاشرے میں ”روحانی مسرت“ کا تصور موجود تھا۔ معاشرے میں ایک چیز ”نفسیاتی سکون“ اور ایک چیز ”جذباتی اطمینان“ بھی ہوتی تھی۔ ذہنی خوشی کی اصطلاح بھولے بھٹکے آج کل بھی کہیں نہ کہیں پڑھنے سننے کو مل جاتی ہے، لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ہماری خوشی صرف دولت اور اس کے مظاہر تک محدود ہوتی جارہی ہے۔ ہمیں اچھی ملازمت اور اچھی تنخواہ خوش کرتی ہے۔ بڑا گھر مسرت عطا کرتا ہے۔ نئے ماڈل کی کار وجد میں لاتی ہے۔ پوش علاقے کی رہائش مسحور کرتی ہے۔ برانڈڈ لباس خوشگوار احساس سے دوچار کرتا ہے۔ یورپ اور امریکہ کا سفر دل کو جوان کرتا ہے۔ ہم لوگوں کو مکڈونلڈ، کے ایف سی اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کھانا کھاتے دیکھتے ہیں تو خیال آتا ہے یہ لوگ برگر، چکن اور چینی ڈش نہیں کھا رہے، بلکہ تصورات یا Concepts کھا رہے ہیں، وہ تصورات اور وہ Concepts جن کا معاشی انسان یا معاشی حیوان اور دولت کی نفسیات سے گہرا تعلق ہے۔ یہ صورت حال بھی مقامی نہیں بین الاقوامی ہے، اور اسے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ سرمائے کی تہذیب نے انسان کو کیسی روحانی، نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی غربت میں مبتلا کردیا ہے اور معاشی انسان یا معاشی حیوان کے تصور نے انسان سے کیا کچھ چھین لیا ہے!
معاشی فکر کے غلبے نے ہمارے یہاں ہی نہیں مغربی دنیا میں بھی علم کی نوعیت کو متاثر کیا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ مغرب میں سائنس تجارتی یا کمرشل ہوگئی ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ مغرب میں تحقیقاتی کام فاﺅنڈیشنز کی سرپرستی میں ہورہا ہے۔ چنانچہ تحقیقاتی کام پر فاﺅنڈیشن کے اثرات فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ سائنسی تحقیق میں امکانات یا Problities کے تصور کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے محقق کے سامنے کئی امکانات آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ امکانات ایسے ہوتے ہیں جن سے علم کو حقیقی معنوں میں فروغ حاصل ہوتا ہے، لیکن اس علم کا کوئی معاشی فائدہ نہیں ہوتا، اس سے کوئی شے یا Product تیار نہیں ہوتی۔ اسی طرح بعض امکانات ایسے ہوتے ہیں جن سے علم کو تو کوئی خاص فروغ حاصل نہیں ہوتا لیکن ان امکانات پر کام کرکے معاشی فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ فاﺅنڈیشنز محققین کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ اول الذکر امکانات پر کام نہ کریں بلکہ مو ¿خرالذکر امکانات پر کام کریں۔
معاشی انسان یا معاشی حیوان کا تصور ہمارے ملک میں فنون کے حال اور مستقبل کو کس طرح متاثر کررہا ہے اس کا اندازہ جامعات کے حالات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ ان حالات کا لب لباب یہ ہے کہ جامعات میں ادب، فلسفے اور زبانوں کی تدریس کو ایک بوجھ تصور کرتے ہوئے ختم کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مضامین کی کوئی معاشی قدر یا Commercial value نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان مضامین پر طلبہ و طالبات کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے، چنانچہ ان شعبوں سے جامعات کو فیس کی مد میں بھی کم آمدنی ہورہی ہے۔
ہمارے زمانے کا اہم ترین رجحان عالمگیریت یا Globalization کا رجحان ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ رجحان معاشی انسان کے تصور کی پیداوار اور اس کی توسیع ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عالمگیریت کی بنیاد خدا کے مشترک تصوریا انسانی تہذیبوں کی مماثلت کے تصور پر نہیں بلکہ معاشی تصورات پر ہے۔ لیکن عالمگیریت کا یہ دھماکہ ایک ایسے عالمی منظرنامے میں ہورہا ہے جس میں دنیا کے 80 فیصد وسائل دنیا کی 20 فیصد آبادی کے قبضے میں ہیں اور دنیا کی 80 فیصد آبادی صرف 20 فیصد وسائل کی حامل ہے۔ دوسری جانب 20 فیصد آبادی کے پاس 80 فیصد وسائل ہی نہیں بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی کی طاقت بھی ہے۔ چنانچہ عالمگیریت دنیا میں وحدت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کے بجائے کمزور اقوام کے استحصال کی نئی صورتیں پیدا کرکے دولت اور معاشی فکر کو پوری دنیا کا ”مذہب“ بنا رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب دنیا کی ہر شے، ہر رویّے اور ہر رجحان کو نئے مذہب کی روشنی میں دیکھا، پرکھا اور قبول یا رد کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو 19 ویں صدی کے وسط سے آج تک انسانی تقدیر معاشی اصطلاحوں میں لکھی جارہی ہے، یہاں تک کہ 21 ویں صدی میں معاشی اصطلاحیں باقی تمام علوم و فنون کی اصطلاحوں کو فرسودہ، ازکارِ رفتہ یا بے فائدہ باور کرا کے انہیں انسانیت کی زندگی سے خارج کیے دے رہی ہیں۔
بعض لوگ ان حقائق کو دیکھ کر خیال کرسکتے ہیں کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں دولت کی کوئی اہمیت نہیں اور اسلام شاید ہمیں دولت سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ مسئلہ دولت نہیں، دولت کی محبت ہے۔ دولت اچھی چیز ہے، دولت کی محبت بری چیز ہے۔ جزو کی زندگی میں اپنی اہمیت ہے، لیکن جزو کا کُل بن جانا جان لیوا ہی نہیں ایمان لیوا بھی ہے۔ اسلامی تاریخ میں صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ اور ابوذرغفاریؓ نہیں ہیں۔ حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف بھی ہیں جو اپنے زمانے کے کروڑپتی تھے۔ مگر اس کے باوجود ان کی زندگی میں دولت کی محبت کا شائبہ بھی نہیں تھا۔ ان کے تصورِ زندگی اور طرزِ زندگی پر دولت کا کوئی اثر نہیں تھا۔ یہی اسلام کا مقصود ہے۔

No comments:

Post a Comment