Wednesday, June 15, 2011

نوآبادیاتی دورکا تسلسل

 ہمارا حکمران طبقہ نو آبادیاتی طاقتوں اور ان کے دورکا تسلسل ہے اور نوآبادیاتی طاقتیں تہذیبی‘ تاریخی‘ علمی اور عسکری برتری کے شدید احساس کی علامت تھیں۔ ان طاقتوں کا خیال تھا کہ سفید فام نسل ایک برتر نسل ہے اور اس نسل کا فرض ہے کہ سیاہ فاموں کو جہاں تک ممکن ہو مہذب بنائے۔ ان طاقتوں کی نفسیات آقاﺅں کی نفسیات تھی اور وہ غیرسفید فاموں کو اپنا غلام سمجھتے تھے۔ انگریز چلے گئے مگر وہ اپنی جگہ کالے انگریز چھوڑ گئے۔ کالے انگریزوں کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ ان میں انگریزوں کی خوبی ایک بھی نہیں ہے البتہ خامیاں تمام ہیں۔ چنانچہ یہ طبقہ مقامی لوگوں کے لیے انگریزوں سے بھی زیادہ جان لیوا ثابت ہوا ہے۔ اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے فوجی اور عام لوگوں کو "Bloody civilians" قرار دیتے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ ہمارے فوجیوں کا تصور قوم ہے یہ ان کا تصور عوام ہے۔ اس تصور قوم اور اس تصور عوام میں ساری تہذیب‘ ساری اہلیت‘ ساری صلاحیت‘ سارا علم اور سارے کارنامے فوجی حکمرانوں کے لیے ہیں۔ سول حکمرانوں کا معاملہ فوجی حکمرانوں سے کم بدتر ہے لیکن وہ بھی آقا اور غلام ہی کی نفسیات کے ساتھ قوم پر حکمرانی کرتے ہیں اور ان کی نظر میں عوام کا کام یہ ہے کہ وہ حکمرانوں کے لیے جان دیں ان کے لیے نعرے لگائیں۔ انہیں سرآنکھوں پہ بٹھائیں۔ ان کے لیے جلسے جلوس کریں۔ انتخابات ہوں تو انہیں ووٹ اور نوٹ دیں۔
آقا اور غلام کے تعلق کا ایک پہلو یہ ہے کہ غلام جوکچھ مانگتا ہے آقا کو محسوس ہوتا ہے کہ غلام کی ضرورت زیادہ ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں۔ چنانچہ آقا غلام کی درخواست پر توجہ نہیں دیتا۔ اسے خاطر میں نہیں لاتا۔ بلکہ اسے اس درخواست میں ناشکری اور بغاوت کی بو آنے لگتی ہے اور وہ اسے یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔ آقا یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ اگر غلام کا ایک مطالبہ تسلیم کرلیا گیا تو مزید مطالبات سامنے آئیں گے چنانچہ وہ گربہ کشتن روز اوّل کے فلسفے پر عمل کرتا ہے اور غلام کے اولین مطالبات کو پوری شدت سے مستردکر دیتا ہے۔
زندگی کے مسائل دلائل کی بنیاد پر بھی حل کیے جاسکتے ہیں اور ان کے لیے فریقین کے درمیان گفت وشنید ہوسکتی ہے‘ مذاکرات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ لیکن مکالمے کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ مکالمہ ”مادی قوتوں“ کے درمیان ہوتا ہے یا اگر نہیں ہوتا تو مکالمہ دو غیرمساوی قوتوںکو بھی مساوی بنا دیتا ہے اور یہ بات آقا اور غلام کی نفسیات کے دائرے میں عمل کرنے والے کسی شخص کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ دلیل کا معاملہ یہ ہے کہ جس کے پاس عقل زیادہ ہوتی ہے دلیل اس کے پاس چلی جاتی ہے اور ممکن ہے کہ عقل غلام کے پاس زیادہ ہو۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دلیل طاقت کی بساط پر آقا کو کمزور اور غلام کو طاقتور بنا کر اُبھار سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی آقا کو دلیل پسند نہیں آتی اور وہ ”دلیل کی طاقت“ کے بجائے ”طاقت کی دلیل“ کو اپنے لیے زیادہ مفید مطلب سمجھتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمران طاقت کی زبان کیوں سنتے ہیں۔؟ 
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پوری شخصیت طاقت مرکز‘ یا Power centric ہوتی ہے۔ وہ طاقت کی فضا میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس میں پروان چڑھتے ہیں۔ وہ طاقت کی زبان بولتے ہیں اور طاقت ہی کی زبان کی سمجھتے ہیں چنانچہ جب عوام اپنی اجتماعی زندگی کے فیصلے سڑکوں پر آکر کرنے لگتے ہیں۔ جلسے جلوس کرتے ہیں۔ مظاہرے کرتے ہیں۔ توڑ پھوڑ کرتے ہیں تو حکمرانوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ہورہا ہے۔ ان کا حریف ایک ایسی زبان میں بات کرتا ہے جو ان کی زبان سے ملتی جلتی ہے اور ان کے لیے کسی بھی وقت ضرر رساں ہوسکتی ہے۔ اس ادراک کے ساتھ وہ عوام کی بات سننے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
بعض لوگوں کو اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ حکمران طبقہ ملک کے منتخب ایوانوں کو موثر نہیں ہونے دیتا۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ صورتحال بھی نو آبادیاتی دور کا تسلسل ہے۔ مثلاً انگریزوں کے زمانے میں نامزد افراد پر مشتمل قانون ساز ادارہ موجود تھا۔ وائسرائے کی خصوصی کونسل اپنا کام کرتی تھی۔ لیکن یہ ادارے غلاموں کے مسائل حل کرنے کے لیے نہیں بلکہ مقامی افراد کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے قائم کیے گئے تھے۔ ان اداروں میں بحث وتمحیص ہوتی تھی مگر فیصلہ وہیں ہوتا تھا جو انگریز چاہتے تھے۔ اس وقت بھی یہی صورتحال ہے۔ پارلیمنٹ موجود ہے اور وہ امریکا کی مداخلت پر قراردادیں منظورکرسکتی ہے مگر ہو وہی رہا ہے جو ”کالے انگریز“ چاہ رہے ہیں۔ 

No comments:

Post a Comment