ترکی میں 1925ءمیں مغربی سازشوں کے نتیجے میں مصطفےٰ کمال نے جب خلافت عثمانیہ کی بساط لپیٹی اور پارلیمان میں سیکولر دستور کا مسودہ پیش کیا تو زائرین و مہمانان کی گیلری سے ایک اکلوتی آواز بلند ہوئی کہ تم لوگ ملک کا قبلہ تبدیل کر رہے ہو، ترک عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔ اس کے جواب میں طاقتور لادین مافیا کے کرتا دھرتا غصے سے لال پیلے ہوگئے اور بیک زبان کہا کہ ترکی کا دستور اب سیکولر ہوگا اور یہاں سیکولرسٹوں ہی کو اقتدار کا حق ہوگا۔ حق کی اکلوتی صدا ترکی کے مرد درویش بدیع الزمان سعید نورسی کی تھی۔ مادہ پرستوں نے سال ہا سال اس صدائے حق کا خوب مذاق اڑایا اور اسے دیوانے کی بڑ قرار دیا گیا۔ سعید نورسی نے اپنی زندگی کا بیش تر حصہ جیل میں گزارا۔ پچھلی صدی میں 50 کی دہائی میں عدنان میندریس برسر اقتدار آیا تو اس نے سیکولرازم سے دین کی طرف پیش قدمی کے لیے کچھ اقدامات کیے مگر بڑی احتیاط کے ساتھ۔ اس کے نتیجے میں کچھ لوگوں نے کہا کہ نورسی کی آواز دیوانے کا خواب نہیں حقیقت کا روپ دھار رہی ہے مگر فوجی جرنیلوں نے اپنی لا دینیت کا ثبوت دیتے ہوئے فی الفور حرکت کی اور ترکی کا ایک قیمتی سپوت عدنان پھانسی کے پھندے سے لٹکا دیا گیا۔
ترکی میں لا دینیت اور اسلام کی کشمکش جاری رہی مگر عجیب بات یہ ہے کہ سیکولر سٹ تو ترکی دستور کی دی گئی آزادی کے مطابق کھل کر اپنا پروپیگنڈہ کرتے رہے ،جبکہ اسلام پسند قوتیں دستوری پابندیوں کی وجہ سے مذہب اور دین کا نام کھلم کھلا استعمال کرنے سے قاصر رہیں۔ اس جکڑ بندی کی بدولت انھوں نے علامات اور اپنے کردار کو کیش کرایا۔ فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی کے علاوہ میڈیا بھی لادینیت کا علمبردار تھا۔ پھر مغربی قوتوں کی سرپرستی بھی اس مضبوط گروہ کو حاصل تھی۔ ان حالات میں پروفیسر انجینئر نجم الدین اربکان ؒ میدان میں اترے اور سچی بات یہ ہے کہ اپنی معجز نماشخصیت اور اعلیٰ کردار کی بدولت مشکل گھاٹیوں سے اپنا راستہ بناتے ہوئے اسلامائزیشن کے کام کو کافی حد تک آگے بڑھانے میں کامیاب ہوگئے۔ رائے عامہ کو سیکولر عناصر کس طرح اپنے حق میں استعمال کرتے تھے، اس کی یہ مثال بہت دلچسپ ہے کہ عدنان میندریس کی پھانسی کے بعد اس کی مقبولیت کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے سلیمان دیمرل نے عام انتخابات میں پھانسی کا پھندہ انتخابی نشان کے طور پر منتخب کیا اور اسے ملکی نظام نے اس کی اجازت بھی دے دی۔ اس کے نتیجے میں وہ انتخابات جیت گیا۔
اسلام پسند قوتوں نے ترکی میں کمال صبر و ہمت اور عزم و استقامت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا اور لا دین نظام میں بھی اپنی کامیاب حکمتِ عملی اور عوامی تائید کے ساتھ ووٹ کے ذریعے ایوانِ اقتدار تک پہنچنے میں کئی بار کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابی سب سے پہلے نجم الدین اربکان مرحوم نے حاصل کی تھی۔ بعد میں انھی کے تربیت یافتہ شاگردوں نے رجب طیب ایردوغان کی قیادت میں زیادہ قوت اور اپنی پارٹی کی اکثریت کے بل بوتے پر یہ ریکارڈ قائم رکھا۔ یہ موضوع اپنی جگہ اہم بھی ہے اور باعث افسوس بھی کہ اربکان صاحب کی جمعیت حصوں میں بٹ گئی اور انھیں موجودہ حکمران اسلامی گروپ سے شدید قسم کی شکایات بھی تھیں مگر یہ امر بہرحال خوش آیند ہے کہ رجب طیب ایردوغان اور ان کے تمام ساتھی اسی فکر کو ایک مختلف اور نسبتاً زیادہ محتاط انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں جس کی آبیاری اربکان مرحوم نے کی تھی۔ اربکان صاحب کی اپنی باقی ماندہ پارٹی پھر 2حصوں میں بٹ گئی ہے اور اپنے صاف ستھرے اور مثبت عکس کے باوجود عام ووٹر (جوان سے محبت بھی کرتا ہے اور انھیں کامیاب دیکھنے کا متمنی بھی ہے) کا ووٹ حاصل نہ کرسکی۔ اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ ان کے ووٹرز نے سوچا، ان کے حق میں ووٹ استعمال کرنے سے انھیں بڑی کامیابی تو نہ مل سکے گی البتہ اسلامی خیالات کی حامل جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی، سیکولر جماعت پیپلز ریپبلکن سے مات کھا جائے گی۔ چنانچہ یہ اسلامی گروپ 10فیصد کا ہدف بھی پورا نہ کرسکے۔ ایسا ہی تجربہ پاکستان میں جماعت اسلامی کو بھی بارہا ہوا ہے۔
گذشتہ اتوار 12 جون 2011ءکو ترکی میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔ ان کے مطابق حکمران پارٹی کا ووٹ بنک بھی بڑھا ہے اور نشستیں بھی، تاہم سیاسی تجزیہ نگار جن توقعات کا اظہار کر رہے تھے، وہ پوری نہ ہوسکیں۔ عام خیال یہ تھا کہ اردگان دو تہائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ان کے لیے سیکولر دستور کو تبدیل کرناممکن ہوجائے گا۔ وہ شاندار کامیابی کے باوجود اس مرتبہ بھی دو تہائی تک نہیں پہنچ پائے۔ ان کو 49.9 یعنی تقریباً نصف ووٹ حاصل ہوئے ہیں اور ان کی نشستیں 550کے ہاﺅس میں متناسب نمائندگی کے اصول پر 367 ہیں۔ ایک آدھ سیٹ حتمی نتائج میں بڑھ سکتی ہے۔ ان کے مد مقابل مصطفےٰ کمال کی وارث پارٹی پیپلز ریپبلکن کو 25.9 یعنی تقریباً 26 فیصد ووٹ ملے ہیں اور 135 نشستیں ان کے حصے میں آئی ہیں۔ دیگر پارٹیوں میں سے صرف ایک پارٹی ہی 10 فیصد ووٹوں کا دستوری ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے جبکہ باقی کوئی سیاسی جماعت یہ حد عبور نہیں کرسکی۔ یہ پارٹی نیشنل موومنٹ کے نام سے میدانِ عمل میں ہے اور اس کے ووٹوں کا تناسب 13 فیصد اور نشستیں 53 ہیں۔ آزاد ارکان بالخصوص کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والی علاقائی پارٹیوں کے ارکان نے اپنی آزاد حیثیت میں اپنے علاقوں میں انتخاب لڑا اور ان میں سے 36ارکان کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے مجموعی ووٹ 6.6 فیصد بنتے ہیں۔ جو پارٹیاں 10فیصد سے نیچے رہ جائیں ان کے ووٹ اس ہدف کوعبور کرنے والی پارٹیوں کے درمیان ان کے ووٹوں کے تناسب سے تقسیم ہوجاتے ہیں اور ان کی نشستوں میں اس کے مطابق اضافہ ہوجاتا ہے۔
550 کے ہاﺅس میں دستور تبدیل کرنے کے لیے 2 تہائی یعنی 367 ارکان ضروری ہیں جبکہ سادہ اکثریت کے لیے 276 ارکان درکار ہوتے ہیں۔ اب حکمران پارٹی 326 نشستوں کے ساتھ کسی قسم کی دقت کے بغیر حکومت سازی کا عمل مکمل کرسکتی ہے۔ اردگان صاحب کا تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننا بھی ایک ریکارڈ ہے۔ ان سے قبل کئی مرتبہ معلق پارلیمان وجود میں آتی رہی اور ہر مرتبہ مخلوط حکومتیں بنتی رہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اہم ترین اضلاع میں سے 65 میں اردوگان نے کامیابی حاصل کی ہے اور بالخصوص یہ ایک بڑی پیش رفت ہے کہ اول سے آخر تک پیپلز پارٹی روایتی طور پر جن خطوں میں ہمیشہ جیتتی رہی ہے، اس مرتبہ ان میں سے انطالیا، ہاتائی، مرسین اور جند قلعہ کے علاقوں میں اردگان کی جماعت نے اس پارٹی کو شکست فاش دی ہے۔ اس سے حکمران پارٹی اور اس کی قیادت کی مقبولیت اور پیش قدمی کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔
اردگان کی کامیابی کی بڑی وجوہات میں سے اولین ان کی شفافیت اور مجموعی طور پر ملک کی اقتصادی صورت حال کی بہتری ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے برسر اقتدار آنے کے وقت ترکی معاشی زوال کا شکار تھا۔ فی کس آمدنی کا گراف 6700 ڈالر سالانہ پر تھا جو آج 10075ڈالر فی کس پر ہے۔ عظیم بات یہ ہے کہ حکومتی اداروں کے اخراجات بڑھانے کی بجائے کم کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ حکمران جماعت کا امیج شرافت و دیانت اور غیر جانبداری بھی ہے۔ ساتھ ہی ان کو اسلام پسند اور قدامت پرست بھی کہا جاتا ہے مگر اب یہ گالی نہیں، ایک اعزاز سمجھا جانے لگا ہے۔ واضح رہے کہ مسلسل کئی سالوں سے عالمی صہیونی لابی اردگان کی کردار کشی میں مصروف عمل ہے مگر اس سیاستدان کے کارنامے ان کی طاقتور اور منہ زور ایجنسیوں کے ہر منصوبے کو ناکام کرنے میں کامیاب ٹھہرے ہیں۔
ترک حکومت نے گزشتہ سال صہیونی مظالم کے خلاف احتجاج اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے ایک بحری بیڑہ روانہ کیا تھا جس پر محصورین غزہ کے لیے ادویات و خوراک کی اشیا تھیں اور یہ مکمل طور پر غیر مسلح تھا۔ اس پر ترکوں کے علاوہ کم و بیش دنیا کے ہر خطے کے مسلمان و غیر مسلم رضا کار یکساں ذوق و شوق کے ساتھ انسانی ہمدردی کے تحت شریکِ کارواں تھے۔ اسرائیل نے اس فلوٹیلا پر حملہ کرکے نو افراد کو قتل اور بیسیوں کو زخمی کر دیا تھا۔ اس سال بھی ترک حکومت نے وزیر خارجہ احمد داﺅد او غلوکی سربراہی میں ایک بیڑہ غزہ روانہ کرنے کے لیے تیاری کی تھی۔ گزشتہ سال کی یاد میں اسے 31 مئی کو روانہ ہونا تھا مگر ترکی کے عام انتخابات کے پیش نظر ترکی حکومت نے اسے انتخابات کے بعد تک ملتوی کر دیا کہ کہیں اسے الیکشن سٹنٹ نہ سمجھا جائے، اسرائیل نے اس انسانی ہمدردی کے عمل کو تخریب کاری قرار دیا ہے اور اردگان کی کامیابی کو مستقبل کے لیے شگونِ بد سے تعبیر کیا ہے۔ اللہ کرے اسرائیل کے لیے یہ فی الحقیقت شگونِ بدہی ثابت ہو اور عالمِ اسلام بالخصوص مظلوم فلسطینیوں کے حق میں باعثِ خیر و برکت بن جائے۔
ترکی میں لا دینیت اور اسلام کی کشمکش جاری رہی مگر عجیب بات یہ ہے کہ سیکولر سٹ تو ترکی دستور کی دی گئی آزادی کے مطابق کھل کر اپنا پروپیگنڈہ کرتے رہے ،جبکہ اسلام پسند قوتیں دستوری پابندیوں کی وجہ سے مذہب اور دین کا نام کھلم کھلا استعمال کرنے سے قاصر رہیں۔ اس جکڑ بندی کی بدولت انھوں نے علامات اور اپنے کردار کو کیش کرایا۔ فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی کے علاوہ میڈیا بھی لادینیت کا علمبردار تھا۔ پھر مغربی قوتوں کی سرپرستی بھی اس مضبوط گروہ کو حاصل تھی۔ ان حالات میں پروفیسر انجینئر نجم الدین اربکان ؒ میدان میں اترے اور سچی بات یہ ہے کہ اپنی معجز نماشخصیت اور اعلیٰ کردار کی بدولت مشکل گھاٹیوں سے اپنا راستہ بناتے ہوئے اسلامائزیشن کے کام کو کافی حد تک آگے بڑھانے میں کامیاب ہوگئے۔ رائے عامہ کو سیکولر عناصر کس طرح اپنے حق میں استعمال کرتے تھے، اس کی یہ مثال بہت دلچسپ ہے کہ عدنان میندریس کی پھانسی کے بعد اس کی مقبولیت کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے سلیمان دیمرل نے عام انتخابات میں پھانسی کا پھندہ انتخابی نشان کے طور پر منتخب کیا اور اسے ملکی نظام نے اس کی اجازت بھی دے دی۔ اس کے نتیجے میں وہ انتخابات جیت گیا۔
اسلام پسند قوتوں نے ترکی میں کمال صبر و ہمت اور عزم و استقامت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا اور لا دین نظام میں بھی اپنی کامیاب حکمتِ عملی اور عوامی تائید کے ساتھ ووٹ کے ذریعے ایوانِ اقتدار تک پہنچنے میں کئی بار کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابی سب سے پہلے نجم الدین اربکان مرحوم نے حاصل کی تھی۔ بعد میں انھی کے تربیت یافتہ شاگردوں نے رجب طیب ایردوغان کی قیادت میں زیادہ قوت اور اپنی پارٹی کی اکثریت کے بل بوتے پر یہ ریکارڈ قائم رکھا۔ یہ موضوع اپنی جگہ اہم بھی ہے اور باعث افسوس بھی کہ اربکان صاحب کی جمعیت حصوں میں بٹ گئی اور انھیں موجودہ حکمران اسلامی گروپ سے شدید قسم کی شکایات بھی تھیں مگر یہ امر بہرحال خوش آیند ہے کہ رجب طیب ایردوغان اور ان کے تمام ساتھی اسی فکر کو ایک مختلف اور نسبتاً زیادہ محتاط انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں جس کی آبیاری اربکان مرحوم نے کی تھی۔ اربکان صاحب کی اپنی باقی ماندہ پارٹی پھر 2حصوں میں بٹ گئی ہے اور اپنے صاف ستھرے اور مثبت عکس کے باوجود عام ووٹر (جوان سے محبت بھی کرتا ہے اور انھیں کامیاب دیکھنے کا متمنی بھی ہے) کا ووٹ حاصل نہ کرسکی۔ اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ ان کے ووٹرز نے سوچا، ان کے حق میں ووٹ استعمال کرنے سے انھیں بڑی کامیابی تو نہ مل سکے گی البتہ اسلامی خیالات کی حامل جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی، سیکولر جماعت پیپلز ریپبلکن سے مات کھا جائے گی۔ چنانچہ یہ اسلامی گروپ 10فیصد کا ہدف بھی پورا نہ کرسکے۔ ایسا ہی تجربہ پاکستان میں جماعت اسلامی کو بھی بارہا ہوا ہے۔
گذشتہ اتوار 12 جون 2011ءکو ترکی میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔ ان کے مطابق حکمران پارٹی کا ووٹ بنک بھی بڑھا ہے اور نشستیں بھی، تاہم سیاسی تجزیہ نگار جن توقعات کا اظہار کر رہے تھے، وہ پوری نہ ہوسکیں۔ عام خیال یہ تھا کہ اردگان دو تہائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ان کے لیے سیکولر دستور کو تبدیل کرناممکن ہوجائے گا۔ وہ شاندار کامیابی کے باوجود اس مرتبہ بھی دو تہائی تک نہیں پہنچ پائے۔ ان کو 49.9 یعنی تقریباً نصف ووٹ حاصل ہوئے ہیں اور ان کی نشستیں 550کے ہاﺅس میں متناسب نمائندگی کے اصول پر 367 ہیں۔ ایک آدھ سیٹ حتمی نتائج میں بڑھ سکتی ہے۔ ان کے مد مقابل مصطفےٰ کمال کی وارث پارٹی پیپلز ریپبلکن کو 25.9 یعنی تقریباً 26 فیصد ووٹ ملے ہیں اور 135 نشستیں ان کے حصے میں آئی ہیں۔ دیگر پارٹیوں میں سے صرف ایک پارٹی ہی 10 فیصد ووٹوں کا دستوری ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے جبکہ باقی کوئی سیاسی جماعت یہ حد عبور نہیں کرسکی۔ یہ پارٹی نیشنل موومنٹ کے نام سے میدانِ عمل میں ہے اور اس کے ووٹوں کا تناسب 13 فیصد اور نشستیں 53 ہیں۔ آزاد ارکان بالخصوص کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والی علاقائی پارٹیوں کے ارکان نے اپنی آزاد حیثیت میں اپنے علاقوں میں انتخاب لڑا اور ان میں سے 36ارکان کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے مجموعی ووٹ 6.6 فیصد بنتے ہیں۔ جو پارٹیاں 10فیصد سے نیچے رہ جائیں ان کے ووٹ اس ہدف کوعبور کرنے والی پارٹیوں کے درمیان ان کے ووٹوں کے تناسب سے تقسیم ہوجاتے ہیں اور ان کی نشستوں میں اس کے مطابق اضافہ ہوجاتا ہے۔
550 کے ہاﺅس میں دستور تبدیل کرنے کے لیے 2 تہائی یعنی 367 ارکان ضروری ہیں جبکہ سادہ اکثریت کے لیے 276 ارکان درکار ہوتے ہیں۔ اب حکمران پارٹی 326 نشستوں کے ساتھ کسی قسم کی دقت کے بغیر حکومت سازی کا عمل مکمل کرسکتی ہے۔ اردگان صاحب کا تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننا بھی ایک ریکارڈ ہے۔ ان سے قبل کئی مرتبہ معلق پارلیمان وجود میں آتی رہی اور ہر مرتبہ مخلوط حکومتیں بنتی رہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اہم ترین اضلاع میں سے 65 میں اردوگان نے کامیابی حاصل کی ہے اور بالخصوص یہ ایک بڑی پیش رفت ہے کہ اول سے آخر تک پیپلز پارٹی روایتی طور پر جن خطوں میں ہمیشہ جیتتی رہی ہے، اس مرتبہ ان میں سے انطالیا، ہاتائی، مرسین اور جند قلعہ کے علاقوں میں اردگان کی جماعت نے اس پارٹی کو شکست فاش دی ہے۔ اس سے حکمران پارٹی اور اس کی قیادت کی مقبولیت اور پیش قدمی کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔
اردگان کی کامیابی کی بڑی وجوہات میں سے اولین ان کی شفافیت اور مجموعی طور پر ملک کی اقتصادی صورت حال کی بہتری ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے برسر اقتدار آنے کے وقت ترکی معاشی زوال کا شکار تھا۔ فی کس آمدنی کا گراف 6700 ڈالر سالانہ پر تھا جو آج 10075ڈالر فی کس پر ہے۔ عظیم بات یہ ہے کہ حکومتی اداروں کے اخراجات بڑھانے کی بجائے کم کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ حکمران جماعت کا امیج شرافت و دیانت اور غیر جانبداری بھی ہے۔ ساتھ ہی ان کو اسلام پسند اور قدامت پرست بھی کہا جاتا ہے مگر اب یہ گالی نہیں، ایک اعزاز سمجھا جانے لگا ہے۔ واضح رہے کہ مسلسل کئی سالوں سے عالمی صہیونی لابی اردگان کی کردار کشی میں مصروف عمل ہے مگر اس سیاستدان کے کارنامے ان کی طاقتور اور منہ زور ایجنسیوں کے ہر منصوبے کو ناکام کرنے میں کامیاب ٹھہرے ہیں۔
ترک حکومت نے گزشتہ سال صہیونی مظالم کے خلاف احتجاج اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے ایک بحری بیڑہ روانہ کیا تھا جس پر محصورین غزہ کے لیے ادویات و خوراک کی اشیا تھیں اور یہ مکمل طور پر غیر مسلح تھا۔ اس پر ترکوں کے علاوہ کم و بیش دنیا کے ہر خطے کے مسلمان و غیر مسلم رضا کار یکساں ذوق و شوق کے ساتھ انسانی ہمدردی کے تحت شریکِ کارواں تھے۔ اسرائیل نے اس فلوٹیلا پر حملہ کرکے نو افراد کو قتل اور بیسیوں کو زخمی کر دیا تھا۔ اس سال بھی ترک حکومت نے وزیر خارجہ احمد داﺅد او غلوکی سربراہی میں ایک بیڑہ غزہ روانہ کرنے کے لیے تیاری کی تھی۔ گزشتہ سال کی یاد میں اسے 31 مئی کو روانہ ہونا تھا مگر ترکی کے عام انتخابات کے پیش نظر ترکی حکومت نے اسے انتخابات کے بعد تک ملتوی کر دیا کہ کہیں اسے الیکشن سٹنٹ نہ سمجھا جائے، اسرائیل نے اس انسانی ہمدردی کے عمل کو تخریب کاری قرار دیا ہے اور اردگان کی کامیابی کو مستقبل کے لیے شگونِ بد سے تعبیر کیا ہے۔ اللہ کرے اسرائیل کے لیے یہ فی الحقیقت شگونِ بدہی ثابت ہو اور عالمِ اسلام بالخصوص مظلوم فلسطینیوں کے حق میں باعثِ خیر و برکت بن جائے۔
No comments:
Post a Comment