Wednesday, March 16, 2011

لعنت ہو

لعنت ہو.... مگر کس پر؟ قہر درویش برجان درویش۔ہم اپنے اوپر ہی لعنت بھیج دیتے ہیں۔ عدالتوں کو کچھ نہیں کہا جاسکتا اور حکمران تو حکمران ہیں۔ لیکن اصل حکمران کون ہیں؟ اہل پاکستان کیسے خوش قسمت ہیں کہ ان کے حکمران امریکی ہیں۔ ورنہ تو انگریزوں نے 63 سال پہلے 1947 ءمیں لاوارث چھوڑ دیا تھا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ امریکا نے آگے بڑھ کر آغوش میں لے لیا۔ ایسا دوست جو ہر مشکل میں ہمارے دونوں ہاتھ پکڑ لیتا ہے ‘اور گردن بھی۔
ریمنڈ ڈیوس پاکستان کی حدود سے نکل گیا‘ اطلاع یہ ہے کہ افغانستان پہنچ چکا ہے۔ بعض لوگوں کو گمان ہے کہ پاکستان ایک آزاد و خودمختار ملک ہے۔ لاہور کے ہوائی اڈے سے امریکی فضائیہ کا ایک طیارہ کچھ آقاﺅں کو لے کر پرواز کرگیا۔ قوم.... کیا قوم کا کوئی وجود بھی ہے؟ اگر ہے تو یہ بھیڑوں کی قوم ہے جس پر بھیڑیے مسلط ہیں۔ سرعام دو پاکستانیوں کا قتل ‘ جس کی تفصیل سامنے آچکی ہے کہ یہ ذاتی تحفظ میں کیے گئے قتل نہیں تھے‘ اور پھر قاتل کو بچانے کے لیے آنے والی امریکی گاڑی‘ جس میں امریکی سفارتکار یا قاتل سوار تھے‘ انہوں نے ایک تاجر عباد الرحمن کو کچل کر ہلاک کردیا۔ اس کا تو کوئی ذکر ہی نہیں۔ وہ خون خاک تشیناں تھا‘ رزق خاک ہوا۔ اس کے قاتل تو کب کے امریکا پہنچ چکے ہیں۔ نہ کوئی قصاص‘ نہ دیت نہ قاتلوں کی شناخت۔ لیکن کیا قاتلوں کی شناخت ضروری ہے۔ کیا روزانہ جو پاکستانی ڈرون حملوں میں مارے جارہے ہیں‘ جو پراسرار بم دھماکوں میں شہید ہورہے ہیں ان کے قاتل ڈھکے چھپے ہیں؟ کہیں پڑھا تھا کہ اگر شیروں کی قیادت گیڈروں کے حوالے کردی جائے تو شیر بھی گیڈڑ بن جاتے ہیں۔
دیت یاد آگئی۔ یہ ایک اسلامی قانون ہے۔ دیگر اسلامی قوانین یاد نہیں آتے۔ اطلاع یہ ہے کہ فہیم اور فیضان کے 18 وارثوں نے 20 کروڑ روپے کی دیت وصول کرکے قاتل کو معاف کردیا۔ ایک اور اطلاع یہ ہے کہ مقتول فیضان کی بیوہ امریکا پہنچ چکی ہے۔ سنا ہے کہ دیگر ورثاءکو امریکی شہریت بھی مل گئی او رکیا چاہیے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا: 
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
ممکن ہے بعض لوگ پوچھتے ہوں کہ یہ حرم کیا ہے۔سعودی حکمران خادم حرمین شریفین کہلاتے ہیں‘ کسٹوڈین آف ٹو موسکس۔ پہلی جنگ خلیج میں امریکا مےں ایسی شرٹس مقبول تھیں جن پر بش سینئر کی تصویر تھی اور ”کسٹوڈین آف تھری موسکس“ لکھا ہوا تھا۔ تیسری مسجد اقصیٰ بھی شامل کرلی گئی تھی۔
اہل کلیسا سے شہیدوں کی دیت مانگ لی گئی ہے۔ اب اس پر بحث فضول ہے کہ زبردستی دیت کے کاغذات پر دستخط کرائے گئے یا سب کام راضی خوشی ہوا۔ ممکن ہے بعض لوگ کہیں کہ مرنے والے تو مر گئے۔ اچھا ہے کہ امریکا سے 20 کروڑ روپے وصول ہوگئے۔ قومی غیرت ‘ حمیت یہ الفاظ صرف لغت میں اچھے لگتے ہیں۔ لیکن 20 کروڑ روپے ہی کی بات ہے تو کیا یہ رقم عافیہ کے لیے جمع نہیں ہوسکتی جس پر کسی کے قتل کا الزام بھی نہیں اور کیا فیصل شہزاد کی دیت نہیں ہوسکتی۔ کیا ایمل کانسی کے لیے اتنی رقم جمع نہیں ہوسکتی تھی۔ امریکی ایئر فورس کاایک طیارہ بدھ کی شام لاہور سے اڑا جو ریمنڈ ڈیوس کے ساتھ اور لوگوں کو بھی لے گیا۔ ایساہی ایک طیارہ پشاور سے اڑا تھا جو افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو بگرام ایئر بیس لے گیا اور ایسا ہی ایک طیارہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو لے گیا تھا۔ ایسے اور کتنے طیارے آئیں گے اور جائیں گے۔ کیا کوئی بڑا سا ٹرانسپورٹ طیارہ نہیں آسکتا جس میں امریکا اپنے تمام غلاموں کو اپنے پاس بلالے؟
سارے کام قانون کے تحت ہوئے! کیا بے غیرتی کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے؟ بدھ ہی کو تو ریمنڈ ڈیوس پر عدالت نے فرد جرم عائد کی تھی۔ اور چند گھنٹے کے بعد پورا معاملہ نمٹادیا گیا۔ فرد جرم کہاں گئی؟چلیے‘ ورثاءنے دیت لے لی۔ حالانکہ ریمنڈ ڈیوس تو پوری قوم کا مجرم تھا۔ پوری قوم مدعی تھی۔ا س سے قطع نظر ریمنڈ ڈیوس پر اور بھی تو کئی الزامات تھے۔ غیرقانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں عدالت نے 30 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جو امریکی قاتل نے اسی وقت نکال کر.... پر مار دیا۔ مگر اس پر جاسوسی کا الزام تھا‘ فرضی نام اور جعلی پاسپورٹ پر سفر کرنے کا الزام تھا۔ کہا جارہا تھا کہ قبائلی علاقوں میں اس کے تعلقات ہیں۔ کیا تمام جرائم کے لیے دیت وصول کرلی گئی؟ ملک پاکستان اور اس کے قانون کو تماشا بنا کر رکھ دیا گیا۔ کیا کوئی پاکستانی امریکا میں اس طرح سرعام قتل کرے تو امریکی عدالتیں اسے چھوڑ دیں گی؟ ہرگز نہیں کیونکہ امریکی عدالتیں کسی دوسرے کے دباﺅ میں نہیں آتیں‘ وہاں ان کے اپنے قانون پر عمل ہوتا ہے اور امریکی اپنے معاملات میں بے غیرت نہیں ہیں۔ بیرسٹر ایس ایم ظفر کا کہنا صحیح ہے کہ آزاد ممالک اسی طرح اپنے شہریوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ غلاموں کا کیا ہے۔ کوئی بولے تو امریکی دلال غیرت لابی اور غیرت بریگیڈ کی پھبتی کستے ہیں‘ یہ سوچے بغیر کہ یہ پھبتی ان پر الٹ جاتی ہے کہ ان کا تعلق بے غیرت بریگیڈ اور بے غیرت لابی سے بن جاتا ہے۔
اس موقع پر سوائے انا لللّہ کے اور کیا کہا جائے۔ ہمارے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی بہت ہی قریبی عزیز کا انتقال ہوگیا ہو۔ کسی عزیز کے انتقال پر تو صبر بھی آجاتا ہے مگر جب قومی غیرت مرجائے‘ قومی تشخص خاک میں مل جائے تو صبر بھی نہیں آتا۔ کیسی عدالت ‘ کیسا قانون۔ آئی ایس آئی اور سی آئی اے میں معاملات طے پانے کی خبر تو بدھ کے اخبارات میں آہی گئی تھی۔ یہ صرف ایک چھوٹی عدالت کا فیصلہ نہیں تھا۔ فیصلے کہیں اور ہوئے ہیں۔ اس قوم کو‘ بشرطیکہ اس کا کوئی وجود ہو‘ مبارک ہو کہ امریکا سے تعلقات معمول پر آگئے۔ اب مزید ڈالر آئیں گے او ر مزید امریکی جاسوس بھی۔ ایک امریکی اٹارنی نے کہا تھا کہ پاکستانی قوم ڈالروں کی خاطر اپنی ماں کو بھی بیچ سکتی ہے۔اس وقت تو ہمیں بہت برا لگا تھا۔ یہ مقتولیں کے وہی ورثاءتو ہیں جو اپنے پیاروں کا خون بیچنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ مقتول فیضان کی بیوی نے کہا تھا کہ 17 کروڑ بھائی اگر ایک ایک روپیہ بھی جمع کریں تو 17 کروڑ روپے ہوجائین گے۔ شاید یہ رقم کم پڑتی دکھائی دے رہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ بے غیرتوں کے سرتاج حکمرانوں کا کیا کردار ہے۔ کیا صرف امریکا کی خوشنودی؟ غم میں ڈوبے ہوئے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔ کچھ نہیں ہوگا۔
جسارت
Kindle Wireless Reading Device, Wi-Fi, Graphite, 6" Display with New E Ink Pearl Technology
Add caption

No comments:

Post a Comment