سیاست ہر اعتبار سے ایک اجتماعی معاملہ ہے لیکن سیاست اخلاقی اصولوں سے بے نیاز ہوجائے تو اس پر ذاتیات کا غلبہ ہوجاتا ہے اور ذاتیات میں الجھ کر سیاست تباہی کا کھیل بن جاتی ہے۔ پاکستان کی سیاست اس دعوے کا سب سے بڑا مظہر ہے۔
جنرل ایوب کا مارشل ایک ادارتی یا Institutionalمسئلہ تھا۔ جنرل ایوب فوج کے ادارے کی مجموعی قوت کی بنیاد پر ملک کے سیاہ وسفیدکے مالک بنے تھے لیکن ان کا اقتدار جیسے جیسے مستحکم ہوا ان کی ذات ہر چیز پر غالب آتی چلی گئی۔ اس کے دو ہولناک نتائج برآمد ہوئے۔ ایک یہ کہ جو شخص جنرل ایوب کا حامی تھا وہ جنرل ایوب کی ذات کی بنیاد پر ان کا حامی تھا اور جو ان کا مخالف تھا وہ ان کی ذات کی بنیاد پر ان کا مخالف تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو جنرل ایوب کی مخالفت مارشل لا کی مخالفت بن جاتی۔ آمریت کی مخالفت بن جاتی۔ اقتدار پر فوج کے قبضے کی مخالفت بن جاتی۔ مخالفت کی اس نوعیت سے معاشرے کی تعلیم وتربیت میں بڑی مدد ملتی۔ قوم کے شعور کی سطح بلند ہوتی اور اس میں طاقت کے اندھا دھند استعمال کی مزاحمت کا جذبہ پیدا ہوتا۔ لیکن جنرل ایوب کی ساری مخالفت ان کی ذات پر صرف ہوگئی۔ اور ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ملک وقوم کا اصل مسئلہ جنرل ایوب کی ذات ہے جس کے منظر سے ہٹ جانے سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ لیکن جنرل ایوب کے منظر سے ہٹنے کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔ جنرل ایوب کی جگہ جنرل یحییٰ نے لے لی اور قوم کا سارا جوش وجذبہ چہرے کی تبدیلی سے سرد پڑ گیا اور جنرل یحییٰ خان نے تین سال تک جو چاہا کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے پاکستان کو دولخت کردیا لیکن سقوط ڈھاکہ تک ان کے خلاف ردعمل کی کوئی بڑی صورت کہیں موجود نہ تھی اور تھی بھی تو اس کی بنیاد بھی ذاتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سقوط ڈھاکا کو بھی جنرل یحییٰ کا ’’ذاتی فعل‘‘ قرار دے کر نظر انداز کردیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نظریاتی کشمکش کی علامت بن کر سامنے آئے تھے اور جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کی شخصی آمریت کے تناظر میں بھٹو صاحب کی شخصیت میں ’’اجتماعیت‘‘ کا رنگ بھی موجود تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ان کے نظریات پس منظر میں چلے گئے۔ اجتماعیت کے تمام رنگ اڑ گئے اور ہر چیز پر ان کی شخصیت کی مہر لگی ہوئی نظر آنے لگی۔ اسلامی سوشلزم بھی بھٹو صاحب تھے۔ لبرل ازم کی علامت بھی وہی تھے۔ سیکولرازم کا استعارہ بھی وہی تھے۔ پیپلزپارٹی بھی انہی کی ذات کی توسیع تھی۔ چنانچہ ان کا نصف ردعمل بھی ذاتی ہوتا چلا گیا۔ پی این اے کی تحریک کہنے کو تحریک نظام مصطفیٰ تھی لیکن اس تحریک کی قوت کا صرف ایک فیصد نظام مصطفیٰ کے لیے صرف ہورہا تھا اس تحریک کی 99 فیصد قوت بھٹو صاحب کے خلاف استعمال ہوئی۔ چنانچہ بھٹو صاحب تو ہٹ گئے قوم کو نظام مصطفیٰ کی ایک جھلک بھی میسر نہ آسکی۔
بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کی غیرمعمولی مزاحمت کی۔ انہوں نے نظر بندی کی صعوبتیں جھیلیں۔ ایم آر ڈی کی تحریک کا بار اٹھایا۔ جلا وطنی کا دکھ سہا۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کے خلاف ان کی مزاحمت کا رنگ بھی ذاتی تھا۔ انہیں جنرل ضیاء الحق سے اصل شکایت یہ نہیں تھی کہ وہ فوجی آمر تھے اور انہوں نے غیرآئینی طور پر ان کے والد کی حکومت کو برطرف کیا تھا۔ بلکہ ان کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ وہ جنرل ضیاء الحق کو اپنے والد کا قاتل سمجھتی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کا مسئلہ جرنیل یا فوجی آمریت ہوتی تو وہ جنرل مرزا اسلم بیگ کو ’’تمغہ جمہوریت‘‘ نہ دیتیں۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ سمجھوتا کرکے سیاست نہ کرتیں لیکن سیاست اور ذاتیات کا معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں۔
بھارت کی سیاست میں نہرو خاندان کا کردار بنیادی ہے۔ نہرو جدید بھارت کے بانی تھے۔ بھارت کی تاریخ میں ان کی حیثیت سیاسی ہیرو کی تھی۔ اندرا گاندھی نہرو خاندان کا تسلسل تھیں۔ اس کی علامت تھیں۔ ان کے سر پر پاکستان کو دوٹکڑے کرنے کا تاج تھا۔ صرف ان کی سیاست خاندانی ہونے کے باوجود اجتماعیت کا استعارہ تھی۔ لیکن ان کی دوغلطیوں نے ان کی سیاست کو ذاتیات کی دلدل میں دھنسا دیا۔ سنجے گاندھی ان کے چھوٹے بیٹے اور ان کے سیاسی وارث تھے۔ وہ ذہین تھے متحرک تھے مگر ان کی شخصیت میں کردارکی بلندی نہیں تھی۔ چنانچہ ان پر وہ الزامات لگے جن کا نہرو خاندان کے حوالے سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اصولی اعتبار سے اندرا گاندھی کو سنجے گاندھی کی سیاست کے حوالے سے محتاط رہنا چاہیے تھا مگر وہ اپنے سیاسی وارث کو ابھرتے دیکھنا چاہتی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے سنجے گاندھی کو اقتدار کے ایوانوں میں وہ رسائی فراہم کی جس نے اندرا گاندھی کی سیاست کو ذاتیات کی آگ میں جھونک دیا۔ یہاں سے اندرا گاندھی کی اس نامقبولیت کا آغاز ہوا جس نے ان سے ایمرجنسی لگوا کر ان کی سیاست میں ذاتیات کے رنگ کو گہرا کردیا۔ چنانچہ اندرا گاندھی کے خلاف ایسی سیاسی تحریک منظم ہوئی جس کی بھارت کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
جان ایف کینیڈی امریکا کی سیاسی تاریخ کے اہم لوگوں میں سے ایک تھے۔ ان کی دوخوبیاں امریکا کا سرمایہ تھیں۔ وہ عوام میں بے انتہا مقبول تھے اور ان کی ذہانت کی سطح بلند تھی۔ چنانچہ وہ دنیا کو ’’اپنی آنکھوں‘‘ سے دیکھنے اور اس کے بارے میں ’’اپنے ذہن‘‘ سے سوچنے کی صلاحیتیں رکھتے تھے۔ یہ بات امریکا کے جرنیلوں کے لیے ایک بڑا درد سر تھی۔ سابق سوویت یونین نے کیوبا میں میزائل نصب کیے تھے تو ایک بڑا عالمی بحران پیدا ہوگیا۔ امریکا کے جرنیلوں کا اصرار تھا کہ کیوبا کو سزا دینے کے لیے کیوبا پر ایٹم بم گرادیا جائے۔ قومی سلامتی سے متعلق جتنے اجلاس ہوئے۔ پینٹاگون کے نمائندے کینیڈی سے ایک ہی بات کہتے۔ کیوبا پر ایٹم بم گرادو۔ لیکن کینیڈی کے نزدیک یہ ایک تباہ کن مشورہ تھا چنانچہ وہ اس کی مزاحمت کرتے رہے۔ امریکا کے جرنیل کینیڈی کے ساتھ اجلاس میں شرکت کرکے باہر نکلے تو اس کو برا بھلا کہتے۔ یہاں تک کہ انہوں نے بالآخر کینیڈی کو راستے سے ہٹا دیا اور ان کے قتل کی تحقیقات تک نہ ہونے دیں۔ سیاست میں ذاتیات کے نمونے امریکا کو ایک اہم اور مقبول رہنما سے محروم کردیا۔ لیکن پاکستان میں یہ مسئلہ دنیا کے بہت سے ملکوں سے زیادہ سنگین ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔؟
اس کی بنیادی وجہ تاریخی ہے۔ پاکستان کی تاریخ پہلے ان سے شخصیت مرکز یا Centric Personality ہے۔ تحریک پاکستان میں قائد اعظم کی شخصیت مرکزی تھی۔ وہی تحریک تھے۔ وہی مسلم لیگ تھے۔ وہی تنظیم تھے۔ وہی تحرّک تھے۔ وہی نعرہ تھے۔ وہی جدوجہد تھے۔ وہی امید تھے۔ یہ صورتحال مسلمانوں کی عمومی تاریخ کے تجزیے سے ہم آہنگ تھی۔ اسی لیے کہ پوری مسلم تاریخ میں شخصیتوں کی تاریخ ہے لیکن مسلم تاریخ میں شخصیتوں کے متوازی ادارہ سازی کا عمل بھی موجود رہا ہے۔ لیکن قائد اعظم کی شخصیت کے ساتھ اداروں کی تشکیل کا عمل نہ ہوسکا۔ چنانچہ قائد اعظم کے منظر سے ہٹتے ہی ایک ہولناک خلا پیدا ہوگیا۔ اس خلا کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ قائد اعظم کی جگہ لینے کے لیے نہ کوئی شخصیت موجود تھی۔ نہ ادارہ۔ ادارے کے تجربے کی عدم موجودگی میں قوم کا سیاسی ذوق شخصیات سے متعلق ہوکر رہ گیا۔ لیکن قائد اعظم کے بعد ہماری قیادت کا معیار گرتا ہی چلا گیا چنانچہ ہماری سیاست میں ذاتیات کے عنصر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ شخصیت جتنی بڑی اور مضبوط ہوگی ذاتیات سے اتنی ہی بلند ہوگی اور شخصیت جتنی کمزور ہوگی ذاتیات میں اتنی ہی ملوث ہوگی۔ چونکہ پاکستانی سیاست میں کمزور شخصیتوں کی بھرمار ہوگئی ہے اس لیے ذاتیات ہماری سیاست کا محوربن کر رہ گئی ہے۔
www.nasikblog.com
جنرل ایوب کا مارشل ایک ادارتی یا Institutionalمسئلہ تھا۔ جنرل ایوب فوج کے ادارے کی مجموعی قوت کی بنیاد پر ملک کے سیاہ وسفیدکے مالک بنے تھے لیکن ان کا اقتدار جیسے جیسے مستحکم ہوا ان کی ذات ہر چیز پر غالب آتی چلی گئی۔ اس کے دو ہولناک نتائج برآمد ہوئے۔ ایک یہ کہ جو شخص جنرل ایوب کا حامی تھا وہ جنرل ایوب کی ذات کی بنیاد پر ان کا حامی تھا اور جو ان کا مخالف تھا وہ ان کی ذات کی بنیاد پر ان کا مخالف تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو جنرل ایوب کی مخالفت مارشل لا کی مخالفت بن جاتی۔ آمریت کی مخالفت بن جاتی۔ اقتدار پر فوج کے قبضے کی مخالفت بن جاتی۔ مخالفت کی اس نوعیت سے معاشرے کی تعلیم وتربیت میں بڑی مدد ملتی۔ قوم کے شعور کی سطح بلند ہوتی اور اس میں طاقت کے اندھا دھند استعمال کی مزاحمت کا جذبہ پیدا ہوتا۔ لیکن جنرل ایوب کی ساری مخالفت ان کی ذات پر صرف ہوگئی۔ اور ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ملک وقوم کا اصل مسئلہ جنرل ایوب کی ذات ہے جس کے منظر سے ہٹ جانے سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ لیکن جنرل ایوب کے منظر سے ہٹنے کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔ جنرل ایوب کی جگہ جنرل یحییٰ نے لے لی اور قوم کا سارا جوش وجذبہ چہرے کی تبدیلی سے سرد پڑ گیا اور جنرل یحییٰ خان نے تین سال تک جو چاہا کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے پاکستان کو دولخت کردیا لیکن سقوط ڈھاکہ تک ان کے خلاف ردعمل کی کوئی بڑی صورت کہیں موجود نہ تھی اور تھی بھی تو اس کی بنیاد بھی ذاتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سقوط ڈھاکا کو بھی جنرل یحییٰ کا ’’ذاتی فعل‘‘ قرار دے کر نظر انداز کردیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نظریاتی کشمکش کی علامت بن کر سامنے آئے تھے اور جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کی شخصی آمریت کے تناظر میں بھٹو صاحب کی شخصیت میں ’’اجتماعیت‘‘ کا رنگ بھی موجود تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ان کے نظریات پس منظر میں چلے گئے۔ اجتماعیت کے تمام رنگ اڑ گئے اور ہر چیز پر ان کی شخصیت کی مہر لگی ہوئی نظر آنے لگی۔ اسلامی سوشلزم بھی بھٹو صاحب تھے۔ لبرل ازم کی علامت بھی وہی تھے۔ سیکولرازم کا استعارہ بھی وہی تھے۔ پیپلزپارٹی بھی انہی کی ذات کی توسیع تھی۔ چنانچہ ان کا نصف ردعمل بھی ذاتی ہوتا چلا گیا۔ پی این اے کی تحریک کہنے کو تحریک نظام مصطفیٰ تھی لیکن اس تحریک کی قوت کا صرف ایک فیصد نظام مصطفیٰ کے لیے صرف ہورہا تھا اس تحریک کی 99 فیصد قوت بھٹو صاحب کے خلاف استعمال ہوئی۔ چنانچہ بھٹو صاحب تو ہٹ گئے قوم کو نظام مصطفیٰ کی ایک جھلک بھی میسر نہ آسکی۔
بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کی غیرمعمولی مزاحمت کی۔ انہوں نے نظر بندی کی صعوبتیں جھیلیں۔ ایم آر ڈی کی تحریک کا بار اٹھایا۔ جلا وطنی کا دکھ سہا۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کے خلاف ان کی مزاحمت کا رنگ بھی ذاتی تھا۔ انہیں جنرل ضیاء الحق سے اصل شکایت یہ نہیں تھی کہ وہ فوجی آمر تھے اور انہوں نے غیرآئینی طور پر ان کے والد کی حکومت کو برطرف کیا تھا۔ بلکہ ان کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ وہ جنرل ضیاء الحق کو اپنے والد کا قاتل سمجھتی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کا مسئلہ جرنیل یا فوجی آمریت ہوتی تو وہ جنرل مرزا اسلم بیگ کو ’’تمغہ جمہوریت‘‘ نہ دیتیں۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ سمجھوتا کرکے سیاست نہ کرتیں لیکن سیاست اور ذاتیات کا معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں۔
بھارت کی سیاست میں نہرو خاندان کا کردار بنیادی ہے۔ نہرو جدید بھارت کے بانی تھے۔ بھارت کی تاریخ میں ان کی حیثیت سیاسی ہیرو کی تھی۔ اندرا گاندھی نہرو خاندان کا تسلسل تھیں۔ اس کی علامت تھیں۔ ان کے سر پر پاکستان کو دوٹکڑے کرنے کا تاج تھا۔ صرف ان کی سیاست خاندانی ہونے کے باوجود اجتماعیت کا استعارہ تھی۔ لیکن ان کی دوغلطیوں نے ان کی سیاست کو ذاتیات کی دلدل میں دھنسا دیا۔ سنجے گاندھی ان کے چھوٹے بیٹے اور ان کے سیاسی وارث تھے۔ وہ ذہین تھے متحرک تھے مگر ان کی شخصیت میں کردارکی بلندی نہیں تھی۔ چنانچہ ان پر وہ الزامات لگے جن کا نہرو خاندان کے حوالے سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اصولی اعتبار سے اندرا گاندھی کو سنجے گاندھی کی سیاست کے حوالے سے محتاط رہنا چاہیے تھا مگر وہ اپنے سیاسی وارث کو ابھرتے دیکھنا چاہتی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے سنجے گاندھی کو اقتدار کے ایوانوں میں وہ رسائی فراہم کی جس نے اندرا گاندھی کی سیاست کو ذاتیات کی آگ میں جھونک دیا۔ یہاں سے اندرا گاندھی کی اس نامقبولیت کا آغاز ہوا جس نے ان سے ایمرجنسی لگوا کر ان کی سیاست میں ذاتیات کے رنگ کو گہرا کردیا۔ چنانچہ اندرا گاندھی کے خلاف ایسی سیاسی تحریک منظم ہوئی جس کی بھارت کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
جان ایف کینیڈی امریکا کی سیاسی تاریخ کے اہم لوگوں میں سے ایک تھے۔ ان کی دوخوبیاں امریکا کا سرمایہ تھیں۔ وہ عوام میں بے انتہا مقبول تھے اور ان کی ذہانت کی سطح بلند تھی۔ چنانچہ وہ دنیا کو ’’اپنی آنکھوں‘‘ سے دیکھنے اور اس کے بارے میں ’’اپنے ذہن‘‘ سے سوچنے کی صلاحیتیں رکھتے تھے۔ یہ بات امریکا کے جرنیلوں کے لیے ایک بڑا درد سر تھی۔ سابق سوویت یونین نے کیوبا میں میزائل نصب کیے تھے تو ایک بڑا عالمی بحران پیدا ہوگیا۔ امریکا کے جرنیلوں کا اصرار تھا کہ کیوبا کو سزا دینے کے لیے کیوبا پر ایٹم بم گرادیا جائے۔ قومی سلامتی سے متعلق جتنے اجلاس ہوئے۔ پینٹاگون کے نمائندے کینیڈی سے ایک ہی بات کہتے۔ کیوبا پر ایٹم بم گرادو۔ لیکن کینیڈی کے نزدیک یہ ایک تباہ کن مشورہ تھا چنانچہ وہ اس کی مزاحمت کرتے رہے۔ امریکا کے جرنیل کینیڈی کے ساتھ اجلاس میں شرکت کرکے باہر نکلے تو اس کو برا بھلا کہتے۔ یہاں تک کہ انہوں نے بالآخر کینیڈی کو راستے سے ہٹا دیا اور ان کے قتل کی تحقیقات تک نہ ہونے دیں۔ سیاست میں ذاتیات کے نمونے امریکا کو ایک اہم اور مقبول رہنما سے محروم کردیا۔ لیکن پاکستان میں یہ مسئلہ دنیا کے بہت سے ملکوں سے زیادہ سنگین ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔؟
اس کی بنیادی وجہ تاریخی ہے۔ پاکستان کی تاریخ پہلے ان سے شخصیت مرکز یا Centric Personality ہے۔ تحریک پاکستان میں قائد اعظم کی شخصیت مرکزی تھی۔ وہی تحریک تھے۔ وہی مسلم لیگ تھے۔ وہی تنظیم تھے۔ وہی تحرّک تھے۔ وہی نعرہ تھے۔ وہی جدوجہد تھے۔ وہی امید تھے۔ یہ صورتحال مسلمانوں کی عمومی تاریخ کے تجزیے سے ہم آہنگ تھی۔ اسی لیے کہ پوری مسلم تاریخ میں شخصیتوں کی تاریخ ہے لیکن مسلم تاریخ میں شخصیتوں کے متوازی ادارہ سازی کا عمل بھی موجود رہا ہے۔ لیکن قائد اعظم کی شخصیت کے ساتھ اداروں کی تشکیل کا عمل نہ ہوسکا۔ چنانچہ قائد اعظم کے منظر سے ہٹتے ہی ایک ہولناک خلا پیدا ہوگیا۔ اس خلا کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ قائد اعظم کی جگہ لینے کے لیے نہ کوئی شخصیت موجود تھی۔ نہ ادارہ۔ ادارے کے تجربے کی عدم موجودگی میں قوم کا سیاسی ذوق شخصیات سے متعلق ہوکر رہ گیا۔ لیکن قائد اعظم کے بعد ہماری قیادت کا معیار گرتا ہی چلا گیا چنانچہ ہماری سیاست میں ذاتیات کے عنصر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ شخصیت جتنی بڑی اور مضبوط ہوگی ذاتیات سے اتنی ہی بلند ہوگی اور شخصیت جتنی کمزور ہوگی ذاتیات میں اتنی ہی ملوث ہوگی۔ چونکہ پاکستانی سیاست میں کمزور شخصیتوں کی بھرمار ہوگئی ہے اس لیے ذاتیات ہماری سیاست کا محوربن کر رہ گئی ہے۔
www.nasikblog.com
No comments:
Post a Comment