Sunday, March 25, 2012

مشن اور کاروبار

ہماری اجتماعی زندگی کا یہ ایک عجیب پہلو ہے کہ جب تک ہم انگریزوں کے غلام تھے ہماری قومی صحافت ایک مشن تھی لیکن آزادی حاصل کرتے ہی وہ کاروبار بن گئی۔ حالانکہ دنیا کی عمومی تاریخ کا تجربہ اس کے برعکس یہ ہے کہ غلامی انسان کو غیرذمہ دار اور بے ضمیر بناتی ہے اور آزادی انسان کو ذمہ دار اور صاحب ضمیر بناتی ہے۔ فرانس کے ممتاز ادیب اور فلسفی ژاس پال سارتر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ جب فرانس پر جرمنی کا قبضہ ہوگیا اور ہمیں قید کرلیا گیا تو ہم نے محسوس کیا کہ زندگی ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور اب زندگی کے حوالے سے ہماری کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہی۔ لیکن برصغیر کی ملت اسلامیہ جب انگریزوں کی غلامی تھی تو اس نے صحافت کے میدان میں ابوالکلام آزاد‘ مولانا حسرت موہانی اور مولانا محمد علی جوہر اور مولانا مودودی جیسے لوگ پیدا کیے۔ ان لوگوں کا اصل مسئلہ حق گوئی اور ملّی مفاد کا تحفظ تھا۔ انگریزوں کے جبر واستبداد میں یہ کام آسان نہ تھا۔ مولانا حسرت موہانی حق گوئی کی پاداش میں جیل جاتے تھے تو ان کی اہلیہ کے پاس کبھی گزارے کے لیے دس روپے ہوتے تھے اور کبھی پانچ روپے، مولانا کی جیل بھی ’’فائیواسٹار‘‘ نہیں ہوتی تھی۔ جیل کی مشقت کا حال خود مولانا نے اس شعر میں بیان کردیا ہے۔ ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی کیا طُرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی مولانا کے شعر میں چکی کی جس مشقت کا ذکر ہے فی زمانہ اکثر لوگوں کو اس کا مفہوم معلوم نہیں۔ آج سے ستر اسّی سال پہلے آٹا پتھر کے دوپاٹوں پر مشتمل چکّی سے پیسا جاتا تھا۔ اوسط درجے کی چکّی کے اوپر باٹ 15‘ 20 کلو کا ہوتا تھا جسے چکّی میں لگے ہوئے کھونٹے ’’نما ہتّھے‘‘ کے ذریعے گھمانا پڑتا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس چکّی کو صرف گھمانا ہی ایک مشقت تھی۔ چکّی میں گندم ڈالاجاتا تو چکّی کئی گنا بھاری ہوجاتی تھی اور پانچ منٹ میں انتڑیاں منہ کو آنے لگتی تھیں۔ حسرت ایسی چکی پھر جیل میں روزانہ چالیس کلو گندم کو آٹا بناتے تھے۔ لیکن حسرت نے اس مشقت کو بھی شاعری بنالیا تھا۔ چنانچہ وہ جیل سے باہر آتے تو انہیں یاد تک نہ رہتا کہ وہ جیل میں کس مشقت سے گزر کر آتے ہیں۔ لیکن چکی کی مشقت کو شاعری بنانا آسان نہیں۔ اس کے لیے ایک جانب سورج جیسی روشن روح اور سمندر جیسا کشادہ دل چاہیے اور دوسری جانب اس کے لیے ایک ایسا صبر درکار ہے جو صرف صبر نہ ہو صبر جمیل ہو اور کسی پر جمال چار دن میں نہیں آتا اور کوئی ایک ہفتے میں جمیل نہیں بن جاتا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ عہد غلامی میں ہماری صحافت بحیثیت مجموعی مشن کیوں تھی؟۔ برصغیر کی ملت اسلامیہ کا امتیاز یہ ہے کہ اس کا مذہبی شعور اور تہذیبی حس غیر معمولی ہے چنانچہ اس کا اجتماعی تناظر ہمیشہ مذہبی اور تہذیبی ہوتا ہے۔ اس تناظر کے تحت وہ اکبر اعظم کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی اور اورنگزیب عالمگیر کو رحمت اللہ علیہ کہہ کر سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے۔ جو خلافت عثمانیہ کے لیے اس طرح تحریک چلاتی ہے جسے خلافت عثمانیہ کا مرکز ترک نہیں دلّی یا لاہور ہے۔ جس نے الگ ملک کا مطالبہ کیا تو اس کی بنیاد اسلام کو بنایا۔ ایسی ملت کو غلامی میں حسرت موہانی اور مولانا محمد علی جوہر جیسے لوگ پیدا کرنے ہی تھے کیونکہ ایسی ملت کے لیے اس صورت میں اظہار حق سب سے زیادہ ضروری ہوجاتا ہے جب حق کا اظہار سب سے زیادہ دشوار بنادیا گیا ہو۔ غلامی میں ہماری صحافت اس لیے بھی مشن تھی کہ اس شعبے میں ’’جعلی مجنوں‘‘ آہی نہیں سکتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت صحافت دھوپ کا سائبان تھی۔ خوف کا راستہ تھی۔ قربانیوں کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھی۔ چنانچہ اس دور میں صحافت کا بوجھ نہ ’’شوقیہ فنکار‘‘ سنبھال سکتے تھے۔ نہ لیلیٰ صحافت کے عشق میں ’’گلیسرین کے آنسو‘‘ بہانے والے مجنوں چنانچہ اس دور میں صحافت کو مشن ہونا ہی تھا۔ اس دور میں صحافت اس لیے بھی مشن تھی کہ برصغیر کی ملت اسلامیہ نے مشکلات اور دشواریوں کو بوجھ بنانے کے بجائے انہیں ’’چیلنج‘‘ میں ڈھال لیا۔ چنانچہ ہر رکاوٹ ایک تحرّک بن گئی۔ لیکن آزادی کے ساتھ ہی صورت حال یکسر بدل گئی۔ ہم ’’اقلیت‘‘ کے بجائے اچانک ’’اکثریت‘‘ بن گئے۔ ہمارے مذہبی شعور کی سطح پست ہوگئی اور ہماری تہذیبی حس کند ہونے لگی۔ آزادی قوموں کو ذمہ دار بناتی ہے مگر ہمارے مذہبی شعور کی پستی اور تہذیبی حس کے زوال نے آزادی کو ہمارے لیے ’’خود اطمینانی‘‘ میں ڈھال دیا اور ہم نے مشکلات کو چیلنج میں ڈھالنے کے بجائے انہیں اپنے لیے بوجھ بنالیا۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے ہماری صحافت مشن سے کاروبار بننے لگی۔ لیکن ہماری صحافت کے کاروبار ہونے کی بات بھی پوری طرح درست نہیں۔ کاروبار کی اخلاقیات یہ ہے کہ ’’گاہکوں‘‘ کے عقائد‘ اقدار اور روایات کی پاسداری کی جائے ان کے حلال کو حلال اور ان کے حرام کو حرام سمجھا جائے۔ سوویت یونین غلط یا صحیح ایک ’’نظریاتی ریاست‘‘ تھا۔ زندگی کے بارے میں اس کے کچھ بنیادی ’’عقائد‘‘ تھے اور سوویت یونین میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ سوویت یونین کی صحافت ان عقائد کو نظرانداز کر کے ایک لفظ بھی لکھ سکتی ہے۔ جدلیاتی مادیت‘ طبقاتی کشمکش اور قدر زاید کا نظریہ مارکسزم کے بنیادی استعارات تھے اور ان کے خلاف بات کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ امریکا اور یورپ سرمایہ دارانہ نظام کے مراکز ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی تصورات میں آزادی‘ جمہوریت اور مساوات کی نوعیت اساسی ہے۔ چنانچہ مغربی دنیا کی صحافت کے مرکزی دھارے میں رہتے ہوئے یہ سوچنا بھی محال ہے ان تصورات سے کون انحراف کرسکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں روزانہ ایسا مواد شائع اور نشر ہورہا ہے جو اسلام اور مسلمانوں کی تہذیبی روح کے خلاف ہے۔ یہ صورت حال ملک کے بنیادی نظریات ہی نہیں کاروبار کے اصولوں کے بھی خلاف ہے لیکن اس کے نہ کوئی داد ہے نہ فریاد ہے۔ حکمرانوں کے خلاف چار مضامین بھی شائع ہوجاتے ہیں تو وہ برا مانتے ہیں لیکن پاکستان کے نظریے اور اس کی تہذیب وثقافت کے خلاف ہزاروں مضامین کی اشاعت بھی حکمرانوں تک خبر بن کر نہیں پہنچ پاتی۔ اس سلسلے میں عوام کا رویہ بھی عجیب وغریب ہے۔ وہ ذرائع ابلاغ کے اطلاعاتی‘ تجزیاتی یا تفریحی جبر پر منہ تو بہت بناتے ہیں مگر اس جبر کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ وہ اطلاعات اور تفریح کے زہریلے پن کو اس طرح نہیں پہچان پاتے جس طرح وہ کسی عام کھانے کی چیز میں موجود زہریلے اجزاء کو پہچان لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری قومی صحافت کا بڑا حصہ مشن کیا کاروبار کی سطح سے بھی نیچے آگیا ہے۔

No comments:

Post a Comment