امریکی دانشور نوم چومسکی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اپنے بیلاگ، سیاسی تبصروں، تجزیوں اور امریکی خارجہ پالیسی پر کڑی تنقیدکے حوالہ سے مشہور ہیں اور دنیا بھر کے صائب الرائے حلقوں میں ان کا حترام کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی قیادت میں مغربی طاقتوں کی جنگ کے بارے میں چومسکی کا نقطہ نظر بڑا واضح اور دوٹوک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری یہ جنگ ہی دہشت گردی کے فروغ کا بنیادی سبب ہے۔ افغانستان پر امریکی حملہ اور بے گناہ شہریوں کی اندھا دھند ہلاکت بجائے خود صریح دہشت گردی ہے۔ وہ دہشت گردی کے خلاف کے نام پر ڈھائے جانے والے امریکی مظالم کی شدید مذمت کرتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ اگر نیور مبرگ کے قوانین پر عملدرآمد کیا جاتا تو پھر جنگ کے بعد ہر امریکی صدر پھانسی کے پھندے پر جھول رہا ہوتا۔ ایبٹ آباد میں اسامہ کے خلاف مبینہ آپریشن کے بارے میں بھی نوم چومسکی نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بہت کھل کر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے جو ہفت روزہ ”ریڈینس“ نئی دہلی (شمارہ 15 تا 21 مئی 2011ئ) میں شائع ہوا ہے۔ ہم قارئین کے لیے یہاں اس کا ترجمہ پیش کررہے ہیں۔
نوم چومسکی کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوتی جارہی ہے کہ آپریشن کے نام پر اسامہ کے قتل کی منظم منصوبہ بندی کی گئی تھی جس میں بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کو بری طرح پامال کیا گیا۔ اس بات کی کوئی علامت نظر نہیں آتی کہ آپریشن کا نشانہ بننے والے ایک غیر مسلح شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی ہو کیونکہ ایک نہتے شخص کے خلاف کارروائی کرنے والے 80کمانڈوز کو کسی مزاحمت کا سامنانہیں کرنا پڑا اور ان کے اپنے بیان کے مطابق صرف اسامہ بن لادن کی اہلیہ ان کی طرف جھپٹی ضرور تھی۔ قانون کا تھوڑا بہت احترام کرنے والے معاشروں میں بھی ”مشتبہ“ افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ان پر مقدمہ چلانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ میں یہاں ”مشتبہ“ کے لفظ پر خاص طور سے زور دیتا ہوں۔ ایف بی آئی کے سربراہ رابرٹ موئلر نے اپریل 2002ءمیں پریس کو بتایا تھا کہ تاریخ کی عمیق ترین اور بھرپور تحقیق و تفتیش کے بعد بھی ایف بی آئی اس سے زیادہ کچھ کہنے سے قاصر ہے کہ اس کے ”خیال میں“ سازش کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا لیکن جس کی منصوبہ بندی تو افغانستان میں کی گئی تھی مگر اس پر عملدرآمد متحدہ عرب امارات اور جرمنی میں کیا گیا۔ جس بات کے بارے میں اپریل 2002ءمیں ان کا محض ایک خیال تھا ظاہر ہے 8 ماہ قبل ان کو اس بارے میں کچھ پتا نہیں تھا جب امریکا کی جانب سے ثبوت پیش کرنے کی صورت میں طالبان نے بن لادن کو امریکا کے حوالہ کرنے پر غور کرنے کی جو پیشکشیں کی تھیں واشنگٹن نے انہیں رد کردیا تھا۔ (ہم نہیں جانتے کہ ان پیش کشوں میں سنجیدگی کا کتنا عنصر تھا کیونکہ انہیں فی الفور مسترد کردیا گیا تھا)۔ جلد ہی ہمیں پتا چل گیا کہ امریکا کے پاس سرے سے اس کا کوئی ثبوت موجود ہی نہیں تھا۔ لہٰذا جب اوباما نے اپنے وہائٹ ہاﺅس کے بیان میں یہ بات کہی کہ ”ہمیں جلد ہی معلوم ہوگیا تھا کہ 9/11 کے حملے القاعدہ نے ہی کیے تھے“ تو اوباما جھوٹ بول رہے تھے۔ بعد میں بھی کبھی سنجیدگی سے اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ بن لادن کے ”اعتراف“ کے بارے میں بڑی باتیں بنائی جاتی ہیں مگر کہنے کو تو میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ ”بوسٹن مراتھن“ دوڑ میں نے ہی جیتی تھی۔ اوباما نے شیخی بگھارتے ہوئے اسے عظیم کامیابی قرار دے دیا۔
ذرائع ابلاغ میں اس بات پر واشنگٹن کی برہمی کا بڑا چرچا ہورہا ہے کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالہ نہیں کیا گو کہ فوجی اور سیکیورٹی فورسز کے ذمہ دار حلقوں کو یقینا ایبٹ آباد میں ان کی موجودگی کا علم تھا جبکہ پاکستان کی اس ناراضگی اور برہمی کے بارے میں کم ہی بات کی جاتی ہے کہ امریکا نے ایک سیاسی قتل کی واردات کے لیے ان کے علاقہ پر دھاوا بول دیا۔ پاکستان میں امریکا مخالف جذبات پہلے ہی اپنے عروج پر ہیں اور اس قسم کے واقعات اس میں مزید شدت کا سبب بنیں گے۔ اسامہ بن لادن کی لاش سمندر برد کرنے کی کارروائی پر مسلم دنیا میں اشتعال پھیل رہا ہے اور شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ یہاں ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر عراقی کمانڈوز جارج ڈبلیو بش کے کمپاﺅنڈ میں اتر کر انہیں قتل کرتے اور پھر ان کی لاش اٹلانٹک میں پھینک دیتے تو اس پر ہمارا کیا ردعمل ہوتا۔ اس میں کسی حیل حجت کی مطلق کوئی گنجائش نہیں کہ بش کے جرائم اسامہ بن لادن کے جرائم سے کہیں زیادہ ہیں اور پھر یہ بات بھی قطعی غیر متنازعہ ہے کہ بش کوئی ”مشتبہ“ شخص نہیں بلکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انہوں نے ایک انتہائی ہولناک بین الاقوامی جرم کے ارتکاب کے احکامات کے لیے بڑا فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ایک ایسا سنگین اور گھناﺅنا جرم جو دیگر جنگی جرائم سے صرف اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس کے اندر بحیثیت مجموعی قبیح ترین جنگی جرائم کی تمامتر خرابیاں اور خباثتیں موجود ہیں (جن کا حوالہ نیور مبرگ ٹرائل میں دیا گیا ہے) جن کی پاداش میں نازی مجرموں کو پھانسی چڑھا دیا گیا مگر ہزار ہا لوگوں کی ہلاکت، لاکھوں انسانوں کو دربدر بھٹکنے اور پناہ گزینی کا عذاب سہنے پر مجبور کرنا، ملک کے بیشتر حصہ کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردینا اور ایک ایسے فرقہ وارانہ تصادم کو جنم دینا جو کہ اب خطہ کے باقی ماندہ علاقوں تک پھیل چکا ہے، کسی بھی طور نازی جرائم سے کچھ کم سنگین جرائم نہیں ہیں۔ یہاں بش کے اس ”نظریہ“ کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا جاسکتا ہے کہ جو معاشرے دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں وہ بھی اتنے ہی قصور وار ہیں جتنے کہ خود دہشت گرد لہٰذا وہ بھی اسی سلوک کے مستحق ہیں۔ کسی کو اس کا ذرا بھی احساس نہیں کہ اس طرح بش امریکا حملے، اس کی تباہی اور مجرم صدر کے قتل کی کھلی دعوت دے رہے تھے۔ یہاں اور لینڈوبوچ کی مثال کافی ہے جو کیوبا کا باشندہ اور کاسترو کا جانی دشمن تھا اور سی آئی اے کے لیے کام کرتا تھا۔ اس نے اکتوبر 1976ءمیں کیوبن ایئر لائن کی پرواز نمبر 455 میں بم رکھ دیا تھا جس کے نتیجہ میں یہ مسافر بردار طیارہ تباہ ہوگیا تھا اور اس میں سوار تمام 73 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ طیارے کی تباہی کی منصوبہ بندی کرنے والے سی آئی اے کے اس کیوبن ایجنٹ اور لینڈوبوچ نے اپنی باقی زندگی بڑے عیش و آرام سے فلوریڈا میں گزاری۔ آپریشن ”جیرونیمو“ کا نام بھی اسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ پورے مغربی معاشرے میں سامراجی اور استعماری ذہنیت کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ ان کے لیے اس کا تصور بھی محال ہے کہ وہ اسامہ بن لادن کی داستانوں کے ذریعہ دراصل نسل کشی پر تلے ہوئے (مغربی) حملہ آوروں کے خلاف اسامہ کی جرا ¿ت مندانہ مزاحمت کی ستائش کرنے اور ان کی بہادری کے گن گانے میں مصروف ہیں۔ امریکنوں کی جانب سے اپنے آلہ قتل اور ہلاکت خیز ہتھیاروں کو اپنے جرائم کا نشانہ بننے والے اپاچی، ٹوماہاک کے ناموں سے موسوم کرنے کا یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے جرمن فضائیہ لغت ویف نے اپنے لڑاکا طیاروں کو ”یہودی“ اور ”جپسی“ کے نام سے موسوم کردیا ہو۔ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر اتنہائی واضح اور بنیادی حقائق ہمیں غور و فکر کے لیے بہت اچھا موقع اور مورد فراہم کرتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment