Tuesday, February 21, 2012

پاک وطن کو پاک بنائیں

صحبت وہم نشینی کے اثر سے انکار ممکن نہیں۔ کہا جاتا رہا ہے کہ نیک آدمی کی صحبت تم کو نیک بنادے گی اور بدبخت کی صحبت تم کو بدبخت بنادے گی سو جب تک تم سے ہوسکے برے ہم نشین سے دور رہو کیونکہ برا دوست سانپ سے بھی بدتر ہے سانپ تو صرف جان پر حملہ کرتا ہے اور برا دوست جان اور ایمان دونوں ہی پر حملہ کرتا ہے۔ موجودہ دور میں میڈیا کی مداخلت ایک ہم نشین دوست کی مانند ہوچکی ہے۔ کھانے پینے‘ لباس‘ رہن سہن‘ رسم ورواج‘ گفتگو‘ طرز معاشرت غرض زندگی سے متعلقہ ہر چیز میڈیا کے زیر اثر ہوچکی ہے میڈیا ایسا دوست بن چکا ہے جس کے بغیر دن تو کیا اب رات بھی نہیں کٹتی‘ موبائل‘ ٹی وی‘ انٹرنیٹ نے ہر ایک کو اپنے حصار میں اس طرح لیا ہوا ہے کہ اب بچوں کو بزرگوں کے پاس بیٹھنے اور تربیت لینے کا وقت نہیں۔ نوجوانوں کے پاس SMS گپ شپ ومیوزک سننے سے فرصت نہیں‘ اور ماﺅں کو سوائے نت نئی ڈشز بنانے، فیشن کے مطابق لباس بنانے اور گھروں کو نت نئی ڈیکوریشن سے مزین کرنے کی فکر وشوق اور کمتری کے احساس نے ماں‘ بہن‘ بیوی‘ بیٹی کی ہر ذمہ داری سے جیسے سبکدوش کردیا ہے۔
مرد حضرات جو گھر کے راعی ہیں وہ ذہنی طور پر اتنے مفلوج ہوچکے ہیں کہ حلال وحرام کے چکر میں پڑے بغیر صرف معاش کو مضبوط کرنے‘ دولت کے حصول میں اپنے گھرکے انمول رشتوں سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی بے شک وقت کی اہم ضرورت ہے اس کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں مگر ہر چیز کی زیادتی مضر ثابت ہوتی ہے بہترین عملی زندگی گزارنے کے لیے زندگی میں توازن بہت ضروری ہے۔ کسی بھی ملک قوم وملت کو اس کی اقدار‘ روایات‘ رسوم ورواج‘ زبان‘ لباس وطور طریقے مل کر سماجی کردار بناتے ہیں جس کو تہذیب وثقافت کا نام بھی دیا جاتا ہے اور آج جبکہ میڈیا نے دنیا کو گلوبل ولیج بنا دیا ہے‘ ایک کلک سے صدیوں کے فاصلے قربتوں میں بدل چکے ہیں‘ ٹیکنالوجی واطلاعات نے پاکستانی میڈیا کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لاکھڑا کیا ہے مگر ٹیکنیکل لحاظ سے عروج پانے والے میڈیا نے آج قوم کے ذہنوں کو پستی میں دھکیل دیا ہے۔ نسل نو کی تعلیم وتربیت ہمیشہ سے اہم رہی ہے۔ آج کے بچے کل کے معمار ہیں اور آج کی نسل میں ٹیکنالوجی کا منفی وبے دریغ استعمال ان کے کچے ذہنوں کو آلودہ کر رہا ہے۔ بچے اور والدین میں دوریاں بڑھ گئیں ہیں۔ اب بچے ایک خود رو پورے کی طرح پروان چڑھ رہے ہیں اس جنگلی بیل کی مانند جس کو خوبصورتی سے تراشنے والا کوئی نہیں ہوتا بچوں کی سیرت وکردار بنانے میں گھریلو ماحول کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے جواب میڈیا کی نذر ہوچکا ہے۔ بچے تنہائی پسند‘ بیزار اور غصہ وجھنجھلاہٹ میں مبتلا ہوچکے ہیں مائیں لڑکیوں کی زبان درازی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ بڑوں کا ادب‘ رشتوں کا تقدس اور تربیت کرنے والے ہاتھ اب میڈیا کے پیش کردہ نظریے وگلیمر کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ لچر وبیہودہ زبان زدعام ہوگئی ہے۔ آزاد میڈیا کی آزادی اور غیرملکی وملکی ڈراموں‘ فلموں نے بالغ بچوں کے ذہنوں کو بھی حقیقت سے دور خوابوں کی دنیا میں بسا دیا ہے۔ ہر لڑکی ہیروئن اور ہر لڑکا ہیرو بن کر نیٹ چیٹنگ میں مصروف اپنے کیریئر سے غافل ہے۔ آزادی ¿ نسواں کے نام پر خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو بے مقصدیت وبے راہ روی کی طرف مائل کرکے وطن عزیزکی نظریاتی بنیادوں کو گرانے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے سب سے افسوسناک پہلو یہ کہ عورت کے تشخص ووقار کو بری طرح مجروح کرکے عورت کو ہر چیز کے اشتہار میں کھڑا کرکے اس کو ارزاں کر دیا گیا ہے۔  اور اس پاورفل ٹول کو وطن عزیز کی تعمیر وترقی کے لیے کیسے استعمال کیا جائے یہ سوچنا بحیثیت ماں کے منتظمہ اعلیٰ کے اور معاشرے کے ہر اس فرد کا کام ہے جو باشعور مسلمان ہو۔ پرشور ندی کو ویران زمین کی سمت روانہ کردیا جائے تو ہر سمت سبزہ چھا جاتا ہے۔ انسانی جذبات کو شتربے مہار چھوڑ دینے سے شیطانیت آزاد ہوجاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کی طاقت کو معاشرہ کی غربت‘ جہالت‘ ناانصافی‘ قومی یکجہتی مربوط تعلیم وعدل وانصاف اور اخلاقی روایات کے لیے استعمال کیا جائے۔ نفس کو کنٹرول کرنا سکھایا جائے اور ایسا جب ہی ممکن ہے جب ہم میں سے ہر فرد اپنی رائے کو مثبت انداز فکر وطرز فکر کے ساتھ پالیسی ساز اداروں تک پہنچائے اور ان کو متوجہ کرے جو میڈیا کی طاقت کو سمت عطاکرتے ہیں۔

www.nasikblog.com

No comments:

Post a Comment