Monday, May 7, 2012

سند کا مسئلہ

 لوگ دینی معاملات پر رائے زنی کا اختیار صرف علماء کو دینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ عام آدمی دین کا ’’اسپیشلسٹ‘‘ نہیں ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جس طرح ہم بیمار ہونے کی صورت میں مستند ڈاکٹر سے علاج کراتے ہیں اسی طرح دین میں بھی ہمیں اس کے مستند ماہر سے رجوع کرنا چاہیے۔ یاسر پیرزادہ کو شکایت ہے کہ یہ عیسائیوں والی روش ہے۔ یاسر پیرزادہ کے بقول پرانے وقتوں میں کلیسا دین کی تشریح کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ خدا کا ودیعت کیا ہوا ہے۔ یاسر پیرزادہ کے مطابق علماء کی سند پر اصرار کرنے والے مسلمانوں کو بھی Dark ages میں لے جانا چاہتے ہیں جہاں بادشاہ اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے مرض کے فتوے تیار کرتا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ انسان نے ہر دور میں سند اور اختصاص کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ آدمی بیمار پڑتا ہے تو ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ فی زمانہ آنکھ کا مسئلہ ہوتو ماہر امراض چشم سے رجوع کیا جاتا ہے ماہر امراض قلب سے رابطہ نہیں کیا جاتا ہے حالانکہ ماہر امراض قلب بھی ’’ڈاکٹر‘‘ ہی ہوتا ہے۔ آدمی گھر بنانا چاہتا ہے تو انجینئر کی خدمات حاصل کرتا ہے درزی کے پاس نہیں جاتا۔ البتہ کپڑے سلوانے کی ضرورت ہوتو وہ درزی ہی کے پاس جاتاہے موچی سے رجوع نہیں کرتا خواہ موچی اس کی بغل میں بیٹھا ہو اور درزی کی دکان پندرہ کلومیٹر دور کیوں نہ ہو۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جولوگ زندگی کے ہر شعبے میں سند اور اختصاصی مہارت کے قائل ہوتے ہیں وہ دین کا معاملہ آتے ہی سند اور اختصاص کے اصول کو یکسر فراموش کردیتے ہیں۔ بلکہ اگر کوئی انہیں یہ اصول یاد دلائے تو وہ اس کا برا مانتے ہیں۔ یاسر پیرزادہ کو بھی شاید کچھ لوگوں نے سند اور اختصاص کا اصول یاد دلادیا ہے۔ اس لیے وہ ناراض ہوکر کلیسا کی تاریخ کا حوالہ نکال لائے ہیں۔ لیکن انہیں یہ حوالے دوسرے شعبوں پر ماہرین کا ’’تسلط‘‘ دیکھ کر کیوں یاد نہیں آتا؟ یاسر پیرزادہ اس سلسلے میں کلیسا کا حوالہ لے تو آئے ہیں مگر مسلمانوں کی تاریخ کے تناظر میں کلیسا کے حوالے کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں قرآن وحدیث کی تشریح اور فقہ کے علم کا 99 فیصد حصہ حکمرانوں کے اثر سے آزاد ہے۔ مسلمانوں میں فقہ کے چار بڑے امام ہیں اور ان میں سے تین حکمرانوں کے بدترین جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنے ہیں مگر انہوں نے اس کے باوجود حکمرانوں کو کوئی رعایت نہیں دی۔ چنانچہ فقہ کی تاریخ پر علمی اعتراضات تو سیکڑوں کیے جاسکتے ہیں مگر اس پر حکمرانوں کے مفادات کے تحفظ کا اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ طب کا ایک عام اصول ہے کہ خود علاجی یا Self Medication ایک خطرناک چیز ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص سر کے درد کا علاج بھی خود کرلے تو اچھے ڈاکٹر اس کا برا مانتے ہیں۔ اس لیے کہ سردرد صرف ایک وجہ سے نہیں ہوتا۔ مطلب یہ کہ سر درد کی عام گولی کا غلط استعمال بھی جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ دین کا معاملہ اس سے ایک کروڑ گنا سنگین ہے اس لیے کہ دین میں خود علاجی Self Medication ’’ایمان لیوا‘‘ ثابت ہوسکتی ہے اور ایمان کا تحفظ جان کے تحفظ سے ایک کھرب گنا اہم ہے۔ اس لیے کہ جان جاتی ہے تو صرف دنیا جاتی ہے لیکن ایمان جاتاہے تو دنیا بھی جاتی ہے اور آخرت بھی یہی وجہ ہے کہ دین کا معمولی سا فہم رکھنے والے بھی دین کے معاملات میں خود علاجی یا Self Medication سے گریزکرتے ہیں اور یاسر پیرزادہ صاحب جیسے لوگوں کو بھی ازراہ محبت گریز ہی کا مشورہ دیتے ہیں۔ یاسر پیرزادہ صاحب نے اپنے کالم میں ایک بات یہ فرمائی ہے کہ جولوگ دوسروں کو دین میں ذاتی رائے نہ رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں وہ لوگ خود بھی ذاتی رائے دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ دین کے معاملے میں جدید لوگ ذاتی رائے دیتے ہیں اور جدید لوگوں پر اعتراض کرنے والے عام طور پر کسی نہ کسی عالم کی رائے کو دہراتے ہیں۔ یاسر پیرزادہ نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ آخر ہم عالم کسے کہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب بہت آسان ہے۔ اسلام میں عالم کی سادہ ترین تعریف یہ ہے کہ عالم علم اور عمل کا جامع ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں جو لوگ مکتب اور مدرسے اور شہرت کو معیار بناتے ہیں انہیں ہماری تہذیب میں یہ عالم کی معنویت کا علم نہیں۔ یاسر پیرزادہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کسی ایک عالم دین کی تشریح کو درست مان لیا جائے تو ان علماء کا کیا کیا جائے جو اس عالم سے 180 ڈگری کا اختلاف رکھتے ہیں؟ یاسر پیرزادہ صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایسی صورتو میں مسلمان ’’اجماع‘‘ کے اصول سے رجوع کرتے ہیں۔ یاسر پیرزادہ بھی اگر اجماع کے قائل ہوجائیں تو ان کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ البتہ اسلامی تاریخ میں گاہے گاہے مجددین اور مجتہدین آتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے علم اور تقوے کی جداگانہ شان سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ لوگ ’’قیاس‘‘ کے اہل ہوتے ہیں۔ برصغیر میں اس کی تین بڑی مثالیں موجود ہیں۔ یعنی حضرت مجدد الف ثانی ؒ حضرت شاہ ولی اللہ اور مولانا مودودیؒ۔ یاسر پیرزادہ صاحب نے ایک دلچسپ نکتہ یہ نکالاہے کہ جو لوگ دین کے بارے میں صرف ’’ماہر‘‘ کی رائے قائل ہیں ان کا رویہ خود تردیدی یا Self Contradictory ہے۔ اس لیے کہ جس طرح عام آدمی کو دین پر رائے کی اجازت نہیں اسی طرح علماء کو بھی جدید معاملات پر رائے دینے کا حق نہیں مثلاً علماء کلوننگ پر کیسے فتویٰ دے سکتے ہیں یا وہ ڈارون کے تصور Natural selection کے نظریے پر کیسے رائے دے سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ حیاتیات کے ماہر ہوتے ہیں۔ انہوں نے ڈارون کی On the origin of species پڑھی ہوئی ہے۔ یاسر پیرزادہ نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ وہ دینی فکر اور عام فکر کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں حالانکہ ان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دین میں تفکر ’’صفائے قلب‘‘ اور ’’تزکیہ نفس‘‘ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ قرآن صاف کہتا ہے کہ جس نے نفس کی خواہشات کو خدا بنایا وہ گمراہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب تک انسان نفس کی خواہشات سے جان نہ چھڑالے اس وقت تک وہ حقیقی تفکر کے قابل نہیں ہوتا۔ چنانچہ دین میں تفکر کی چار شرائط ہیں۔ (1) قرآن وسنت کا صحیح علم۔ (2) صفائے قلب۔ (3) تزکیہ نفس۔ (4) الہام ۔ ان چار شرائط کا باہمی تعلق یہ ہے کہ پہلی تین شرائط کے بغیر ’’الہام ربانی‘‘ کا حصول ممکن نہیں اور امام ابوحنیفہ کے استاد امام جعفر صادق نے فرمایا ہے کہ جس نے قرآن پر الہام کے بغیر کلام کیا وہ راندہ درگاہ ہوا۔ اس کے برعکس سائنسی موضوعات پر تفکر کے لیے صفائے قلب اور تزکیہ نفس کی کوئی صورت نہیں۔ یہاں تک کہ ڈارون کے تصورات پر گفتگو کے لیے ڈارون کو پڑھنا ناگزیر نہیں۔ صرف حیاتیات کے بنیادی اصولوں سے واقفیت کافی ہے۔ البتہ اگرکوئی ڈارون کو پڑھ بھی لے تو اور اچھی بات ہے۔ یاسر پیرزادہ کا خیال ہے کہ اب دنیا ایک Click کے فاصلے پر ہے۔ ان کے بقول ان کے پاس ایسا پروگرام ہے جس میں قرآن کے چھ ترجمے‘ تفسیر اور احادیث کی تمام کتب موجود ہیں۔ چنانچہ اب کرنا ہی کیا ہے؟ بس کمپیوٹر کو Click کرنا ہے اور سارا علم آپ کے سامنے ہوگا۔ حیرت ہے کہ یاسر صاحب علم اور معلومات کے فرق سے آگاہ نہیں۔ ہوتے تو وہ ایسی بات نہ کہتے۔ ویسے اگر ان کے فارمولے کو بنیاد بنالیا جائے تو اب دنیا دین کے عالموں کی ضرورت کیا ہر طرح کے علم کے ماہروں کی ضرورت سے بے نیاز ہوگئی ہے۔ اس لیے کہ اب انٹرنیٹ پر تمام علوم کی معلومات فراہم ہیں۔ لیکن کیا کوئی شخص انٹرنیٹ پر سرجری کی معلومات پڑھ کر سرجری کرسکتا ہے؟۔ یاسر پیرزادہ نے اپنے کالم میں یہ بھی کہا ہے کہ خود خدا کا دعویٰ ہے کہ ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا ہے۔ کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے۔ قرآن مجید کو اگر کوئی صرف زبان وبیان کی سطح پر سمجھنا چاہے تو اس کے لیے ناگزیر ہے کہ اس کی پورے قرآن تمام احادیث‘ صحابہ کرام کے اقوال اور سلف کے اقوال پر نظر ہو۔ ترجمے میں نہیں‘ اصل زبان میں۔ سوال یہ ہے کہ یہ اہلیت فی زمانہ کتنے لوگوں کے پاس ہے۔ لیکن یہ قرآن فہمی کا صحیح طریقہ نہیں۔ یہ صرف قرآن فہمی کی تکنیکی یا لسانی ضرورت ہے۔ قرآن فہمی کی روحانی ضرورت یہ ہے کہ انسان قرآن کو بسر کرنے والاہو۔ مثلاً تقویٰ کہنے کو ایک لفظ ہے لیکن تقویٰ ایک روحانی کیفیت ہے جسے صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو خود متقی ہو۔ اسی لیے قرآن کہتا ہے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو بہت سوں کو راہ دکھاتی ہے اور بہت سوں کو گمراہ کردیتی ہے۔ یاسر پیرزادہ کو حضرت علیؓ کا یہ قول بھی یاد آیا ہے کہ یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے۔ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔ لیکن حضرت علیؓ کا یہ مشورہ عام معاملات سے متعلق ہے۔ قرآن فہمی میں ’کہیں‘ سے زیادہ اہمیت ’کون‘ کی ہے۔ یعنی قرآن کریم کی تشریح کی بہترین صورت یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں قرآنی آیات کا مفہوم عیاں کیا جائے۔ اس کے بعد احادیث مبارکہ کی اہمیت ہے۔ اور پھر صحابہ کرام کے اقوال کی۔ اور ان تمام چیزوں میں کیا اہم نہیں ہے کون اہم ہے۔

No comments:

Post a Comment