پاکستان میں امریکی نژاد تاجر منصور اعجاز کے مبینہ مراسلے نے ایک بڑا سیاسی طوفان برپا کردیا۔ منصور اعجاز کے دعوے کے مطابق انہیں مراسلے کا مواد امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی نے مہیا کیا۔ حسین حقانی نے اس الزام کی تردید کی۔ لیکن طاقت کے کھیل کے اس تماشے کا اصل پہلو یہ نہیں ہے۔ اس تماشے کا اصل پہلو یہ ہے کہ حسین حقانی نے جوکچھ کیا صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر کیا۔ صدر زرداری کو خوف تھا کہ فوج اُن کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہے چنانچہ انہوں نے امریکا کو جنرل کیانی اور جنرل شجاع پاشا کے خلاف اقدام کے لیے اکسایا۔ صدر زرداری کو بھی اس الزام سے انکار ہے۔ اس صورتحال میں نواز لیگ کے سربراہ نوازشریف نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ کیسی حُب الوطنی ہے جو فوج جیسے قومی ادارے کے خلاف امریکا سے مدد طلب کرتی ہے۔
حسین حقانی اور آصف علی زرداری کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزام کی تردید کرتے۔ لیکن حسین حقانی کے خیالات راز نہیں ہیں۔ آصف علی زرداری کی نفسیات بھی سب پر آشکار ہے۔ تاہم اس مسئلے کا اہم پہلو یہ نہیں ہے۔ مسئلے کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ طاقت کے کھیل میں ایسے ہی تماشے ہوتے ہیں۔ طاقت کے کھیل میں سب سے اہم چیز اصول یا حب الوطنی نہیں خود طاقت ہے۔ اصول اور حب الوطنی طاقت کے کھیل کو رنگین اور دلچسپ بناتے ہیں۔ طاقت کے کھیل میں اصولوں اور حب الوطنی کی افادیت اسی قدر ہے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ حسین حقانی اور آصف علی زرداری سے جو ”غداری“ منسوب ہوئی طاقت کے کھیل میں وہ قابل فہم چیز ہے۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے جرنیل خود حب الوطنی کی آڑ میں امریکا کے ساتھ ساز باز کرکے ملک وقوم سے غداری کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ جنرل ایوب اگرچہ 1958ءمیں برسر اقتدار آئے مگر امریکی سفارتخانے کی خفیہ دستاویزات سے ظاہر ہوچکا ہے کہ وہ 1954ءسے امریکا کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ملک میں سول حکومت کا اقتدار انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اور وہ کسی اخلاقی‘ سیاسی یا جمہوری جواز کے بغیر اقتدار پر فوج کے قبضے کو جائز سمجھتے تھے۔ جنرل ایوب کو امریکا کی سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو وہ اقتدار پر قبضہ نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ جنرل ایوب کا مارشل لا اور امریکا کی مدد سے ملک وقوم اور خود فوج کے ادارے کے خلاف اقدام کے سوا کیا تھا۔؟ لیکن دنیا کا معاملہ عجیب ہے وہ کامیاب بغاوت کو انقلاب کہتی ہے اور ناکام انقلاب کو بغاوت کا نام دیتی ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1977ءمیں بھٹو اور پی این اے کے درمیان معاہدہ ہوگیا تھا۔ بھٹو صاحب نے 30 سے زائد حلقوں میں انتخابی دھاندلی کو تسلیم کرلیا تھا اور وہ وہاں ازسرنو انتخابات کرانے کے لیے آمادہ تھے۔ جنرل ضیاءالحق نے اس معاہدے کے سامنے آنے سے پہلے ہی مارشل لاءلگا دیا۔ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءپر بھی امریکا کا سایہ تھا۔ لیکن جنرل ضیاءالحق پر بھی کبھی یہ الزام نہیں لگایا گیا کہ انہوں نے امریکا کی مدد سے اپنے ملک وقوم کے خلاف سازباز کی۔
جنرل پرویز مشرف نے بھی امریکا کی مدد سے مارشل لاءلگایا تھا اور وہ تمام تر نامقبولیت کے باوجود 10 سال تک امریکا کی مدد سے ہی برسر اقتدار رہے۔ یہاں تک کہ انہیں امریکا کے صدر بش کی رعایت سے ”بشرف“ کہا گیا۔ جنرل پرویز کے 10 سالہ اقتدار نے پاکستان کی بنیادوں کو ہلا دیا۔ لیکن اس کے باوجود جنرل پرویز کی حب الوطنی کبھی معرض بحث میں نہ آسکی۔ سوال یہ ہے کہ جرنیلوں کی امریکا پرستی ”حب الوطنی“ اور سول حکمرانوں کی امریکا پرستی ”غداری“ کیوں ہے؟ اس سوال کا آسان ترین جواب یہ ہے کہ یہ صورت حال بجائے خود طاقت کے کھیل کا ایک تماشا ہے۔
میاں نوازشریف نے اصولی طور پر آصف زرداری سے بالکل درست پوچھا ہے کہ فوج کے خلاف امریکا سے مدد کہاں کی حب الوطنی ہے لیکن میاں صاحب جب خود ملک چھوڑ کر گئے تھے تو ان کے اس طرز عمل پر بھی امریکا ہی سایہ فگن تھا۔ امریکا میاں صاحب کو کھو کر پاکستان کی سیاست کو عدم توازن کا شکار ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ میاں صاحب کو ”متبادل“ کے طور پر زندہ رکھنا چاہتا تھا۔ چنانچہ وہ سعودی عرب کے ذریعے میاں صاحب کو جیل سے نکال کر لے گیا۔ لیکن طاقت کے کھیل کے تماشے صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ پوری انسانی تاریخ ان تماشوں سے بھری پڑی ہے۔ ان تماشوں میں اتنا تنوع ہے کہ آدمی دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔
موہن داس کرم چندگاندھی ہندوﺅں کی جدید تاریخ کے عظیم ترین رہنما تھے۔ انہیں مہاآتما یعنی عظیم روح کہا گیا۔ باپو یعنی قوم کا باپ قرار دیا گیا۔ ہندو سماج گاندھی جی کو دیکھ کر اُٹھتا اور بیٹھتا تھا۔ گاندھی جی کے اثرات عالمی سطح پر بھی ظاہر ہوئے۔ آئن اسٹائن گاندھی جی کی سیاست سے متاثر تھا اور اس نے انہیں انسانیت کا ضمیر قرار دیا ہے۔ لیکن گاندھی جی کو کسی اور نہیں ایک ہندو نتھو رام گوڈے نے قتل کیا اور حب الوطنی کو اس کی بنیاد بنایا کہ نتھو رام گوڈے ان ہندوﺅں میں سے تھا جو سمجھتے تھے کہ بھارت گاندھی جی کی کمزوری سے تقسیم ہوا۔ جن کا خیال تھا کہ گاندھی جی ضرورت سے زیادہ مسلم نواز یا پاکستان نواز ہیں۔
عالمی تاریخ میں طاقت کے کھیل کے تماشے کی سب سے بڑی اور سب سے بری مثال سقراط کی موت ہے۔ سقراط انسانی تاریخ کی عظیم ترین ہستیوں میں سے ایک ہے۔ سقراط کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے افلاطون جیسی عظیم شخصیت پیدا کی اور ارسطو کا تصور افلاطون کے بغیر کیا ہی نہیںجاسکتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سقراط نے دنیا کو دو ایسی شخصیتیں دیں جن کے بغیر انسان کی فکری تاریخ میں ایک خلا پیدا ہوجاتا۔ سقراط کی عظمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس نے حکمت ودانش کو عوامی ذوق کا حصہ بنا دیا۔ مگر سقراط کو زہرکا پیالہ پینا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا تھی؟ عام طور پر اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ سقراط کے خیالات مروجہ مذہبی عقائد سے متصادم تھے۔ مگر یہ بات افسانہ وفسوں کے سوا کچھ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ سقراط کے خیالات نوجوانوں کو حکمرانوں کا باغی بنا رہے تھے۔ یعنی سقراط طاقت کے رنگ میں بھنگ ڈال رہا تھا۔
اسلامی تاریخ میں سقراط سے ملتی جلتی مثال منصور حلاج کی ہے۔ منصور ہماری تاریخ کی بڑی شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ ”انا الحق“ کہنے کی پاداش میں پھانسی کی سزا دی گئی۔ لیکن یہ خیال جتنا عام ہے اس سے زیادہ غلط ہے۔ منصورکا اصل جرم یہ تھا کہ وہ نوجوانوں میں سیاسی قوت کے خلاف جذبات پیدا کررہے تھے۔ ان کی فکر تیزی سے عام ہورہی تھی اور حکمرانوں کو اندیشہ تھا کہ کسی بھی وقت ایک بڑا ہنگامہ برپا ہوسکتا ہے۔ طاقت کے کھیل کے انہی تماشوں کو دیکھتے ہوئے افلاطون نے کہا تھا کہ سیاست کے مسئلے کا حل یا تو یہ ہے کہ حکمران فلسفی بن جائے یا گایاپھر اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ فلسفی حکمران بن جائے۔
حسین حقانی اور آصف علی زرداری کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزام کی تردید کرتے۔ لیکن حسین حقانی کے خیالات راز نہیں ہیں۔ آصف علی زرداری کی نفسیات بھی سب پر آشکار ہے۔ تاہم اس مسئلے کا اہم پہلو یہ نہیں ہے۔ مسئلے کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ طاقت کے کھیل میں ایسے ہی تماشے ہوتے ہیں۔ طاقت کے کھیل میں سب سے اہم چیز اصول یا حب الوطنی نہیں خود طاقت ہے۔ اصول اور حب الوطنی طاقت کے کھیل کو رنگین اور دلچسپ بناتے ہیں۔ طاقت کے کھیل میں اصولوں اور حب الوطنی کی افادیت اسی قدر ہے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ حسین حقانی اور آصف علی زرداری سے جو ”غداری“ منسوب ہوئی طاقت کے کھیل میں وہ قابل فہم چیز ہے۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے جرنیل خود حب الوطنی کی آڑ میں امریکا کے ساتھ ساز باز کرکے ملک وقوم سے غداری کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ جنرل ایوب اگرچہ 1958ءمیں برسر اقتدار آئے مگر امریکی سفارتخانے کی خفیہ دستاویزات سے ظاہر ہوچکا ہے کہ وہ 1954ءسے امریکا کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ملک میں سول حکومت کا اقتدار انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اور وہ کسی اخلاقی‘ سیاسی یا جمہوری جواز کے بغیر اقتدار پر فوج کے قبضے کو جائز سمجھتے تھے۔ جنرل ایوب کو امریکا کی سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو وہ اقتدار پر قبضہ نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ جنرل ایوب کا مارشل لا اور امریکا کی مدد سے ملک وقوم اور خود فوج کے ادارے کے خلاف اقدام کے سوا کیا تھا۔؟ لیکن دنیا کا معاملہ عجیب ہے وہ کامیاب بغاوت کو انقلاب کہتی ہے اور ناکام انقلاب کو بغاوت کا نام دیتی ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1977ءمیں بھٹو اور پی این اے کے درمیان معاہدہ ہوگیا تھا۔ بھٹو صاحب نے 30 سے زائد حلقوں میں انتخابی دھاندلی کو تسلیم کرلیا تھا اور وہ وہاں ازسرنو انتخابات کرانے کے لیے آمادہ تھے۔ جنرل ضیاءالحق نے اس معاہدے کے سامنے آنے سے پہلے ہی مارشل لاءلگا دیا۔ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءپر بھی امریکا کا سایہ تھا۔ لیکن جنرل ضیاءالحق پر بھی کبھی یہ الزام نہیں لگایا گیا کہ انہوں نے امریکا کی مدد سے اپنے ملک وقوم کے خلاف سازباز کی۔
جنرل پرویز مشرف نے بھی امریکا کی مدد سے مارشل لاءلگایا تھا اور وہ تمام تر نامقبولیت کے باوجود 10 سال تک امریکا کی مدد سے ہی برسر اقتدار رہے۔ یہاں تک کہ انہیں امریکا کے صدر بش کی رعایت سے ”بشرف“ کہا گیا۔ جنرل پرویز کے 10 سالہ اقتدار نے پاکستان کی بنیادوں کو ہلا دیا۔ لیکن اس کے باوجود جنرل پرویز کی حب الوطنی کبھی معرض بحث میں نہ آسکی۔ سوال یہ ہے کہ جرنیلوں کی امریکا پرستی ”حب الوطنی“ اور سول حکمرانوں کی امریکا پرستی ”غداری“ کیوں ہے؟ اس سوال کا آسان ترین جواب یہ ہے کہ یہ صورت حال بجائے خود طاقت کے کھیل کا ایک تماشا ہے۔
میاں نوازشریف نے اصولی طور پر آصف زرداری سے بالکل درست پوچھا ہے کہ فوج کے خلاف امریکا سے مدد کہاں کی حب الوطنی ہے لیکن میاں صاحب جب خود ملک چھوڑ کر گئے تھے تو ان کے اس طرز عمل پر بھی امریکا ہی سایہ فگن تھا۔ امریکا میاں صاحب کو کھو کر پاکستان کی سیاست کو عدم توازن کا شکار ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ میاں صاحب کو ”متبادل“ کے طور پر زندہ رکھنا چاہتا تھا۔ چنانچہ وہ سعودی عرب کے ذریعے میاں صاحب کو جیل سے نکال کر لے گیا۔ لیکن طاقت کے کھیل کے تماشے صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ پوری انسانی تاریخ ان تماشوں سے بھری پڑی ہے۔ ان تماشوں میں اتنا تنوع ہے کہ آدمی دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔
موہن داس کرم چندگاندھی ہندوﺅں کی جدید تاریخ کے عظیم ترین رہنما تھے۔ انہیں مہاآتما یعنی عظیم روح کہا گیا۔ باپو یعنی قوم کا باپ قرار دیا گیا۔ ہندو سماج گاندھی جی کو دیکھ کر اُٹھتا اور بیٹھتا تھا۔ گاندھی جی کے اثرات عالمی سطح پر بھی ظاہر ہوئے۔ آئن اسٹائن گاندھی جی کی سیاست سے متاثر تھا اور اس نے انہیں انسانیت کا ضمیر قرار دیا ہے۔ لیکن گاندھی جی کو کسی اور نہیں ایک ہندو نتھو رام گوڈے نے قتل کیا اور حب الوطنی کو اس کی بنیاد بنایا کہ نتھو رام گوڈے ان ہندوﺅں میں سے تھا جو سمجھتے تھے کہ بھارت گاندھی جی کی کمزوری سے تقسیم ہوا۔ جن کا خیال تھا کہ گاندھی جی ضرورت سے زیادہ مسلم نواز یا پاکستان نواز ہیں۔
عالمی تاریخ میں طاقت کے کھیل کے تماشے کی سب سے بڑی اور سب سے بری مثال سقراط کی موت ہے۔ سقراط انسانی تاریخ کی عظیم ترین ہستیوں میں سے ایک ہے۔ سقراط کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے افلاطون جیسی عظیم شخصیت پیدا کی اور ارسطو کا تصور افلاطون کے بغیر کیا ہی نہیںجاسکتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سقراط نے دنیا کو دو ایسی شخصیتیں دیں جن کے بغیر انسان کی فکری تاریخ میں ایک خلا پیدا ہوجاتا۔ سقراط کی عظمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس نے حکمت ودانش کو عوامی ذوق کا حصہ بنا دیا۔ مگر سقراط کو زہرکا پیالہ پینا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا تھی؟ عام طور پر اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ سقراط کے خیالات مروجہ مذہبی عقائد سے متصادم تھے۔ مگر یہ بات افسانہ وفسوں کے سوا کچھ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ سقراط کے خیالات نوجوانوں کو حکمرانوں کا باغی بنا رہے تھے۔ یعنی سقراط طاقت کے رنگ میں بھنگ ڈال رہا تھا۔
اسلامی تاریخ میں سقراط سے ملتی جلتی مثال منصور حلاج کی ہے۔ منصور ہماری تاریخ کی بڑی شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ ”انا الحق“ کہنے کی پاداش میں پھانسی کی سزا دی گئی۔ لیکن یہ خیال جتنا عام ہے اس سے زیادہ غلط ہے۔ منصورکا اصل جرم یہ تھا کہ وہ نوجوانوں میں سیاسی قوت کے خلاف جذبات پیدا کررہے تھے۔ ان کی فکر تیزی سے عام ہورہی تھی اور حکمرانوں کو اندیشہ تھا کہ کسی بھی وقت ایک بڑا ہنگامہ برپا ہوسکتا ہے۔ طاقت کے کھیل کے انہی تماشوں کو دیکھتے ہوئے افلاطون نے کہا تھا کہ سیاست کے مسئلے کا حل یا تو یہ ہے کہ حکمران فلسفی بن جائے یا گایاپھر اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ فلسفی حکمران بن جائے۔
No comments:
Post a Comment