زندہ قوموں کی زندگی میں تصور اور عمل کے درمیان گہرا تعلق ہوتا ہے۔ تصور کا دوسرا مطلب خواب ہوتا ہے اور زندہ قومیں خوابوں میں زندہ رہتی ہیں۔ خوابوں کی مدد سے سوچتی ہیں اور خوابوں کو بسر کرتی ہیں، اس کی بہت اچھی مثال برصغیر کی ملتِ اسلامیہ ہے۔
برصغیر کی ملت اسلامیہ کے لیے اسلام اور امت مسلمہ کے تصورات ایسے تھے جن کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتی تھی۔ اس کا ایک ٹھوس ثبوت خلافت عثمانیہ کے ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کی وابستگی ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے خلافت عثمانیہ کسی نہ کسی درجے میں خلافت راشدہ کا تسلسل اور اس کی علامت تھی۔ امت کی قوت اور شوکت کا استعارہ تھی۔ مسلمانوں کے ماضی کو حال اور مستقبل سے منسلک کرنے والی حقیقت تھی اور اس کا تحفظ انہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا۔ یہی وجہ تھی کہ خلافت عثمانیہ ترکی میں ختم ہورہی تھی اور اس کا ماتم برصغیر میں ہورہا تھا۔ پورا عالم اسلام اس سانحے سے بے نیاز تھا مگر برصغیر کے مسلمان خلافت عثمانیہ کی بقا اور تحفظ کے لیے تحریک چلا رہے تھے۔ اسلامی خلافت اور امت مسلمہ کے تصورات برصغیر میں ایک عظیم الشان عمل تخلیق کررہے تھے لیکن خلافت تحریک صرف تحریک نہیں تھی۔ اس تحریک میں برصغیر کے مسلمانوں نے ایسی قربانیاں دیں جن کی جدید تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس تحریک کے پہلے مرحلے میں برصغیر کے مسلمانوں نے انگریزوں سے ملے ہوئے خطابات واپس کیے، انگریز سرکار کے ساتھ تعلقات کی خرابی کا خطرہ مول لیا۔ تحریک کے دوسرے مرحلے میں انہوں نے انگریزوں کی ملازمتیں ترک کیں اور اپنے معاشی اور سماجی مستقبل کو داﺅ پر لگایا۔ تحریک کا ایک مرحلے ایسا آیا کہ علماءنے برصغیر کو دارالحرب قرار دیا اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ دارالحرب سے دارالسلام کی طرف ہجرت کریں، اس وقت مسلمانوں کے لیے قریب ترین دار السلام افغانستان تھا چنانچہ برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے علماءکے فتوے کو صرف فتویٰ نہیںرہنے دیا۔ انہوں نے فتوے پر عمل کیا برصغیر کے مختلف علاقوں سے افغانستان کی جانب ہجرت کی۔ ابتداءمیں افغانستان کے بادشاہ نے برصغیر کے مسلمانوں کا خیر مقدم کیا لیکن جب مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں پہنچی تو افغانستان کے بادشاہ نے افغانستان کے دروازے مہاجرین پر بند کردیے ہزاروں لوگ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے اس ہجرت کا ”کمال“ یہ تھا کہ یہ مجبوری کی ہجرت نہیں تھی بلکہ اسے لوگوں نے شعوری طور پر اختیار کیا تھا اور اس کے لیے اپنے گھر بار چھوڑے تھے۔ یہ صورتحال اس امر کی غماز تھی کہ برصغیر کی ملت اسلامیہ زندہ تھی اور اس کے لیے اس کے مذہب اور اس کی تاریخ کے تصورات ٹھوس حقائق سے زیادہ دلکش اور اثرانگیز تھے۔
قیام پاکستان کا مطالبہ بھی اپنی بنیاد میں ایک ”تصور“ ہی تھا۔ ایک ”اسلامی ریاست“ کا تصور۔ ایک ایسی ریاست کا تصور جہاں مسلمان اسلام کی کلیت یا Totality کو بسر کرسکیں۔ جہاں اسلام عصر کی زبان اور لہجے میں اپنے احکامات ظاہر کرسکے۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان اسی دن بن گیا تھا جس دن برصغیر میں پہلے مسلمان نے قدم رکھا۔ اس بات کا مفہوم عیاں تھا۔ مسلمان کبھی بھی ایک فرد نہیں ہوتا وہ ایک عالمی تناظر اور ایک تہذیب کی علامت ہوتا ہے اور وہ جہاں جاتا ہے اپنے پورے تہذیبی تجربے کو بسر کرنے کی کوشش کرتا ہے پوری تہذیب کے تجربے کو بسر کرنے کے لیے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست ناگزیر تھی۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ الگ ریاست کا مطالبہ بہر حال ایک تصور تھا۔ اس تصور کو بڑے بڑے حقائق سے سابقہ درپیش تھا۔ مسلمانوں کے ایک طرف انگریز تھے دوسری طرف ہندو اکثریت تھی اور تیسری طرف مسلمانوں کا انتشار تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ابتداءمیں قائداعظم کے سوا کسی کو یقین نہیں تھا کہ پاکستان بنے گا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ایک الگ ریاست کا تصور زندہ حقائق سے کہیں زیادہ طاقت ور ہوگیا اور اس نے برصغیر کے مسلمانوں میں ایسی مرکز جُو حرکت پیدا کی کہ صرف سات سال میں پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا۔
امت مسلمہ پر ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جس میں جہاد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ساقط سمجھا گیا۔ اور کہا گیا کہ جہاد بالسیف کا دور ختم ہوچکا ہے برصغیر میں سرسید احمد خان اور مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریزوں کے زیر اثر پروپیگنڈا کیا کہ اب جہاد باالقلم کادور ہے اور مسلمانوں کو تیغ و تفنگ سے اجتناب کرتے ہوئے قلم کو تلوار بنانا چاہیے لیکن سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کی فکر مسلمانوں کو جہاد کے تصور سے دور نہ کرسکی اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کے تصور کو آواز دی گئی۔ اس آواز نے دیکھتے ہی دیکھتے امت مسلمہ کے ایک بڑے حصے میں بیداری کی لہر پیدا کردی اور پوری امت مسلمہ مجاہدین کی پشت پر کھڑی ہوگئی۔ اس سے دو باتیں ثابت ہوئیں کہ اسلام کے تصورات فنا ہونے کے لیے نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ مسلمانوں میں ذرا سی بھی زندگی ہو تو خواب حقیقت بن جاتا ہے۔ تصور زندہ ہوجانے پر تاریخ بدل کر رہ جاتی ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کا کوئی تصور مردہ نہیں ہے۔ امت مسلمہ عقیدے اور ایمان کی سطح پر اپنے ہر تصور سے منسلک ہے اور وہ اپنے کسی بھی تصور کو کسی بھی وقت زندہ کرسکتی ہے۔
اسلام دشمن طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کی اس قوت کو سمجھتی ہیں اور وہ مسلمانوں کو ان کے تصورات سے کاٹ دینے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ اسلام کے مقابلے پر کمیونرم کو لایا جاتا تھا اور ایک وقت یہ ہے کہ اسلام کے مقابلے پر سیکولر ازم اور لبرل ازم کو لایا جارہا ہے۔ امت کے تصور کو وطنیت کے اسی تصور سے زیر و زبر کیا جارہا ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:
ان تازہ خداﺅں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اسلام وطن کے تصور کا مخالف نہیں لیکن وطن اسلام سے ہے اسلام وطن سے نہیں ہے۔ اسی طرح وطن کا تصور اگر امت کے تصور کے دائرے میں ہے تو ”حلال“ ہے اور وطن کا تصور امت کے تصور کو نقصان پہنچانے لگے تو وطن کا تصور ”حرام“ ہے۔ عقلی سطح پر بھی دیکھا جائے تو وطنیت ایک کنواں ہے اور امت کا تصورا یک سمندر ہے۔ چنانچہ کوئی احمق ہی ہوگا جو سمندر کی مخلوق بننے کے بجائے کنوئیں کا مینڈک بننا پسند کرے گا۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ امت مسلمہ بالخصوص پاکستان میں ریاستی سطح پر لوگوں کو کنوئیں کا مینڈک بنانے کی کوشش ہورہی ہے اور لوگوں کو مینڈک بننے پر فخر کرنا سکھایا جارہا ہے۔
No comments:
Post a Comment