ترکی میں انصاف و ترقی پارٹی، جسے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کہا جاتا ہی، تیسری بار عام انتخابات میں نہ صرف جیت گئی بلکہ شاندار طریقے سے اپنی اکثریت ثابت کی ہے۔ ترکی کے 550 نشستوں کے ایوان میں 326 نشستوں پر کامیابی سے واضح برتری حاصل کی ہے۔ ترکی زبان میں اس پارٹی کا جو نام ہے اس کا مخفف اے۔ کے ہے۔ جسٹس پارٹی نے 66 صوبوں میں بھرپور کامیابی حاصل کی ہے اور حزب اختلاف صرف 8 صوبوں تک محدود رہی۔ ان میں بھی کوئی ایک پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔ مجموعی طور پر حزب اختلاف کو 25 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ جسٹس پارٹی کو دو تہائی اکثریت کے حصول میں مزید نشستوں کی ضرورت ہے اور ابھی کچھ نتائج آنا باقی ہیں۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرکے جسٹس پارٹی ایک نیا آئین تشکیل دے سکے گی اور ترکی کو فوج کے بنائے ہوئے سیکولرآئین سے چھٹکارا دلا سکے گی۔ جسٹس پارٹی کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت سے ظاہر ہے کہ ترک عوام کی اکثریت سیکولر ازم اور فوجی آئین کے خلاف ہے۔ یہ آئین خلافت کے مرکز کو ختم کرکے اور انگریزوں کی سازش سے آخری خلیفة المسلمین کو ٹھکانے لگانے کے بعد ایک فوجی افسر مصطفی کمال نے مسلط کیا تھا جس نے ایک عرصہ تک خود کو ”اتا ترک“ یعنی ترکوں کا باپ کہلوایا۔ لیکن اب ترکوں کی اکثریت اسے اتاترک کہنے پر تیار نہیں۔ انگریزوں کی منظم کوششوں سے اس کے محروسہ علاقوں میں بھی مصطفی کمال کو اتاترک اور ترکی کا نجات دہندہ کہا اور لکھا جانے لگا۔ پاکستان کے اسکولوں کے نصاب میں بھی یہی درس دیا جاتا تھا۔ نصاب بنانے والے پہلے بھی مغربی استعمار سے مرعوب تھے اور اب بھی ہیں۔ حیرت ہے کہ پاکستان سیکولرازم کے نام پر نہیں اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا پھر بھی یہاں اسلام اور مسلمانوں کی شاندار تاریخ رکھنے والے ملک ترکی میں مصطفی کمال کو سیکولرزم کے بانی کی حیثیت سے روشناس نہیں کرایا گیا جس نے اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔ مساجد اور مدارس پر پابندیاں تھیں۔ نہ صرف عربی رسم الخط ممنوع تھا بلکہ اذان بھی ترکی زبان میں دینے کا حکم تھا۔ قرآن کریم کا پڑھنا اور تعلیم دینا جرم بن گیا تھا۔ اہل ترکی نے بڑی دشواریوں سے گزر کر اپنا ایمان سلامت رکھا اور قرآن کریم کو چھپ چھپ کر اپنے سینوں میں اتارا۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھی ان کو اظہار رائے کی آزادی کا موقع ملا انہوں نے اپنا فیصلہ سیکولرزم اور فوجی آئین کے خلاف دیا۔ فوج کے سامنے پہلی چٹان نجم الدین اربکان (مرحوم) کے روپ میں سامنے آئی۔ انہوں نے جمہوری طریقے سے انتخابات میں حصہ لے کر کامیابی حاصل کی اور حکومت بنائی۔ ترکی کے جرنیلوں کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آنے لگا۔ چنانچہ انہی دنوں ترک فوج کے سربراہ نے اعلان کیا کہ ترکی کی فوج سیکولرزم کی محافظ ہے۔ حالانکہ نجم الدین اربکان بڑی احتیاط سے آگے بڑھ رہے تھے پھر بھی پہلے تو بے جا قسم کی پابندیاں عائد کی گئیں پھر نجم الدین اربکان کی حکومت توڑ دی گئی۔ ان کی رفاہ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن انہوں نے جو راستہ کھول دیا تھا وہ فوج سے بند نہ ہوسکا۔ رفاہ پارٹی فضیلت پارٹی کے روپ میں سامنے آئی اور پھر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے نام سے اقتدار میں ہے۔ موجودہ وزیراعظم جناب رجب طیب ایردوغان جب استنبول کے نہایت مقبول میئر تھے تو انہوں نے ایک ترک شاعر کے اشعار پڑھ ڈالے تھے جن میں مساجد کی عظمت بیان کی گئی تھی۔ اس جرم میں انہیں سزا کاٹنی پڑی لیکن فوج کے تمام جبر و استبداد کے باوجود ترک عوام کی اسلام سے محبت بڑھتی چلی گئی۔ گزشتہ انتخابات کے موقع پر سیکولر عناصر نے فوج کی شہ پر بڑے بڑے احتجاجی جلوس نکالے لیکن وہ بے اثر رہے۔ اب بھی خدشہ ہے کہ ان کی طرف سے ہنگامہ ہو گا۔ لیکن عوام نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ عوامی تائید کی وجہ سے فی الوقت فوج بھی کسی مہم جوئی کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ چند ماہ پہلے حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں کئی فوجی افسر گرفتار کیے گئے تھے اور ابھی پچھلے ماہ دو حاضر سروس جنرل بھی پکڑے گئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ فوج بے بس ہوتی جارہی ہے لیکن فوجی بغاوت کا ظہور کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ ہر چند کہ فوج بزعم خود اس سیکولرزم کی محافظ ہے جو ترکی میں دم توڑ رہا ہے لیکن عالمی دہشت گرد امریکا کسی بھی مسلم ملک میں امن و امان نہیں دیکھنا چاہتا اور اسلام پسندوں کا عروج تو اسے کسی بھی حالت میں قبول نہیں۔ چنانچہ سی آئی اے ترکی میں بھی بغاوت کرواسکتی ہے۔ الجزائر میں عباسی مدنی کی قیادت میں اسلام پسندوں نے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی لیکن وہاں بھی امریکا اور اس کے صلیبی حواریوں نے فوج کی مدد سے انہیں اقتدار سے دور رکھا اور عباسی مدنی ایوان اقتدار کے بجائے جیل بھیج دیے گئے۔ ترکی میںیہی کھیل کھیلنے کی کوشش کی گئی تو بہت خون خرابہ ہوگا جس میں فوج کی ساکھ بالکل ختم ہوجائے گی۔ جمہوری انتخابی نتائج کو دیکھتے ہوئے فوج کو بھی اپنے کردار پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور اس وہم سے باہر نکلنا ہوگا کہ وہ اس سیکولرازم کی محافظ ہے جسے عوام نے مسترد کردیا ہے۔ سیکولرزم کو مسترد کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ ترکوں نے فوج کے غلبہ اور اس کے دیے ہوئے آئین کو بھی مسترد کردیا ہے۔ یہ استرداد پاکستان میں کئی بار ہوچکا ہے لیکن یہاں فوج گھوم پھر کر، ایک وقفہ کے بعد تازہ دم ہو کر پھر اقتدار میں آجاتی ہے۔ آئین کو بے معنی دستاویز قرار دے دیا جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہی سے فوج کو یہ باور کرادیا گیا تھا کہ اس کا کام حکومت کرنا ہی، ہر وردی پوش حاکم اور عوام کیڑے مکوڑے ہیں۔ بلاشبہ اس غلط فہمی کو پختہ کرنے میں ان جاگیردار سیاستدانوں کا بھی ہاتھ ہے جو فوج کے کندھوں پر چڑھ کر اقتدار کے بالا خانے تک پہنچنا چاہتے تھے۔ بھٹو صاحب ہوں یا میاں نواز شریف، سب ہی نے فوج کی بیرکوں میں تربیت حاصل کی۔ اب بھی وکی لیکس نے امریکی سفارتکاروں کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ پیپلز پارٹی نے آصف زرداری کو صدر بنانے کے لیے فوج سے رابطے کیے۔ یہ تاثر آج بھی عام ہے کہ حکومت اور حکمرانوں کا فیصلہ فوج ہی کرتی ہے۔ ترکی میںصورتحال بدل چکی ہے۔ جسٹس اینڈ ڈ ڈویلپمنٹ پارٹی عوام کی تائید و حمایت سے آگے بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں فی الحال ایسی کوئی پارٹی نظر نہیں آرہی جو عوام کی اتنی بھاری حمایت کی حامل ہو کہ صحیح معنیٰ میں جمہوریت لاسکے۔ سیکولرزم کے علمبردار پاکستان میں بھی بہت ہیں جو اب چولا بدل کر لبرل ازم اور ماڈریٹ اسلام کی بات کرتے ہیں۔ ترکی کے رہنما رجب طیب ایردوغان نے عوام کو معاشی استحکام بھی دیا ہے لیکن پاکستان میں 9سال کے فوجی تسلط کے بعد جو جمہور ی حکومت آئی ہے اس نے سب سے پہلے ملک کی معیشت ہی کا بیڑا غرق کیا ہے اور جو لوٹ مار مچائی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود پیپلز پارٹی کو بھی آئندہ اقتدار ملنے کی امید نہیں۔ مایوسی اور وہ بھی حکمرانوں کی، ایسے ہی مناظر دکھاتی ہے۔ پاکستان میں آج تک کوئی پارٹی مسلسل تیسری مرتبہ اقتدار میں نہیں آسکی۔ سیاستدانوں کو ترکی سے سبق حاصل کرنا چاہیی، خاص طور پر دین کے غلبہ کے لیے سیاست کرنے والوں کو۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اسلام پسند کہلاتی ہے اور اسی تشخص کے ساتھ آگے بڑھی ہے۔ پاکستان کے عوام بھی دین سے محبت اور غلبہ اسلام کی خواہش میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں لیکن انہیں دین کے نام پر بھی بری طرح تقسیم کردیا گیا ہے اس پر مستزاد لبرل ازم کا بھوت۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو ایک اور کامیابی مبارک ہو اس دعا کے ساتھ کہ کاش پاکستان میں بھی مثبت تبدیلی آئے اور جلد آئے کہ حالات بدتر ہورہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment