جب اسلامی تارےخ کی پہلی مسلم نوزائےدہ رےاست، اپنی تشکےل کے ابتدائی مراحل سے گزررہی تھی تو رےاست کے سربراہ کو ےہ اطلاع موصول ہوئی کہ رےاست کے تمام دشمن متحد ہوکر اور اپنی تمام تر طاقت مجتمع کر کے بے پناہ اسلحہ اور دس گنا افرادی قوت کے ساتھ اس ننھی اور کمزور ریاست کو، جس کی عسکری قوت مخالف لشکرکے مقابلے مےں تقرےباً نہ ہونے کے برابر ہے، نیست ونابود کرنے کے ارادے سے روانہ ہوچکے ہےں، ےہ خبر ملتے ہی اس کمزور رےاست کے سربراہ نے اپنے ساتھےوں کا مشاورتی اجلاس طلب کرلےا اور رےاست کے دفاع اور دشمن کو شکست دینے کی حکمت عملی پر غور وفکر، صلاح مشورے اور منصوبہ بندی کا عمل شروع کردےا۔ جی ہاں! مےں تارےخ اسلام کی مشہور ومعروف جنگ جسے غزوہ احزاب یا غزوہ خندق کے نام سے بھی پکارا جاتاہے، اسی کا ذکر کر رہا ہوں۔ جسے دنےا کی معلوم تاریخ سے لے کر اب تک کی بہترےن دفاعی جنگ قرار دےا جاتا ہے۔ ےہ جنگ جس کمانڈر کی قےادت مےں لڑی گئی، تاقےامت اس سے بہترکمانڈر، اور اس کمانڈرکی زےرقےادت لڑنے والی سپاہ دنےا کی کسی بھی فوج کو اب نصےب نہےں ہوسکتی۔ آپ نےٍ سب سے پہلے اپنی افرادی قوت اور آلات حرب کا دشمن کی متحدہ افواج کے ساتھ تقابلی جائزہ لےا یعنی اپنی اور دشمن کی قوت کا تخمینہ لگاےا۔ واضح رہے کہ اس جنگ مےں مدےنے کے مسلمانوںکی قلےل تعداد کے مقابلے مےں تمام کفار قبائل اور تمام اہل ثروت ےہودی قبائل کی متحدہ قوت تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اےک صحابی، جن کانام حضرت سلمان فا ر سیؓ تھا کی تجوےز پر اےک گہری خندق کھدوائی جسے عبور کرنا تقرےباً ناممکن تھا۔ احد پہاڑ کو عقب مےں رکھا۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا اور دشمن کا انتظار شروع کر دےا مخالف لشکر خندق کے اس پارہی رک کر پڑ اﺅڈالنے پر مجبور ہوگےا اور مہےنوں تک مسلمانوں کو محصور کیے پڑا رہا۔ لےکن آپ نے اس متوقع محاصرے کے پےش نظر تمام انتظامات پیشگی ہی مکمل کر لیے تھے جن مےں خوراک اور پانی کا بندوبست سر فہرست تھا۔ لےکن اس دوران آپ نے دشمن کا محاصرہ ختم کرنے کے لیے جن جنگی حربوں کا استعمال کےا ان کے بارے مےں جان کر عقل حےران رہ جاتی ہے۔ یہ جنگی چالےں اور دفاعی حکمت عملی اس امر کا ثبوت ہے کہ جنگ لڑنے، اپنی قوت کو محفوظ رکھنے، اپنی سپاہ کی جان کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اس افرادی قوت کو جو عملی طورپر جنگ مےں شرےک نہ تھی جن مےں خواتےن اور بچے بھی شامل تھے ان کی جان ومال کا تحفظ کرنے میں آپ کا دور دور تک کوئی ثانی نہ تھا۔ آپ نے سب سے پہلے تو ان لوگوں کو جو اےمان لاچکے تھے اور انہوں نے ابھی اپنے مسلمان ہونے کا باضابطہ اعلان نہےں کےا تھا مصلحتاً اس اعلان سے روک دےا۔ ایسے بے شمار افراد دشمن کے لشکر مےں موجود رہے اور دشمن اس حقےقت سے بے خبر ہی رہا کہ ان لوگوںکے ذرےعے ان کی ہر سرگرمی اور پلاننگ کی ہر خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک مسلسل پہنچ رہی ہے۔ آپ نے گوےا انٹلیجنس کا اےک ایسا مو ¿ثر نظام اس طرےقے سے تشکےل دےا کہ آپ کو دشمن کے ارادوں کی پل پل کی خبرےں ملتی رہےں اور آپ دشمن کے ارادوں سے آگاہ ہونے کے باعث پیشگی ہی دشمن کی چالوں کا توڑ کرنے مےں کا مےاب رہے۔ دوسرا کام آپ نے ےہ کےا کہ اپنے فعال رابطوںکے ذرےعے دشمن کے لشکر مےں ایسی خبرےں پھےلائےں کہ وہ بددلی کا شکار ہو گئے اور مختلف قبائل اور سردار ایک دوسرے کے بارے میںشکوک وشبہات مےں متبلا ہوگئے۔ گوےا دشمن کے لشکر مےں بڑے منظم طرےقے سے ڈس انفارمیشن آپ نے پھیلائی، یعنی آپ نے اپنے اور دشمن کے وسائل وقوت کو سامنے رکھتے ہوئے دفاعی حکمت عملی اختےار کر کے مسلمانوں کی محدود طاقت کو محفوظ بھی رکھا اور دشمن کی پےش قدمی روکنے مےں بھی کامےاب رہے تا کہ اپنی قوت مےں اضافہ کر کے مناسب وقت آنے پر دشمن سے حساب برابر کےا جاسکے اور وہ وقت جلد ہی فتح مکہ کی صورت مےں سامنے بھی آگےا۔
غزوہ خندق کے دوران، آپ کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ آپ اپنی فوج کو دشمن پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دیتے اور خود ایک کونے میں جائے نماز بچھا کر مسلمانوں کی فتح کے لیے دُعا کرنا شروع کردیتے۔ اِس دُعا کی قبولیت میں کوئی شک بھی نہ تھا۔ جس شخص سے خود جبرائیل طائف کے شرارتی لوگوں پر پہاڑ اُلٹ دینے کی اجازت طلب کریں، اُس شخص کے دشمنوں پر کیا خدا اپنا قہر نازل نہیں فرما سکتا تھا؟ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ کیوں؟ اگر آپ ایسا کرتے تو یہ آئندہ کے لیے مثال بن جاتی۔ آپ نے جنگی حربے اختیار کر کے اپنے وسائل کے مطابق ایک دفاعی جنگ لڑی، پھر اللہ تعالیٰ سے مدد کی دُعا کی اور یہ مدد ایک زور دار آندھی کی صورت میں نمودار ہوئی۔ دشمن کے خیمے اُکھڑ گئے، اِن کے برتن اُلٹ گئے اور اُس کے لشکر میں ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔ اِس طرح دشمن بد دل اور مایوس ہوکر ناکام و نا مُراد واپس جانے پر مجبور ہوگیا۔ تاریخ اسلام کے ہر طالب علم نے غزوہ خندق کا یہ باب ضرور پڑھا ہوگا۔ کاش اُسامہ بن لادن نے 11ستمبر 2001ء میں امریکی معاشی قوت کی علامت ٹریڈ ٹاور اور اِس کی عسکری طاقت کے نشان پینٹاگون کو نشانہ بنانے سے قبل تاریخ اسلام کے اِس چیپٹر پر بھی ایک نظر ڈال لی ہوتی تو اُمتِ مسلمہ اپنی 30 لاکھ کی افرادی قوت سے محروم نہ ہوتی۔ دس برسوں میں اُمتِ مسلمہ کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہی ہوتی۔ امریکا جیسی مسلمان دشمن ریاست کو شکست دینے کے لیے پہلے ہمیں خود کو داخلی طور پر مضبوط کرنا ہوگا۔ امریکی طاقت کا راز اس کے داخلی نظام کی مضبوطی میں پوشیدہ ہے اور غزوہ خندق ہمیں یہی سبق سکھاتا ہے کہ جب تک اپنی طاقت اتنی نہ بڑھا لی جائے کہ دشمن کو للکارا جاسکے اُس وقت تک جارحانہ حکمتِ عملی اختیار کرنے سے گریز کر کے دفاعی حکمتِ عملی اختیار کرنا ہی زیادہ بہتر ہے۔ لیکن اِس کے باوجود اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُسامہ بن لادن بہرحال ایک دلیر اور بے خوف مجاہد تھا اور وہ بہادر سپاہی کی شان سے ہی شہید ہوا۔ وہ ایک ایسا سپاہی تھا جو بہادر تو تھا لیکن بد قسمتی سے ایک ایسے لشکر میں شامل تھا جس کے سپہ سالار نے لڑنے سے قبل ہی ذہنی طور پرشکست قبول کر کے ہتھیار ڈال دےے ہیں۔ 57 اسلامی ممالک کے 57 سالاروں پر ایک نظر ڈالیں، حقیقت آپ کے سامنے آجائے گی۔
No comments:
Post a Comment