Saturday, March 10, 2012

گویائی


ہماری مذہبی روایت میں گویائی انسان کی تعریف متعین کرنے والی سب سے بنیادی اور سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی میں اللہ تعالیٰ نے جو بنیادی باتیں کہی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بولنا سکھایا، اور دوسری بات یہ ہے کہ اسے قلم کے ذریعے وہ علم دیا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نطق کی صلاحیت اپنی اصل میں لسانی یا سماجی حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ ایک ’’عطائے الٰہی‘‘ ہے اور لسانی سانچہ اور سماجیات نطق کی صلاحیت کا محض خارجی ماحول ہیں، اور ان کی اہمیت ثانوی ہے، بنیادی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ میں انسان کو کبھی معاشی حیوان، سماجی حیوان یا سیاسی حیوان نہیں کہا گیا، بلکہ اسے ’’حیوانِ ناطق‘‘ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ لیکن پہلی وحی میں انسان کی بولنے کی صلاحیت کے ساتھ ہی قلم اور علم کا ذکر کیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ گویائی کی جڑیں علم میں پیوست ہیں، اور ہماری روایت میں علم اور صداقت ہم معنی الفاظ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری مذہبی روایت میں گویائی کا تعلق صداقت سے ہے، بہ الفاظِ دیگر ہماری روایت میں گویائی صداقت کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت انبیاء و مرسلین کی روایت ہے۔ انبیاء و مرسلین سے دو چیزیں منسوب ہیں، ایک ’’کتاب‘‘ اور دوسری خود ان کے ’’اقوال‘‘… اور یہ دونوں ہی حق ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ انبیاء و مرسلین کی گویائی کی ہر صورت اور اس گویائی میں استعمال ہونے والا ہر لفظ حق تھا، صداقت تھا۔ یعنی انبیاء و مرسلین یا تو خاموش رہتے تھے یا کلام کرتے تھے تو حق کے سوا کچھ نہیں کہتے تھے۔ لیکن ’’اظہار‘‘ صرف قول کے ذریعے نہیں ہوتا، عمل بھی اظہار یا گویائی کی ایک صورت ہے۔ یہاں بھی انبیاء و مرسلین کی روایت یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ بھی حق اور صداقت کی عملی تفسیر کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ گویائی یا اظہار کی ہر صورت کا تعلق حق اور صداقت سے ہے۔ گویائی حق و صداقت سے متعلق ہو تو پھر مسلمان کے لیے جنت یقینی ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
تاثیر گویائی کا جزوِ لاینفک اور اس کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ گویائی میں تاثیر کہاں سے آتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تاثیر کا تعلق بھی حق و صداقت سے ہے۔ آسمانی کتابیں حق کا سب سے بڑا مظہر ہیں اس لیے ان میں سب سے زیادہ تاثیر ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی تاثیر کا عالم یہ ہے کہ محض اس کی قرأت بھی قلوب و اذہان کو بدل دیتی ہے۔ انبیاء و مرسلین حق و صداقت کی عملی تفسیر تھے اس لیے ان کی باتوں میں ایسی تاثیر تھی کہ ان کی ہر بات تاثیر کا سمندر تھی۔ ہم سب مشاہدے اور تجربے سے جانتے ہیں کہ بچوں کی بات میں بڑا اثر ہوتا ہے۔ ان کی باتوں میں زبان و بیان کی کوئی عظمت نہیں ہوتی، وہ علمی و ادبی زبان کے استعمال سے ناواقف ہوتے ہیں، ان کے فقرے مختصر اور سیدھے سادے ہوتے ہیں مگر ان کا ہر لفظ دل میں اتر جاتا ہے اور دیر تک یاد رہتا ہے۔ ان کی باتوں میں ایک حسن، ایک جمال اور ایک دل آویزی ہوتی ہے۔ یہ تمام چیزیں حق و صداقت کے مختلف مظاہر ہیں۔
دنیا کی تمام مذہبی تہذیبوں میں ’’فنِ خطابت‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہاں تک کہ شاعری کو بھی خطابت کا جزو سمجھا جاتا تھا۔ عربوں کی لسانی اہلیت غیر معمولی تھی، اس لیے ان کے یہاں فنِ خطابت مرتبۂ کمال کو پہنچ گیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مذہبی تہذیبوں میں خطابت کا مفہوم کیا تھا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ روایتی تہذیبوں میں خطابت کے معنی صداقت کے مؤثر ابلاغ کے تھے۔ لیکن فی زمانہ یہ بات کسی کو معلوم نہیں۔ چنانچہ ہمارے زمانے میں خطابت تقریباً تباہ ہوگئی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا میں کروڑوں لوگ تقریر کرتے ہوئے چیختے ہیں، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جتنا چیخیں گے ان کی تقریر اتنی ہی ’’مؤثر‘‘ ہوگی۔ ان لوگوں سے بہتر وہ مقررین ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تاثیر زبان و بیان کی ’’روانی‘‘ میں ہے۔
بعض لوگ تقریر کرتے ہوئے لفظوں سے کھیلتے ہیں اور وہ نثر میں شاعری کا ذائقہ پیدا کرکے تقریر کو مؤثر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن خطابت نہ چیخنے چلاّنے کا نام ہے، نہ روانی کے ساتھ تقریر کرنے کا نام ہے، نہ نثر میں قافیہ بندی کرنے کا نام ہے۔ خطابت صداقت کو مؤثر انداز میں بیان کرنے کا نام ہے۔ اس کے سوا خطابت کی جتنی صورتیں ہیں وہ ’’لذت ِ گفتار‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ اور لذت ِ گفتار جہاں سے شروع ہوتی ہے وہاں سے صداقت کے فنا ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ لذت ِ گفتار گویائی کو انسان کے باطن سے کاٹ کر اس کے خارج سے وابستہ کرنے لگتی ہے۔ ہمارے زمانے میں اچھے مقرر کو ’’شعلہ بیان‘‘ کہا جاتا ہے، اور یہ مقرر کی سب سے بڑی تعریف ہے۔ لیکن خطابت کی حقیقی روایت کے تناظر میں شعلہ بیانی خطیب اور خطابت کی قوت نہیں اس کی کمزوری ہے، اس کا حسن نہیں اس کی بدصورتی ہے۔ اس لیے کہ شعلہ بیان مقرر کے اپنے جذبات بھی مشتعل ہوتے ہیں اور وہ سامعین کے جذبات میں بھی ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے۔ جذبات کو مشتعل کرنا بھی آسان کام نہیں، اور اس میں بھی بلاشبہ ایک ’’ہنر‘‘ ہوتا ہے اور اس کے لیے بھی ’’اہلیت‘‘ درکار ہوتی ہے، لیکن جذبات کا اشتعال اور اس اشتعال کا ابلاغ خطابت نہیں۔ خطابت تو صرف صداقت کے مؤثر ابلاغ کا نام ہے۔ ایک شعر ہے   ؎
مری آواز جیسے اِک صدا میں ڈھلنے لگتی ہے
میں جب بھی بولتا ہوں لذتِ گفتار سے ہٹ کر
غور کیا جائے تو آواز اور صدا کا فرق تقریر اور خطابت کا فرق ہے۔ آواز صرف تقریر ہے، صدا خطابت ہے۔ آواز صرف شور ہے، صدا صداقت کا اظہار اور اس کا ابلاغ ہے۔ اردو میں خطیبانہ شاعری کی اعلیٰ ترین مثال اقبال کی شاعری ہے۔ یہ شاعری صرف جذبات کو نہیں پورے وجود کو متاثر کرتی ہے، اس لیے کہ اس کا اصلِ اصول صداقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شاعری میں جذبہ آگہی کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ اردو شاعری میں خطیبانہ شاعری کی کمزور مثال جوشؔ ملیح آبادی کی شاعری ہے۔ جوش کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بار ناصر کاظمی نے کہا تھا کہ جوشؔ ہاتھی پہ بیٹھ کر چڑیا کا شکار کرنے نکلتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوشؔ کے الفاظ اور اسلوب کی بلند آہنگی سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جوشؔ نے اپنے شعر میں بڑی بات کہی ہوگی، لیکن جب ان کے شعر کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو اس سے چھوٹے سے معنی برآمد ہوتے ہیں۔ یہی ہاتھی پر بیٹھ کر چڑیا کا شکارکھیلنے کا عمل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جوشؔ کی شاعری میں صداقت کی کمی ہے اور وہ اس کمی کو الفاظ اور اسلوب کی گھن گرج سے دور کرنا چاہتے ہیں، مگر دنیا کی کوئی چیز صداقت کا نعم البدل نہیں بن سکتی۔ صداقت کا خلا صرف صداقت سے پُر ہوسکتا ہے۔
غور کیا جائے تو صداقت کے بغیر گویائی محض ایک قیاس آرائی ہے، اور قیاس آرائی گمان کی ایک صورت ہے، اور گمان کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ گمان سے بچو، کیوں کہ اکثر گمان گناہ ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے زمانے کا المیہ یہ ہے کہ اس نے علم، تفکر اور صداقت کے تجربے کے بغیر انسانوں کو گویائی یا گفتگو کا عادی بنادیا ہے، یہاں تک کہ اظہار کی آزادی‘ آزادی کی سب سے بڑی صورت بن کر رہ گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کی پوری زندگی قیاس آرائیوں اور گمانوں کے سمندر میں غرق ہوکر رہ گئی ہے۔ اس صورت حال کو جدید ذرائع ابلاغ نے اور بھی سنگین بنادیا ہے۔ اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن گمانوں کے لشکر پیدا کرنے والے کارخانے بن گئے ہیں۔ گمانوں کے یہ لشکر انفرادی زندگی سے لے کر بین الاقوامی زندگی تک، ہر جگہ ’’مارچ‘‘ کرتے نظر آرہے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ گویائی کا تصور خاموشی کے بغیر محال تھا۔ جس کی جیسی خاموشی ہوتی تھی، ویسی ہی اس کی گویائی ہوتی تھی۔ خاموشی کو بعض لوگ پورے انسانی وجود کا عدم تحرک سمجھتے ہیں، مگر ایسا نہیں ہے۔ خاموشی… اگر وہ حقیقتاً خاموشی ہو… تو اسے ذہن کا عدم تحرک اور قلب کا تحرک سمجھنا چاہیے۔ اسے ذہن کی خوابیدگی اور قلب کا تفکر بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی زمانے میں گویائی کی پشت پر قلب کا تفکر یا Contemplation ہوتا تھا، اور جتنا یہ تفکر ہوتا تھا گویائی اتنی ہی بامعنی ہوتی تھی۔ لیکن اب بیشتر صورتوں میں ہماری گویائی ہماری اَنا، ہماری سماجیات، ہماری معاشیات اور ہماری سیاسیات کا اظہار ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے صداقت کا مفہوم سماجی، معاشی یا سیاسی صداقت ہوکر رہ گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب ہماری گویائی ہمیں ظاہر کم کرتی ہے، ہمیں چھپاتی زیادہ ہے۔ ہماری گفتگو دیواروں میں در کم بناتی ہے دیواریں زیادہ اٹھاتی ہے۔

No comments:

Post a Comment