تکبّر
-’’تکبّر‘‘ کا مطلب بڑائی ہے اور بڑائی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک حقیقی اور
دوسری غیر حقیقی یا مفروضہ۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کائنات میں صرف
ایک ہستی ایسی ہے جس کے لیے تکبّر روا ہے اور وہ ہستی اﷲ تعالیٰ ہے۔ اس
لیے کہ صرف اﷲ تعالیٰ ہی حقیقی معنوں میں بڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اﷲ
ہی ہر چیز کا خالق ہے۔ وہی ہر شے کا مالک ہے۔ وہی ہر زندہ وجود کو رزق
فراہم کرنے والا ہے۔ جب کچھ نہیں تھا تو خدا تھا اور جب کچھ نہیں ہوگا تو
خدا ہوگا۔ اسے کسی کی ضرورت نہیں مگر سب کو اس کی ضرورت ہے۔ وہ کسی کا
محتاج نہیں مگر سب اس کے محتاج ہیں۔ اس کا ارادہ ہی حقیقی معنوں میں ارادہ
ہے۔ اس کا حکم ہی حقیقی معنوں میں حکم ہے۔ چنانچہ بڑائی صرف اسی کے لیے
زیبا ہے۔ ہمارے یہاں اﷲ اکبر کا ترجمہ ’’ اﷲ بڑا ہے‘‘ کیا جاتا ہے جو غلط
نہیں ہے۔مگر اللہ اکبرکا زیادہ صحیح ترجمہ ’’اللہ ہی بڑاہے‘‘ کے سوا کیا
ہوسکتاہے؟ چونکہ بڑائی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے زیبا ہے اس لیے ایک حدیث
شریف کا مفہوم یہ ہے کہ تکبّر اللہ کی چادرہے جو اللہ تعالیٰ کی اس
چادرکوکھینچتاہے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ سخت معاملہ کرتاہے۔ لیکن ان حقائق
کے باوجود جن وانس کی تاریخ ایک اعتبار سے تکبّرکی تاریخ ہے۔
کائنات میں تکبّر کا پرچم بلندکرنے والی پہلی ہستی شیطان کی تھی۔ اس وقت
شیطان کا نام عزا زیل تھا۔ وہ جن تھا مگر اس کی عبادت اور ریاضت نے اسے
فرشتوں کا ہم نشین بنادیاتھا۔ اس عالم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کی
تخلیق کی اور فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں۔ فرشتوں نے حکم کی
تعمیل کی مگر عزازیل نے سجدے سے انکارکیا اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ
آدم کو مٹی سے بنایاگیاہے اور اس کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اور آگ مٹی سے
برترہے۔ سوال یہ ہے کہ عزازیل کے اس تکبّرکا مفہوم کیاتھا۔؟
اس تکبّر کا ایک مفہوم یہ تھا کہ ایک غیرحقیقی وجود خودکو حقیقی وجودکے
مقابل لے آیاتھا جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ کیونکہ حقیقی اور غیرحقیقی
کبھی مساوی ہوہی نہیں سکتے۔ چنانچہ عزازیل کا تکبّر ظلم بھی تھا اور جہل
بھی۔ جہل صرف لاعلمی کو نہیں کہتے۔ جہل کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کوئی
جزوی علم کو کلی سمجھ لے جیساکہ شیطان نے کیا۔ شیطان کا علم جتنا بھی تھا
خداہی کا عطاکیاہواتھا اورہراعتبارسے جزوی تھا۔ کلیّ علم صرف خدا کے پاس
تھا صرف خدا ہی کو معلوم تھا کہ کون کس سے برترہے مگر شیطان نے دعویٰ
کردیا کہ آگ مٹی سے بہترہے۔ عزازیل کے تکبّر کا ایک پہلو یہ تھا کہ وہ یہ
نہیں سمجھاکہ اصل چیز اشیا اور ان کے خواص نہیں ہیں اصل چیزخداکا حکم ہے۔
خدا جس چیزکو صحیح کہے وہی صحیح ہے۔ وہ جس چیزکو جمیل کہے وہی جمیل ہے۔خدا
جسے ساجد کہے وہی ساجد ہے اور جسے مسجودکہے وہی مسجود ہے۔ یہاں کسی
چونکے‘چنانچے اور اگر مگرکی گنجائش ہی نہیں۔ لیکن عزازیل نے تکبّرکیا اور
اس کا تکبّر اس کی ہرخوبی کو لے ڈوبا۔ اس کا مقام بھی گیا۔ عبادت اور
ریاضت بھی گئی۔ علم اورفہم بھی گیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تکبّر اتنی
ہولناک چیز ہے کہ وہ ہرخوبی کوکھاجاتاہے۔
خدا کے بعد اب کائنات کی عظیم ترین ہستیاں انبیاء ومرسلین ہیں۔ انہیں
خداکا ایسا قرب حاصل ہوتاہے کہ کسی اور کے لیے اس کا تصور بھی محال ہے۔
انہیں وحی کے ذریعے وہ علم عطاکیاجاتاہے جو کسی کے پاس نہیں ہوتا لیکن اس
کے باوجود تمام انبیاء ومرسلین کو تواضع اور انکساری کے بلندترین مقام پر
فائزتھے۔ چنانچہ تمام انبیاء اور مرسلین نے یہی کہاکہ عظمت ‘بزرگی
اوربڑائی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے ۔ ہمارے پاس جوکچھ ہے ہمارا نہیں ہے
بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطاکردہ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سرورالانبیاء ہیں اور آپصلی اللہ علیہ وسلم
کی
شان کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امّی تھے۔ یعنی آپ نے دنیا سے اکتساب علم
نہیں کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو علم بھی تھا اللہ تعالیٰ کا عطاکردہ تھا۔ یہی
وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمکا انکسار بھی تمام انبیاء سے بڑھاہواتھا۔
انسان کی یہی تواضع اور یہی انکساردراصل انسانیت کی معراج ہے۔
دنیا میں کفر اور شرک کی تاریخ اپنی اصل میں تکبّر کی تاریخ ہے۔ دنیا میں
جوشخص خداکے وجودکا انکارکرتاہے وہ کائنات میں وجودحقیقی کو منہدم کرتاہے
اور جو وجود حقیقی کومنہدم کرتاہے وہ تکبّر کی بدترین صورت کا مظاہرہ
کرتاہے۔ یہ بالکل ایسی ہی جرات ہے جیسے انسانی جسم کا سایہ انسان کے حقیقی
جسم کو منہدم کرنے کا اعلان کرے۔ شرک خدا کی خدائی میں شرکت کا اعلان ہے
اور خدا کی خدائی میں شرکت غیرخدا کو خدا کے مساوی قرار دیناہے اور یہ
تکبّر کی ایک اوربدترین صورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کفراورشرک کے
سوا ہرگناہ کومعاف کردے گا۔ اس لیے کہ باقی گناہ بدترین ہونے کے باوجود
خدا کی بڑائی کا براہ راست انکارنہیں ہیں۔ مگرکفراورشرک براہ راست خداکی
بڑائی کا انکارکرتے ہیں لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ انسان تکبّر اختیارہی
کیوں کرتاہے؟۔
غورکیاجائے تو خدا اور بندے کے حقیقی تعلق کا شعور انسان کی سب سے بڑی
متاع ہے۔ یہ شعور جب تک انسان کو میسررہتاہے وہ تکبّر کی صورت میں مبتلا
نہیں ہوتا لیکن خدا اور بندے کے تعلق کے شعورمیں کمزوری پیدا ہوتے ہی
تکبّر کی مختلف صورتیں انسان کو گھیرلتی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی صورت کفرہے۔
کفرصرف یہی نہیں کہ انسان خدا کے وجود کا انکارکردے۔ انسان جب خداکا
انکارکرتاہے تو وہ خدا کی عدم موجودگی سے پیدا ہونے والے مفروضہ خلا کو
اپنی موجودگی سے پرکرتاہے۔ نمرود اور فرعون نے یہی کیا تھا۔ انہوں نے خدا
کی موجودگی کا انکار کیا اور اس کی جگہ اپنی خدائی کا اعلان کیا۔ تکبّر کی
دوسری بڑی صورت شرک ہے۔ شرک کی نفسیات یہ ہے کہ انسان خداکو کم کردیتاہے
اورخدا کے شریک کو بڑھا چڑھا دیتا ہے۔ اگرخداکی بڑائی کو کم نہ کیاجائے
اور کسی انسان کو حدسے نہ بڑھایاجائے تو شرک ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔
دیکھاجائے تو کفرکی جیسی صورت ہمارے عہدمیں موجود ہے۔ انسانی تاریخ کے کسی
عہدمیں موجود نہیں تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جوکافرتھے وہ خدا کے وجود
کے قائل نہ تھے۔ مگر وہ خدا کی جگہ انسان کو بھی خدا نہیں سمجھتے تھے لیکن
جدیدمغربی تہذیب نے ایک جانب خداکا انکارکیاہے اور دوسری جانب انسان کی
خدائی کا اعلان کرکے اسے کائنات کے مرکزمیں بٹھادیاہے۔ کسی زمانے میں
انسان کی خدائی صرف ایک نمرود اورایک فرعون تک محدود تھی مگر جدید مغربی
تہذیب نے ہر انسان کو ’’الوہیت‘‘ عطاکردی ہے۔ تاہم تکبّر کی اکثرصورتیں
انسانوں سے متعلق ہوتی ہیںیعنی ایک انسان خودکو دوسرے انسانوں سے
برترسمجھتاہے۔ سوال یہ ہے کہ اس تکبّر کا کیا مفہوم ہے؟اس سوال کا جواب یہ
ہے کہ انسانوں کے مابین بھی تکبّر مذہبی شعور کے زوال کا آئینہ دارہوتاہے۔
اس لیے کہ انسان ان چیزوں کی بنیادپرخودکو دوسروں سے برترسمجھتاہے جنہیں
خدا اور اس کے رسول نے برترقرارنہیں دیا۔ مثلاً مال‘ دولت ‘ عہدہ ومنصب‘
رنگ ونسل‘ حسن وجمال‘زبان‘ جغرافیہ‘ اسلام میں فضیلت صرف دوچیزوں میں ہے۔
ایک تقویٰ اوردوسرا علم‘ لیکن تقویٰ اور علم کا اثر یہ ہوتاہے کہ انسان
میں خاکساری فروتنی اورتواضع پیدا ہوجاتی ہے اور انسان تکبّر کی ہرصورت سے
نجات حاصل کرلیتاہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ تکبّر کے نقصانات کیاکیا ہیں؟
تکبّراعلان کے ساتھ یااعلان کے بغیر خدا کی مماثلت اختیارکرناہے اور اس سے
بڑے خسارے کا تصور محال ہے۔ تکبّر کا ایک ضرریہ ہے کہ اس سے انبیاء
ومرسلین کے مجموعی کردارکی نفی ہوجاتی ہے۔ اور انسان انبیاء ومرسلین کی
روایت کے دائرے سے نکل جاتاہے۔ لیکن عام زندگی کے حوالے سے بھی تکبّر کے
نقصانات بے پناہ ہیں‘ مثال کے طورپرمتکبّرشخص نہ حقیقی معنوں میں کسی سے
محبت کرسکتاہے اورنہ کوئی اور اس سے محبت کا تعلق استوار کرسکتا ہے ۔ اس
کا سبب یہ ہے کہ تکبّرمحبت کی ضد ہے۔ محبت انسانوں کو ہم آہنگ کرتی ہے
اورتکبّرانسانوں کے امتیازات کو نمایاں کرکے ان کے درمیان دیوارکھڑی
کرتاہے۔ اسی طرح متکبّر محبت سے محروم انسان ہوتاہے۔ تکبّرانسان کے
تصورذات یا Self Image کی ہولناک حدتک ناجائز توسیع ہے۔ چنانچہ تکبّر کرنے
والا زندگی کے بنیادی حقائق سے کٹا ہوا شخص ہوتاہے۔ متکبّرشخص کا تکبّر
اسے رفتہ رفتہ خود کلامی میں مبتلاکردیتاہے۔ متکبّر صرف اپنی بات کہتاہے
اور دوسروں کی زبان سے صرف اپنی ہی بات سننا چاہتاہے اس طرح وہ زندگی اور
اس کے تجربات کے تنوع بیگانہ ہوجاتاہے۔
No comments:
Post a Comment