-موروثی سیاست کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس میں زوال یقینی اور کمال اتفاقی امر بن جاتا ہے۔ یعنی موروثی سیاست کا سلسلہ جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے اس کی کمزوریوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہی، اور اہلیت و صلاحیت کا ظہور خال خال ہوتا ہے۔ برصغیر میں مغلوں کی سلطنت اس کا ایک بڑا ثبوت ہے۔ اس سلطنت میں اعلیٰ ترین صلاحیت کے مظاہر صرف تین ہیں: بابر، اکبر اور اورنگزیب عالمگیر۔ ان کے سوا جو کوئی ہے یا تو اوسط درجے کی صلاحیت کا مالک ہے یا اس سے بھی کم درجے کی اہلیت کا حامل۔ بابر برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا بانی تھا۔ بابر کے لیے برصغیر ایک اجنبی سرزمین تھی اور یہ ایک نوواردکی حیثیت سے بابر کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔ مگر بابر نے اس کمزوری کو بھی اپنی طاقت بنالیا۔ اس نے اپنی اجنبیت کو مقامی قوتوں کے خوف میں ڈھال دیا۔ میدانِ جنگ میں ایک مرحلہ ایسا آیا کہ بابر کے لیے فتح ایک خواب بن گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بابرکے دس ہزار سپاہی ایک لاکھ کے لشکر کے روبرو تھے۔ اس موقع پر بابر نے وہ کام کیا جو ایک بڑی شخصیت ہی کرسکتی تھی۔ بابر مے نوش تھا۔ اس نے اپنے رب کے حضور گڑگڑاکر شراب نوشی سے توبہ کی۔ اس توبہ کا نتیجہ یہ ہواکہ بابرکے دس ہزار فوجیوں نے ایک لاکھ کے لشکرکو فتح کرلیا۔ بابر کی شخصیت میں بلا کا توازن تھا۔ وہ ایک جانب سپاہی تھا اور دوسری جانب اس نے ”تزکِ بابری“ جیسی کتاب لکھی ہی، لیکن بابر کی سب سے بڑی عظمت یہ ہے کہ اس کی شخصیت پر محبت کا غلبہ تھا۔ بابر کا بیٹا ہمایوں بیمار پڑا اور کسی دوا سے اسے شفا نصیب نہ ہوئی تو بابر نے اپنے بیمار بیٹے کے پلنگ کے تین چکر کاٹے اور خدا سے دعا کی کہ ہمایوں کو صحت عطا کردے اور اس کی جگہ مجھے اپنے پاس بلالے۔ بابرکی دعا قبول ہوئی۔ ہمایوں صحت یاب ہوگیا اور بابر بیمار پڑگیا، اور بالآخر اس دارِفانی سے کوچ کرگیا۔ بابر اگر صرف بادشاہ اور صرف فاتح ہوتا تو وہ کبھی بھی اپنے بیٹے پر نثار نہیں ہوسکتا تھا۔ بابرکی عظمت کسی مغل بادشاہ کو حاصل نہ ہوسکی۔ اکبر نے سلطنت کو بہت پھیلادیا مگر اس کے پاس نہ بابر کی دل آویزی تھی نہ اس کی شخصیت کا توازن تھا۔ اورنگزیب عالمگیر کا کمال یہ تھا کہ وہ ایک جانب اسلام کے جداگانہ تشخص کی علامت اور محافظ بن گیا اور دوسری جانب وہ پچاس سال تک انتشارکی آندھیوں میں مغلیہ سلطنت کی وحدت کا چراغ جلائے کھڑا رہا۔ ان تین کے سوا اکثر مغل بادشاہ اوسط درجے کی صلاحیت کے حامل تھے۔ آخر میں ایسے لوگ بادشاہ ہوئے جو بادشاہ کے بجائے بادشاہ کی پیروڈی تھے۔ جدید تاریخ میں نہرو خاندان موروثی سیاست کے نقائص کی ایک اچھی مثال ہے۔ پنڈت نہروکی تہذیبی شخصیت میں گہرائی اورگیرائی تھی۔ انہوں نے ہند اسلامی تہذیب اور خود ہندو تہذیب کے صالح عناصرکو شعوری اور لاشعوری طور پر جذب کیاتھا۔ ان کا شاعرانہ ذوق اعلیٰ درجے کا تھا۔ ان کی نظر عالمگیر تھی۔ وہ غیر وابستہ تحریک کے بانیوں میں سے تھے اور فطری طور پر اس تحریک کے قائد نظرآتے تھے۔ یہ نہروکی شخصیت کا مدبرانہ پہلو ہی تھا جس نے انہیں مسئلہ کشمیرکو متنازعہ مسئلہ تسلیم کرنے پر مجبورکیا اور وہ خود اس مسئلے کو لے کر اقوام متحدہ میں گئے۔ اندراگاندھی نہرو کی بیٹی تھیں، لیکن وہ نہروکی تہذیبی شخصیت کا سایہ بھی نہیں تھیں۔ ان پر بین الاقوامیت کے بجائے مقامیت کا غلبہ تھا۔ نہرو مدبر تھی، جبکہ اندراگاندھی صرف سیاست دان تھیں۔ نہرو ”محبوب“ تھی، اندراگاندھی صرف ”مقبول“ تھیں۔ انہوں نے 1970ءکے اواخر میں ملک میں ایمرجنسی لگائی۔ نہروکبھی خواب میں بھی ایمرجنسی لگانے کے بارے میں نہیں سوچ سکتے تھے۔ راجیوگاندھی اندراگاندھی کے فرزند تھے۔ وہ حادثاتی طور پر کانگریس کے رہنما اور ملک کے وزیراعظم بنے۔ یہ ہنگامیت ہمیشہ ان کی شخصیت پر غالب رہی۔ نہرو ”محبوب“ تھے۔ اندرا گاندھی ”مقبول“ تھیں اور راجیو صرف ”مشہور“ تھے۔ نہرو مدبر تھے۔ اندراگاندھی سیاست دان تھیں اور راجیو صرف منتظم تھے۔ ان پر غلط یا صحیح بوفور توپوں کے سودے میں بدعنوانی کرنے کا الزام لگا۔ نہرو اور اندرا گاندھی کے بارے میں ایسی بات خواب میں بھی نہیں سوچی جاسکتی تھی۔ راہول گاندھی کے امکانات ابھی واضح نہیں ہوئے مگر وہ اب تک راجیو گاندھی کے مقام سے بھی نیچے ہیں۔ نہرو محبوب تھی، اندرا گاندھی مقبول تھیں، راجیوگاندھی مشہور تھی، اور راہول صرف ”موجود“ ہیں۔ پاکستان میں بھٹو خاندان موروثی سیاست میں زوال کے عنصرکا اشتہار ہے۔ بھٹوکی شخصیت انا مرکز یا Ego Centric تھی۔ مذہبی اعتبار سے یہ ایک انتہائی منفی بات ہی، لیکن بھٹو کی انا بڑی تھی۔ اس انا کے لیے پاکستان کی حکمرانی کم پڑتی تھی۔ چنانچہ بھٹو صاحب نے مسلم دنیا کا رہنما اور قائدِ ایشیا بننے کا خواب دیکھا۔ اس کے لیے طاقت کی ضرورت تھی، یہی وجہ تھی کہ بھٹو صاحب نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان کا ایٹم بم عربوں کے پیٹرو ڈالر کے ساتھ مل کر وہ منظرنامہ تخلیق کرسکتا ہے جو انہیں عالمی سطح کا رہنما بنانے کے لیے ناگزیر تھا۔ بھٹو صاحب نے آئین بنایا، کمزور پوزیشن کے ساتھ بھارت سے کامیاب مذاکرات کیے۔ بھٹو صاحب کی شخصیت کے ان پہلوو ں نے انہیں اب تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ بے نظیربھٹو، بھٹوکی بیٹی تھیں، لیکن وہ بھٹو صاحب کی شخصیت کا مکمل سایہ بھی نہیں تھیں۔ بھٹو صاحب کے ساتھ کام کرنے والے ملک کے ایک ممتاز سیاسی رہنما سے ہم نے ایک بار پوچھا کہ آپ کو بھٹو اور بے نظیربھٹو کی شخصیت میں کیا فرق نظرآتا ہی؟کہنے لگے کہ بھٹو صاحب اپنی تمام تر انانیت کے باوجود ہماری بات سنتے اور مانتے تھے لیکن بے نظیر بھٹو سرے سے بات سننے ہی کی روادار نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو صاحب مقبول تھے اور بے نظیر صرف مشہور تھیں۔ بھٹو صاحب کی بین الاقوامیت بے نظیرکے لیے محض ایک خواب تھی۔ بھٹو صاحب بولتے ہوئے اچھے لگتے تھے اور بے نظیرصرف اُس وقت تک مؤثر محسوس ہوتی تھیں جب تک وہ کلام نہیں کرتی تھیں۔ لیکن آصف علی زرداری کے ظہور نے بے نظیربھٹو کو بھی ”غیر معمولی“ بنادیا ہے۔ آصف علی زرداری کی خاموشی میں کوئی بات ہے نہ ان کی گفتگو میں کوئی مفہوم ہے۔ ان کی شخصیت میں بین الاقوامیت کیا مقامیت تک نہیں ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ موروثیت یہ نتائج کیوں سامنے لاتی ہے؟ اقبالؒ نے اس سلسلے میں ایک بنیادی بات کہی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے انسان اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے تو اس کے وجود کی ساری صلاحیتیں اور توانائی اس کام پر صرف ہوتی ہیں اور اس کے کام کی سطح بہت بلند ہوجاتی ہے۔ لیکن جب انسان دوسروں کی پیداکردہ دنیا سے رشتہ استوارکرتا ہے تو اس کے لیے نہ کسی کدوکاوش کی ضرورت ہوتی ہی، نہ ہی اس کے لیے اعلیٰ صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ چنانچہ وہ تخلیق کار یا Producer کے بجائے صرف ایک صارف یا Consumer بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ اتفاق سے کوئی تخلیقی کام کرتا بھی ہے تو مکھی پر مکھی مارتا ہے اور اس کی روش اجتہادی نہیں رہتی، مقلدانہ ہوجاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment