نپولین نے کہا تھا: ”تم مجھے بہترین مائیں دو، میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔“ یہ
ماں کی اہمیت کا ایک انتہائی محدود اور سرسری تعین ہے، اس لیے کہ ماں قوم کیا انسانی تہذیب کا مرکزی حوالہ ہے، بلکہ اسلامی تہذیب میں ماں کی اہمیت کائنات گیر ہے۔
ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو جو محبت دی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا محض ایک فی صد ہے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ 70 ماﺅں سے زیادہ انسانوں سے محبت کرتا ہے۔ ان دونوں احادیث کو باہم مربوط کرکے دیکھا جائے تو ماں کی محبت کا تعین دشوار ہے۔ ماں کی عظمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ مخلوق کی کسی بھی صفت کو خدا کی صفت کے مقابل نہیں لایا جاسکتا، اور نہ ان کا باہم کوئی موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مذکورہ بالا حدیث میں خدا کی محبت کو تشبیہاتی اور استعاراتی سطح پر سہی، ماں کی محبت کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ ہماری تہذیب میں ماں کی محبت کی یہی وہ سطح ہے جو کائنات گیر محسوس ہوتی ہے۔
قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کی محبت ایمان کے سوا ہر چیز پر فوقیت رکھتی ہے۔ قرآن مجید انسانوں سے کہتا ہے کہ تم اپنے ماں باپ کے کفر اور شرک میں ہرگز ان کا ساتھ نہ دو لیکن اس سے قطع نظر انہیں اُف بھی نہ کہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ماں باپ کی صحیح باتوں پر سرتسلیم خم کرنا کافی نہیں، ان کی غلط باتوں سے صرف ِنظر کرنا اور ان پر خاموش رہنا بھی ضروری ہے۔ اس لیے کہ اس کے بغیر ماں باپ کی محبت کا حق ادا نہیں ہوتا۔ اس کے معنی یہی ہیں کہ ماں باپ کی محبت انسان کے پورے وجود کی معنویت سے زیادہ ہے، اسی لیے عربی تہذیب میں جب محبت کی انتہا کو ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے تو یہ نہیںکہا جاتا کہ میں آپ پر قربان، بلکہ کہا جاتا ہے کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ ظاہر ہے کہ ماں باپ کے اس ذکرِ خیر میں ماں کی محبت باپ کی محبت پر غالب ہے، اور ایسا کسی ”رعایت“ کی وجہ سے نہیں بلکہ ایسا بر بنائے ”عہدہ و منصب“ ہے۔
غور کیا جائے تو ہر مسلمان کی زندگی جنت کے گرد گھومتی ہے، اس لیے کہ جنت نجاتِ اخروی کی علامت ہے، دائمی زندگی کی علامت ہے، کبھی نہ ختم ہونے والی مسرت کی علامت ہے، اور ان سب سے بڑھ کر قربِ الٰہی کی مظہر ہے، کیونکہ جنت کا سب سے بڑا تحفہ وہ دیدارِ الٰہی ہوگا جو کسی کو ہفتے میں ایک بار اور کسی کو روز فراہم ہوگا۔ ماں کی عظمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نعمتِ عظمیٰ کو ایک حدیث شریف کے حوالے سے ماں کے قدموں میں رکھ دیا ہے۔ جنت کے ماں کے پیروں تلے ہونے کا مفہوم دراصل یہ ہے کہ اگر کوئی انسان کچھ اور نہ کرے، ایمان اور محبت کے جذبے کے ساتھ صرف ماں کی خدمت بجا لائے تو وہ جنت جیسی عظیم نعمت کا حقدار بن سکتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیثِ پاک ماں کی عظمت پر یقینا حرفِ آخر کی حیثیت رکھتی ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ اگر میں حالتِ نماز میں ہوتا اور میری والدہ مجھے بلاتیں تو میں نماز چھوڑ کر ان کی بات سنتا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ انسانی تجربے کی سطح پر ماں کی عظمت کو کس طرح دیکھا اور دکھایا جاسکتا ہے؟
ماں کی عظمت کا ایک گوشہ یہ ہے کہ ماں کی محبت سورج اور ہوا کی طرح ”غیر مشروط“ ہے۔ سورج اپنی روشنی دیتے ہوئے یہ نہیں دیکھتا کہ کون اچھا ہے یا برا ہے؟ ہوا نیک و بد سب کے لیے چلتی ہے۔ ماں کی محبت بھی اپنی اصل میں ایسی ہی ہے، یعنی اسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ماں کی محبت غیر مشروط کیوں ہے؟ اس سوال کا بنیادی جواب یہ ہے کہ ماں کی محبت اپنی ”فراوانی“ کی وجہ سے غیر مشروط ہوتی ہے۔ یہی فراوانی کالے بچے کو ماں کے لیے دنیا کاحسین ترین بچہ بناتی ہے۔ یہی فراوانی ماﺅں سے بچوں کو دودھ پلواتی ہے، یہی فراوانی ماﺅں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ بچوں سے پہنچنے والی تکالیف کو ایک لمحے میں پھلانگ کر کھڑی ہوجائیں۔ ماں کی فطرت میں محبت کی فراوانی اتنی زیادہ ہے کہ بعض اوقات یہی محبت ماں کی سب سے بڑی کمزوری بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مائیں کبھی اچھی ”جج“ نہیں ہوسکتیں۔ انصاف کے لیے شخصیت پر شعور کا غلبہ چاہیے، اور ماں کی شخصیت پر شعور کے بجائے محبت کی حکمرانی ہوتی ہے۔
ماں کی محبت کا ایک زاویہ یہ ہے کہ ماں کی محبت کا تعلق لمس یا Touch سے ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ماں کی محبت اپنی نہاد میں حسی یا Sensious ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچہ ماں کو عقل سے نہیں اس کے لمس اور خوشبو سے پہچانتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی عقل بھی ماں کی محبت کے تابع ہوجاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ماں کے حوالے سے بچے کا حسی تجربہ بطنِ مادر سے شروع ہوجاتا ہے۔ بچہ اپنی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی ماں سے اس کی آوازوں کے ذریعے مانوس ہونے لگتا ہے۔ یہ تجربہ بچے کی زبان کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بچوں کی زبان مادری زبان کہلاتی ہے، پدری زبان نہیں۔ ماں کی زبان ہی نہیں ماں کی کیفیات اور اس کے تصورات تک بچے کی شخصیت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ماں کی محبت کا حسّی تجربہ بچے کی پیدائش کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے اور اس میں اتنی تسکین محسوس کرتا ہے کہ اس کے آگے ہر تسکین ہیچ ہے۔ ماں کی آغوش اور بچوں کو لپٹانا چمٹانا بھی حسّی تجربے کا تسلسل ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بچہ ماں کے لمس پر پل کر جوان ہوتا ہے۔ حسّی دلیل اتنی بڑی دلیل ہے کہ اس کے سامنے عقلی دلیل کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ نبوت کی سب سے بڑی دلیل معجزہ ہے، اور معجزہ ایک حسی مشاہدہ اور حسی دلیل ہے۔ تاریخ نے اس دلیل کے آگے بڑے بڑے کافروں اور مشرکوں کو سرنگوں ہوتے دیکھا ہے۔ ماں کی محبت کا حسی تجربہ بھی اپنے اندر ایک معجزاتی کیفیت رکھتا ہے۔ ایسی معجزاتی کیفیت کہ انسان بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اس معجزاتی کیفیت کے حصار سے نہیں نکل پاتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ماں کی محبت کا تجربہ انسان کی زندگی میں اتنا بنیادی ہے کہ باقی محبتیں جہات کی تبدیلی کے ساتھ اسی محبت کی توسیع محسوس ہوتی ہیں۔
ماں کی محبت کا ایک پہلو یہ ہے کہ ماں کی شخصیت ”نفی ¿ ذات“ کی علامت ہے۔ ماں اپنے بچوں کے لیے اپنی نیند قربان کرتی ہے، آرام قربان کرتی ہے، اپنی سماجیات قربان کرتی ہے، اپنی خواہشات قربان کرتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ماں ہونے کا مطلب ایک دائمی مجاہدے میں مبتلا ہونا ہے۔ ماں کا یہ مجاہدہ بچوں کے لیے محبت کو نعرہ نہیں رہنے دیتا، اسے مشاہدہ بنادیتا ہے۔ اسے دعویٰ نہیں رہنے دیتا، تجربہ بنادیتا ہے۔
ماں کی عظمت اس امر سے بھی واضح ہے کہ وہ ایک نئی زندگی تخلیق کرنے کے لیے ہر بار اپنی زندگی کو داﺅ پر لگاتی ہے۔ نئی زندگی تخلیق کرتے ہوئے ماں زندگی اور موت کے درمیان موجود باریک سی لکیر پر سفر کرتی ہے۔ یہ کارنامہ بے پناہ محبت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کا تصور بھی بے پناہ محبت کے بغیر نہیںکیا جاسکتا۔
بلاشبہ یہ ایک ”کامل ماں“ کی تصویر ہے اور ہمارے عہد کا المیہ یہ ہے کہ اب کوئی اور کیا مائیں بھی کامل نہیں ہوتیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہ مغربی تصورات ہیں جن میں عورت کے سماجی و معاشی پہلو کو ایسا زبردست غلبہ حاصل ہے کہ ماں اور بیوی کی حیثیت سے عورت کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہ جاتی۔ ان تصورات سے متاثر ہونے والے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عورت کے سماجی اور معاشی کردار کی کمزوری سے صرف سماجی اور معاشی نقصان ہوتا ہے لیکن عورت کے اچھی ماں اور اچھی بیوی نہ بن پانے سے پوری تہذیب کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور انسان سازی کے عمل کو ایسا نقصان پہنچتا ہے کہ جس کے ازالے کی کوئی صورت نہیں۔ اقبالؒ نے کہا ہے
مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں
یعنی یہ تو ٹھیک ہے کہ کسی عورت نے افلاطون کے مکالمات جیسی بلند فکر شے تخلیق نہیں کی، لیکن خود افلاطون کو وجود میں لانے والی ایک ماں تھی، اور یہ بات ٹھیک ہے۔ کامل مائیں ہی کامل انسان پیدا کرتی ہیں۔ ادھوری مائیں ادھورے انسانوں کو جنم دیتی ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کامل ماں کی عدم موجودگی کے مسئلے کا حل کیا ہے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے: ”کامل باپ“۔


No comments:
Post a Comment